سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) غیر شرعی طریقے سے ذبح کرنے والے مذبح خانے میں ملازمت کرنا

  • 23340
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1140

سوال

(53) غیر شرعی طریقے سے ذبح کرنے والے مذبح خانے میں ملازمت کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاایسے مذبح خانوں میں ملازمت جائز ہے جہاں مرغیوں کوغیرشرعی طریقے سے ذبح کیاجاتا ہو، نیز شریعت میں ذبح کاصحیح طریقہ کیاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں پہلے دوائمہ کی رائیں ملاحظہ ہوں:

غیرشرعی طریقےسے جانور کاذبح کرنا گناہ ہےاورگناہ کےکام میں تعاون کرنے سےمنع فرمایا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...﴿٢﴾... سورة المائدة

’’ گناہ اورسرکشی کےکاموں پرتعاون نہ کرو۔،،

البتہ اگر ایک مسلمان جوکہ ایک غیر مسلم مذبح خانے میں کام کرتاہولیکن جانور کوباقاعدہ اللہ کا نام لے کرذبح کرتاہوتواس کی کمائی کےحلال ہونےمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ذبیحہ کےحلال ہونے کےلیے چار شروط کا‎پایا جانا ضروری ہے، جن میں سے پہلے دوشرطیں قرآن سےاوردوسری دوشرطیں حدیث سےماخوذ ہیں:

1۔ ذبح کرنےوالا مسلمان ہویااہل کتاب( یہودی ونصاریٰ) میں سےہو۔

2۔ ذبح کرتے وقت اللہ کانام لیاجائے(اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں،ہاں اگر اللہ کےسواکسی اورکےنام پرذبح کیا توحلال نہ ہوگا)۔

3۔ گردن پراس طرح چھری چلائی جائے کہ خون کی دورگیں اورہوا اورخوراک کی دو نالیاں کٹ جائیں۔

4۔ چھری یاکسی تیز دھار آلے سے ذبح کیا جائے۔

اب ایک سوال یہ رہ جاتا ہےکہ آیا یہودونصاریٰ کاذبیحہ مطلقاً جائز ہے یا نہیں؟

جواباً عرض ہےکہ جہاں تک یہود کاتعلق ہے وہ ذبیحہ کی ساری شرائط پوری کرتے ہیں، اس لیےان کا ذبیحہ (کوثر Kosher ) جائز ہے اورجہاں تک عیسائیوں کاتعلق ہے توان کےذبیحے میں دو باتوں کا فقدان ہے۔ایک تو یہ کہ وہ اللہ کا نام نہیں لتیے، دوسرےیہ کہ بھیڑ گائے وغیرہ کوذبح سےپہلے برقی جھٹکا دیتےہیں، یااگر جانور بڑا ہو تواسے ہتھوڑے کی مانند ایک بلٹ ماری جاتی ہے، جس سےجانور بےہوش ہوجاتاہےاورپھر اسے ذبح کیا جاتاہے۔

اوراگر مرغی کا ذبیحہ ہوتو مرغیوں کوپانی کےایسے ٹب سےگزارا جاتاہےجس میں برقی رو دوڑ رہی ہوتی ہے، جونہی الٹی لٹکی ہوئی مرغی کا سراس پانی سےگزرتا ہےمرغی بےہوش ہوجاتی ہےاورپھر ایک خود بخود گھومنے والے تیز دھار آلے کی زد میں اس کی گردن گزرتی چلی جاتی ہے اورخون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔

جہاں تک اس طریقے سےمرغی کےذبیحہ کاتعلق ہے توبرطانیہ فوڈ انڈسٹری کی اپنی رپورٹ کےمطابق تیس فی صد مرغیاں برقی رو سے مرجاتی ہیں۔ گویا ہمارے پاس یہ جاننے کاکوئی ذریعہ نہیں کہ کون سی مرغی بوقت ذبح زندہ تھی اورکون سی مردہ۔

نبی ﷜کا فرمان ہے:

« دع مايريبك الىٰ مالا يريبك»

’’ جس میں شک ہواسےچھوڑ دواور اسے اپنا لوجس میں شک نہ ہو۔،،

(جامع الترمذی ، صفۃ القیامۃ،حدیث: 2518، وسنن النسائی ‎،الاشربۃ، حدیث:5714 )

 کیونکہ مرغی کےذبیحہ میں شک واقع ہوگیا، اس لیے عیسائیوں کےکمرشل ذبیحہ سےبچنا چاہیے۔ جہاں تک دوسرے جانوروں کاتعلق ہےتو یہ جانور’’موقوذہ،، (چوٹ کھایا ہواجانور) کی تعریف میں آتےہیں۔گوسورہ مائدہ کی آیات سےمعلوم ہوتاہے کہ ایسا جانور جو دم گھٹنے کی بناپر، چوٹ لگنےکی بناپر، اونچائی سےگرنے کی بناپر، دوسرے جانور کےسینگ سےزخمی ہونے کی بناپر اگر مرنےکےقریب ہواور مرنے سےپہلے اسےذبح کرلیا جائےتواس کاکھانا جائز ہےلیکن یہ اضطراری ذبیحہ کابیان ہے،نہ کہ اختیاری ذبیحہ کا۔

ظاہر ہےکہ اگرتازہ پھل دستیاب ہوتو ایک انسان گلاسٹرا پھل کیوں کھائے گا؟ اسی وقت کھانے پرمجبور ہوگا جب بھوک سے بےتاب ہواورصرف گلاسڑا پھل ہی موجود ہو،اس لیے اس قسم کےذبیحہ کوہم بالکل حرام تونہیں کہہ سکتے لیکن اتنا ضرور کہیں گےکہ جہاں حلال گوشت دستیاب ہو، وہ بھی نہ ہوتو’’ کوثر،، موجود ہوتوپھر مشینی ذبیحہ کیوں کھایا جائے؟ بعض لوگ یہ استدلال بھی کرتےہیں کہ جب قرآن نےاہل کتاب کاذبیحہ جائز رکھا ہے توآپ یہ شرطیں کیوں لگاتےہیں؟

اس کاجواب یہ ہےکہ اہل کتاب کاذبیحہ صرف اسی لیے جائز رکھا گیاہے کہ وہ ایک کتاب(تورات) کےحامل ہیں، جس میں انہیں ذبح کرنےکاطریقہ بتادیاگیاہے۔

ہم مسلمان بھی تواہل قرآن ہونے کی بنا پرایک مسلمان کاذبیحہ کھاتےہیں کہ قرآن میں ذبیحہ کی لازمی شرط بتادی گئی ہے۔ اب اگر مسلمان یاعیسائی اپنی کتاب میں دی گئی شرائط کوملحوظہ نہ رکھے تووہ کتاب کےہوتےہوئے بھی جاہل قرار دیا جائے گااور اسی لیے اس کا ذبیحہ جائز متصورنہ ہوگا۔

ہم پہلے ہی کہہ چکےہیں کہ اہل کتاب میں سے یہود نےکتاب کی شروط ملحوظ رکھیں توان کاذبیحہ جائز قرارپایا اورعیسائیوں نےان شروط کوپس پشت ڈال دیا، اس لیے ان کا ذبیحہ جائز نہ رہا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

حلال وحرام کےمسائل،صفحہ:361

محدث فتویٰ

تبصرے