السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قبر پر تعظیمی سجدہ کرنا شرک ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہر قسم کی عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ لہذا تمام بدنی عبادات بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
(وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ)(بخاري، الاذان، التشھد فی الاخرة، ح: 831)
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢﴾ لا شَريكَ لَهُ...﴿١٦٣﴾.... سورةالانعام
’’آپ فرما دیجیے کہ یقینا میری نماز، میری ساری عبادات، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
سجدہ عبادت کا کامل ترین مظہر ہے۔ یہ انتہائی تذلل اور عاجزی و انکساری کی علامت ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس کی حقیقی مستحق ہے، لہذا قبروں پر سجدہ کرنا شرک ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اركَعوا وَاسجُدوا وَاعبُدوا رَبَّكُم ...﴿٧٧﴾... سورة الحج
’’ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو، اور اپنے رب کی عبادت کرو۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿فَاسجُدوا لِلَّهِ وَاعبُدوا ﴿٦٢﴾... سورة النجم
’’اللہ کے لیے ہی سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔‘‘
ایک دعا سے بھی معلوم ہوتا ہے:
(سجدَ وجهـيَ للذي خلقَـه وشَـقَّ سمعَـه وبصرَه بحولـِه وقـوَّتِه فتبارك الله أحسن الخالقين)(ترمذي، الجمعة ما یقول فی سجود القرآن، ح: 580، ابوداؤد، ح: 1414)
’’میرے چہرے نے اس ہستی کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا، اور اپنی قوت و طاقت سے کان اور آنکھیں عطا کیں۔ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) اللہ بابرکت ہے جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
جو شخص مخلوقات میں سے کسی کو سجدہ کرتا ہے وہ دراصل اس کی عبادت کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے والا شمار نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ الَّيلُ وَالنَّهارُ وَالشَّمسُ وَالقَمَرُ لا تَسجُدوا لِلشَّمسِ وَلا لِلقَمَرِ وَاسجُدوا لِلَّهِ الَّذى خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُم إِيّاهُ تَعبُدونَ ﴿٣٧﴾... سورة حم السجدة
’’اور دن رات اور سورج چاند بھی اسی کی نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کو کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو۔‘‘
(إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ) سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق کو سجدہ کرنا خالص عبادت الہٰی کے منافی ہے۔ اس لیے جو(إِيَّاكَ نَعْبُدُ) کا عتقاد رکھتا ہو اوراس کا اعتراف و اقرار کرتا ہو، اس کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ کسی قبر وغیرہ کو سجدہ کرے۔
ہر قسم کا سجدہ عبادت ہے، یہ حقیقت درج ذیل حدیث سے معلوم بھی ہوتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في نفر من المهاجرين والأنصار ، فجاء بعير فسجد له فقال أصحابه : يا رسول الله تسجد لك البهائم والشجر فنحن أحق أن نسجد لك . فقال : "اعبدوا ربكم ، وأكرموا أخاكم)(مسند احمد 67/6، وفیہ علی بن زید وھو ضعیف عند الجمھور)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں موجود تھے کہ ایک اونٹ نے آ کر آپ کو سجدہ کیا۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو جانوراور درخت سجدہ کرتے ہیں ان سے زیادہ تو ہمارا حق ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی تعظیم کرو۔‘‘
(اعْبُدُوا رَبَّكُمُ) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس سجدے کی اجازت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مانگ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبادت قرار دیا اور اسے رب تعالیٰ کے لیے کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس قسم کے سجدے کو لوگ اپنے خیال کے مطابق تکریمی یا تعظیمی سجدہ کہتے ہیں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبدت کا نام دیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی چیز کو کسی بھی قسم کا سجدہ کرنا جائز نہیں۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
(أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَقُلْتُ رَسُولُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُسْجَدَ لَهُ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ إِنِّي أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ . قَالَ " أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ " . قَالَ قُلْتُ لاَ . قَالَ " فَلاَ تَفْعَلُوا)(ابوداؤد، النکاح، فی حق الزوج علی المراة، 2140)
