السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’امام ضامن کا روپیہ‘‘ باندھنے کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض کم عقل لوگ موسیٰ کاظم کے بیٹے علی رضا کو امام ضامن کہتے ہیں۔ امام ضامن کی نذرونیاز کی رقم "امام ضامن کا روپیہ" کہلاتی ہے۔ جسے فاسد العقیدہ لوگ سفر پر جاتے وقت اپنے بازو پر باندھ لیتے ہیں تاکہ دورانِ سفر میں خیریت سے رہیں، جبکہ شریعت نے سفر میں خیریت و عافیت میں رہنے کے لیے دعا سکھلائی ہے نہ کہ امام ضامن کا روپیہ باندھنا۔ دعا کے آخری الفاظ یوں ہیں:
(اللَّهُمَّ أَنتَ الصَّاحِبُ في السَّفَرِ ، وَالخَلِيفَةُ في الأهْلِ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وعْثَاءِ السَّفَرِ ، وكآبةِ المنظَرِ ، وَسُوءِ المنْقلَبِ في المالِ والأهلِ)(مسلم، الحج، استحباب الذکر اذا رکب دابته۔۔، ح: 1342)
’’اللہ! تو ہی سفر میں رفیق اور گھر والوں میں نائب ہے۔ اللہ! میں سفر کی مشقت سے، مال اور اہل میں منظر کے غم سے اور ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
مقیم و مسافر ہر کسی کا محافظ اور ضامن اللہ ہی ہوتا ہے۔ شریعتِ بیضاء میں مسافر کی مقیم کے لیے اور مقیم کی مسافر کے لیے دعا سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے۔ مسافر سفر پر نکلتے وقت مقیم کے لیے یوں دعا کرے:
(استودعك الله الذى لا يضيع ودائعه)(مسند احمد 403/2، ابن ماجه، ح: 2825)
’’میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں جس کے سپرد کی ہوئی چیزیں ضائع نہیں ہوتیں۔‘‘
اور مقیم مسافر کے لیے یوں دعاگو ہو:
(أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ)(ابن ماجه، الجھاد، تشییع الغزاة وداعھم، ح: 2826)
’’میں آپ کے دین، آپ کی امانت اور اعمال کے خاتموں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘
جب یعقوب علیہ السلام سے بیٹوں نے کہا:
﴿فَأَرسِل مَعَنا أَخانا نَكتَل وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٦٣﴾... سورة يوسف
’’تو آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیج دیجیے کہ ہم پیمانہ بھر کر لائیں، اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
تو انہوں نے جواب دیا:
﴿فَاللَّهُ خَيرٌ حـٰفِظًا ... ﴿٦٤﴾... سورة يوسف
’’اللہ ہی بہت بہتر حافظ ہے۔‘‘
لہذا سفر میں خیروعافیت میں رکھنے والا امام ضامن نہیں، اللہ رحیم و کریم ہے۔
مزید برآں نذرونیاز عبادت ہے اور تمام عبادات اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔ آپ نماز میں بھی پڑھتے ہیں:
«التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ»(بخاري، الاذان، التشھد فی الاخرة، ح: 831)
’’زبان کی عبادتیں، بدنی اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں۔‘‘
تو اگر کوئی شکص کسی اور کے لیے نذرونیاز مانتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢﴾ لا شَريكَ لَهُ...﴿١٦٣﴾... سورةالانعام
’’آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز، میری ساری عبادت، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘
ملحوظہ: معلوم نہیں کہ اب بھی لوگ امام ضامن کا ’’روپیہ‘‘ ہی باندھتے ہیں یا روپے کی قیمت گرنے کی وجہ سے پچاس سو، پانچ سو، ہزار یا پانچ ہزار کا نوٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ دیگر ممالک کے جہلاء اس مذموم مقصد کے لیے پاکستانی کرنسی درآمد کرتے ہیں یا پھر ڈالر، پونڈ وغیرہ سے ہی کام چلا لیتے ہیں!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب