السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ یا شاید پورے ملک میں ایک فتنہ یا مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے کہ "لا اله الا الله محمد رسول الله" جسے ہم کلمہ طیبہ کا نام دیتے ہیں اس کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لوگ علماء سے رجوع کرتے ہیں لیکن اطمینان نہیں ہوتا۔ افضل الذکر لا اله الا الله کا ثبوت ہے لیکن محمد رسول الله سمیت پورے کلمے کا ثبوت نہیں ملتا۔ اسلام قبول کرتے وقت یہ کلمہ پڑھنا چاہئے یا کلمہ شہادت اگر کلمہ شہادت پڑھنا چاہئے تو کیا یہ کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہو جائے گا؟ وہ لوگ گرامر کے اعتبار سے بھی اس کلمہ کو درست قرار نہیں دیتے۔ کہ ایک ہی جملہ بنتا ہے۔ لفظ اللہ کو مبدل منہ اور محمد رسول اللہ کو بدل بناتے ہیں کہ ایک ہی چیز ہو گئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کلمہ کی وجہ سے الٰہ ثابت ہو گئے۔ براہ کرم مجلہ میں اس بات کی خوب وضاحت کریں کیونکہ یہ بھی توحید ہی کی ایک بات ہے، عقیدے سے اس کا تعلق ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ اس مضمون کے بیک وقت میں نے دو خط لکھے ہیں، ایک ماہنامہ محدث لاہور کو لکھا ہے، ہو سکتا ہے ان کے مضامین پہلے سے مرتب کر دیے گئے ہوں، اگر وہ بھی اس مسئلہ پر تحقیق کر کے لکھتے ہیں تو اگر یہ مسئلہ دو رسالوں میں آ جائے گا تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں جیسا آپ مناسب سمجھیں کیونکہ اس مسئلے کا فتنہ پھیلا ہوا ہے، اس لیے اس کا جواب جلد از جلد ضروری ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جس طرح توحید کا اقرار ضروری ہے اسی طرح رسالت کا اقرار بھی لازمی ہے۔ توحید و رساالت کا اقرار "لا اله الا الله محمد رسول الله" میں جمع ہے۔ اقرار کی نیت سے "لا اله الا الله محمد رسول الله" پڑھنے والا مسلمان ہو جاتا ہے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جہنم پر حرام کر دے گا جو اِس بات کی شہادت دے کہ "لا الہ الا اللہ" اور یہ کہ محمد رسول اللہ" (مسند احمد 318/5، مسند ابی عوانة 16/1)
اسی طرح بخاری (ح: 1369) اور تلخیص الحبیر از ابن حجر عسقلانی (ح: 1705) اور دیگر کتب حدیث میں بہ کثرت احادیث ہیں۔
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں حتی کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ‘‘ "لا اله الا الله" اور یہ کہ محمد رسول الله"(مسلم، الایمان، الامر بقتال الناس حتی یولوا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ح:22)
اگرچہ مکمل کلمہ طیبہ کا ذکر بعض احادیث میں موجود ہے اگر بالفرض بعینہ مکمل کلمہ طیبہ کا ذکر قرآن و حدیث میں نہ ملتا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ میں جمع ہوتی ہے۔ اسی لیے بعض محدثین نے کتب حدیث میں تبویب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ سے کی ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح مسلم کی اوپر ذکر کردہ حدیث پر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی تبویب (باب قائم کرنے) سے ظاہر ہوتا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بعینہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"حدثنا ابو محمد بن حيان ثنا عبدالله بن اسحاق بن يوسف ثنا ابى ثنا حفص بن عمر العدنى ثنا الحكم بن ابان عن عكرمة عن ابن عباس ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: ((من خالف دين الله من المسلمين فاقتلوه ومن قال لا اله الا الله محمد رسول الله فلا سبيل لاحد عليه الا اصاب حدا فانه يقام عليه"
(تاریخ اصبھان 261/1، ط۔1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، اس کی سند میں حفص بن عمر العدنی ضعیف راوی ہے۔)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے جو اللہ کے دین کی مخالفت کرے اسے قتل کر دو (کیونکہ مرتد کی سزا قتل ہے) اور جو شخص"لا اله الا الله محمد رسول الله" کہے اس کا مؤاخذہ کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں مگر جو کوئی حد کو پہنچنے والے جرم کا ارتکاب کرے گا اس پر حد قائم کی جائے گی۔‘‘
نیز اس حدیث کو دیوان النسائی (667) میں اور تحفۃ الاشراف میں من قال ۔۔ کے بیان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید و رسالت کے اعلان کے طور پر عہد نبوی میں "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ ([1])
مزید برآں یہ مسئلہ عوام کی سطح کا نہیں تھا کس کا اپنی "علمیت" ظاہر کرنے کے لیے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ یہ خالص علمی بحث ہے جو کہ صرف لفظوں کی حد تک محدود ہے ورنہ کوئی مسلمان لا الہ الا اللہ کا منکر ہے نہ محمد رسول اللہ کا۔ عوام تو اس بحث سے شاید یہی سمجھیں گے کہ مسلمانوں کا کلمہ ہی غلط ہے۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے اور یہی بات اگر یہودونصاریٰ کے ہاتھ لگ جائے تو شاید انہیں عورتوں کی امامت کے مسئلے کی طرح ایک اور موقع اپنی "فقاہت" پھیلانے کا حاصل ہو جائے۔
باقی رہی یہ بات کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ گرامر کے اعتبار سے ہی درست نہیں، تو یہ بات بھی لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے کیونکہ لا الہ الا اللہ میں لفظ اللہ کسی طرح بھی محمد رسول اللہ کا مبدل منہ نہیں بنتا اور نہ محمد رسول اللہ لفظ اللہ کا بدل ہے۔ لا الہ الا اللہ الگ جملہ ہے اور محمد رسول اللہ دوسرا الگ جملہ اور دونوں جملوں میں الگ الگ چیزوں کا بیان ہے، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ ہونے کا جبکہ دوسرے جملے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا بیان ہے۔ تعجب ہے کہ لوگ الٰہ اور رسول کے فرق کو نہیں سمجھتے۔ اور نہ یہ بدل کا مفہوم ہی سمجھتے ہیں ورنہ غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔ کلمہ طیبہ میں بدل کی اقسام بدل الکل، بدل البعض، بدل الاشتمال وغیرہ میں سے کوئی بھی قسم نہیں پائی جاتی۔
اگر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ گرامر کے اعتبار سے غلط ہوتا تو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ جیسے (تہذیب الاسماء واللغات جیسی کتب کے مصنف) لغت کے ماہر صحیح مسلم میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ سے تبویب نہ کرتے جیسا کہ اوپر گزرا اور نہ حدیث میں ہی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ اس طرح آتے۔
مزید برآں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ گرامر قرآن و حدیث پر حاکم نہیں ہے۔ اہل زبان کے استعمالات کا نام ہی تو گرامر ہے۔
عربی زبان اور قرآن و حدیث کے محاورات اور جملوں کو دیکھ کر ہی تو قواعدِ نحو (گرامر) وضع کیے گئے ہیں۔ گرامر کی صحیح حیثیت اور مقام و مرتبہ سے لا علمی کی وجہ سے ہی بعض لوگ غلط فہمیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی حرکت جعلی قرآن فرقان الحق کے مصنف نے کی ہے۔ مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے اس نے گرامر کی رُو سے قرآن کی "غلطیاں" نکالی ہیں۔ قاتله الله! جو کہ اس کی حماقت اور جہالت کا ثبوت ہے۔ اسے اتنی بھی خبر نہیں کہ اگر تو خود قرآن سے بنی ہے۔ اور قرآن کے نزول سے بہت بعد کی پیداوار ہے۔
[1] اسی طرح فوائد الحنائی للامام العدل ابی القاسم الحسین بن محمد الحنائی المتوفی 209ھ میں 154/1 پر، جس کی تخریج الامام الحافظ ابی محمد عبدالعزیز بن محمد النخشی المتوفی 456ھ نے کی ہے، یہی روایت موجود ہے اور انہوں نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ هذا حديث صحيح ، نیز دیکھیں تاریخ دمشق 258/63، تفسیر طبری (31650) 254/10،ط: دارالحدیث القاھرۃ، 309/21 بتحقیق الدکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، کتاب الایمان لابن مندۃ (200)، ص: 165 (ابوالحسن مبشر احمد ربانی عفا اللہ عنہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب