سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) حالت نشہ میں طلاق دی اور ہوش آنے پر اسے تسلیم کیا تو کیا طلاق ہو جائے گی؟

  • 23354
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-08
  • مشاہدات : 1154

سوال

(67) حالت نشہ میں طلاق دی اور ہوش آنے پر اسے تسلیم کیا تو کیا طلاق ہو جائے گی؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص جوکہ شراب کاخوب رسیاہے، حالتِ غضب میں اپنی بیوی سےکہتاہے، تمہیں تین طلاق ہواور باربار یہی الفاظ دہراتاہے۔ دوسرےدن اس کےایک بیٹے نےاس سےپوچھا: کیا تم جانتےہوکہ تم نےکیا کہا تھا؟ کیاواقعی تمہاراارادہ طلاق کاتھا؟ تووہ جواب دیتا ہے:ہاں! اسےتین طلاقیں ہوں۔ دو دن کےبعد پھر یہی سوال کیاگیا اوراس نے یہی جواب دیا۔اب کیا اس کی بیوی پرطلاق واقع ہوگئی اورکس قسم کی طلاق واقع ہوئی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آدمی کاکثرت سےشراب پینا اس مسئلہ میں کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس نے نشہ کی حالت میں طلاق نہیں دی۔ اب رہا اس نےغیض وغضب کی حالت میں طلاق دی تو جمہور فقہاء کےنزدیک غصہ میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے،الایہ کہ بقول احناف آدمی مدہوشی کےعالم میں ہو۔ مدہوش سےمراد ایسی حالت ہےکہ جس میں انسان کےاقوال اورافعال میں خلل واقع ہوجائے یاوہ بقول دیگر فقہاء درجہ اغلاق تک پہنچ جائے۔درجہ اغلاق سےمراد انتہائی غصہ اورغضب کی حالت ہےکہ جس میں انسان کوکچھ پتہ نہ ہوکہ وہ کیا کہہ رہا ہےاوراس کی بات کاکیا مطب ہے؟ لیکن سوال سےظاہر ہوتاہےکہ اس شخص نےدوسرےاورتیسرے دن پوچھے جانے پرطلاق دینے کےبارےمیں مزیدتاکیدی الفاظ کہے اوریہ بھی بتادیا کہ اس کی نیت طلاق دینے کی تھی۔ اس صورت میں سب کےنزدیک طلاق واقع ہوجائے گی۔

چاروں فقہی مذاہب کےنزدیک یہ طلاق بائنہ مغلظہ شمار ہوگی کیونکہ ان کے نزدیک ایک ہی دفعہ دی گئی تین طلاقیں ہی شمار ہوتی ہیں۔ گویا یہ طلاق ایسی ہےکہ اس کےبعد شوہر نہ رجوع کرسکتاہےاورنہ دوبارہ اس عورت سےشادی ہی کرسکتا ہے۔مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ کےنزدیک صرف ایک طلاق واقع ہوگی اور اسی رائے کوکئی اسلامی ملکوں نےبھی اپنایا ہے۔ ان کےنزدیک طلاق بائن مغلظہ اسی وقت ہوگی جبکہ اس طلاق سےپہلے بھی دوطلاقیں واقع ہوچکی ہوں۔ہماری رائے میں ابن تیمیہ ﷫ کی اس رائے کولیا جاسکتاہے،خاص طورپر جبکہ سائل نےاس بات کی بھی وضاحت نہیں کی کہ اس کی شادی شرعی طورپرہوئی تھی یا صرف ملکی قانون(سول لاء) کےمطابق  ہوئی تھی،اس لیے ہم نے فقہاء کےاقوال کی رواشنی میں مختصرجواب دے دیا ہے۔ ہم سائل کومشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی مقامی عالم سےبھی رجوع کریں تاکہ اس مسئلہ سےمتعلق تمام حالات علم میں آجائیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

نکاح و طلاق کےمسائل،صفحہ:388

محدث فتویٰ

تبصرے