’’میں شہر حیرہ میں گیا، میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے راجہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے دل میں کہا: بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کیے جانے کے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ میں نے آپ کے پاس آ کر کہا: میں نے حیرہ میں لوگوں کو دیکھا کہ راجہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ آپ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ نے فرمایا: بھلا بتا تو سہی کہ اگر تو میری قبر کے پاس سے گزرے تو کیا اس پر سجدہ کرے گا؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: "تم یہ کام بھی نہ کرو۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی زندہ، مردہ اور قبر و حجر وغیرہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ اسی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخلوقات کو سجدہ کرنے سے بھی منع فرمایا:
(فَلاَ تَفْعَلُوا لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لأَحَدٍ لأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ )(ابوداؤد، النکاح، فی حق الزوج علی المراة، ح: 2140)
’’ایسا مت کرو اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم کرتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ مردوں کا اللہ نے عورتوں پر (بڑا) حق مقرر کیا ہے۔‘‘
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ملک شام گئے وہاں یہودونصاریٰ کو دیکھا "يسجدون احبارهم ورهبانيهم" کہ وہ اپنے علماء اور مشائخ کو سجدہ کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ کہا: یہ انبیاء کی تحیت (سلام) ہے۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کی کہ ہم زیادہ حقدار ہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کریں۔ آپ نے فرمایا:
’’انہوں نے اپنی کتاب بدل دی ہے۔ اگر میں کسی کے لیے سجدہ کا حکم کرتا تو شوہر کے عظیم حق کے سبب عورت کو حکم دیتا۔‘‘ (مسند احمد 381/4)
قبروں پر سجدہ کرنے والوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے۔ دعاائے نبوی ہے:
(اللهم لا تجعل قبري وثناً يعبد، اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد)(موطا امام مالک، قصر الصلاۃ فی السفر، جامع الصلاۃ، ح: 416، مرسل، مسند حمیدی، ح: 1025، مسند احمد 2/242، موصول)
’’اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ پوجی جائے۔ ایسی قوم پر اللہ کا شدید غضب نازل ہو جنہوں نے اپنے نبیء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
ارشاد نبوی ہے:
(لعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد) (مسند احمد 246/2)
’’اس قوم پر اللہ لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
اس حدیث سے ملتی جلتی دیگر بھی کئی احادیث ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبروں پر سجدے کرنا قبروں کی عبادت ہے نیز ایسے لوگ مغضوب علیہم ہیں، بعض احادیث میں ایسے لوگوں کو بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں (أولئك شرار الخلق عند الله) (بخاری، ح: 427،434،1341،3878، مسلم، ح: 528) کے الفاظ ہیں۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مجھے ایک حدیث پہنچی کہ ایک صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم حضور کو بھی ایسا ہی سلام کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپس میں:
(افلا نسجدلك؟ قال:((لا ولكن اكرموا نبيكم واعرفوا الحق لاهله فانه لا ينبغى ان يسجد لاحد من دون الله(( فانزل الله تعالىٰ: ((وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿٨٠﴾)) (آل عمران 3/80) ([1])
کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ فرمایا: نہیں، بلکہ اپنے نبی کی تعظیم کرو اور سجدہ خاص حق خدا ہے اسی کے لیے رکھو۔ کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ سزاوار نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (ترجمہ)’’نبی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں حکم فرمائے کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو رب ٹھہراؤ، کیا نبی تمہیں کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
(حرمت سجدہ تعظیم از احمد رضا خان بریلوی، ص: 11)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا اسے رب بنانا ہے۔ نیز یہ کہ ایسا کرنا کفر ہے۔
[1] اس روایت کو علامہ سیوطی نے لباب النقول میں بایں الفاظ نقل کیا ہے: اخرج عبدالرزاق فى تفسيره عن الحسن قال: بلغنى ان رجلا قال: يا رسول الله ۔۔۔ اس روایت کے ان الفاظ سے ہی پتا چل رہا ہے کہ یہ مرسل ہے۔ (محمد ارشد کمال)
نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے اسے عبد بن حمید کے حوالے سے العجاب فی بیان الاسباب 705/2 میں نقل کیا ہے۔ اسی طرح ابوالحسن علی بن احمد الواحدی نے اسباب النزول، ص: 64 میں اسے حسن بصری سے بلا سند نقل کیا ہے۔ یہ مرسل ہونے کی وجہ سے ہی ضعیف ہے۔ نیز دیکھیں الاستیعاب فی بیان الاسباب 268،269/1 (ابوالحسن مبشر احمد ربانی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب