سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) ذبیحہ میں نیابت کرنے والے کا بوقت ذبح قربانی کرنے والے کا نام لینا

  • 23331
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 871

سوال

(44) ذبیحہ میں نیابت کرنے والے کا بوقت ذبح قربانی کرنے والے کا نام لینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا ہےکہ کسی دوسرے کی طرف سےذبح کرتے وقت اس کا نام لینا ضروری ہےیا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بارے میں ابن قدامہ لکھتےہیں:

مسئلہ :ضروری نہیں کہ ذبح کرتے وقت یہ کہے: ’’ فلاں کی طرف سے،، کیونکہ نیت کافی ہے۔ نیت کےکافی ہوتے کےبارے میں کوئی اختلاف نہیں، پھر بھی اگر اس کا نام لے لے جس کی طرف سےذبح کررہا ہےتوبہتر ہوگا۔

فصل: ایک شخص نےقربانی کاجانور متعین کرویا لیکن کسی دوسرے نےبغیر  اس کی اجازت کےاسے ذبح کردیا تویہ قربانی ہوجائے گی اورذبح کرنے والے پرکوئی تاوان عائد نہ کیاجائے گا۔ یہ رائے امام حنیفہ کی ہے۔

امام مالک کہتےہیں: یہ تو صرف ایک بھیڑ کاگوشت شمار ہوگا، بھیڑ کےمالک کو تاوان واجب الادا ہوگا اور اسے دوسرا ایک جانور ذبح کرناہوگا کیونکہ ذبح کرنا عبادت ہےاور اگر اس کےمالک کی اجازت کےبغیر اس عبادت کوکیا گیا تو وہ ادا نہ ہوگی جیسے کہ زکاۃ کامسئلہ ہے۔

امام شافعی نےکہا: بھیڑ کےمالک کواتنا تاوان واجب الادا ہوگا جوبھیڑ کی قیمت (زندہ حالت میں ) اوربعد ذبح قیمت کےدرمیان ہو۔

ہمارے قول کی دلیل یہ ہے کہ یہ فعل نیت کامحتاج نہیں۔ اگر کوئی دوسرا بھی کرڈالے تو کافی ہوگا جیسے آدمی کےکپڑے پرنجات لگ جائے اورکوئی دوسرا اسے دھوڈالے۔

یوں بھی کہا جاسکتا ہےکہ بدنی عبادات، جیسے نماز اور روزے میں نیامت نیہں ہوتی لیکن مالی عبادات جیسے زکاۃ اورقربانی میں نیابت اس لیے جائز ہےکہ اس میں فقراء کوفائدہ پہنچایا مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اگرزکاۃ کارقم فقراء تک پہنچ گئی اوراسی طرح قربانی کا گوشت بھی ذبح کےبعد مستحقین تک پہنچ گیا اور تو پھریہ نہیں دیکھا جائے گا کہ زکاۃ دینے والے نےخود اپنی زکاۃ فقراء تک پہنچائی تھی یا اس کےنائب نےاور اسی طرح قربانی میں بھی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ آدمی نےخود قربانی کرکے گوشت تقسیم کیا تھا یا اس کی طرف سےکسی اورنے یہ عمل سرانجاز دیا تھا۔

کسی دوسرے کی طرف سےقربانی کرنے پریہ آثار بھی ملاحظہ ہوں:

حضرت ابن عمرﷺ  جنین(جوبچہ ابھی شکم مادر میں ہو) کےعلاوہ اپنے تمام چھوٹے اوربڑے بچوں کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھےاور عقیقہ اپنی تمام اولاد کی طرف  سےکرتےتھے۔

معمر کہتےہیں: میں زہری سےپوچھا: کیا ہم غیرحاضر شخص کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں توان انہوں نےکہا:’’ لا باس بہ’’ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔،،

اب آئیے حدیث فاطمہ کی طرف۔امام حاکم یہ روایت لائے ہیں کہ عمران بن حصین ‎‎ؓ سےمروی ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا:

’’ اے فاطمہ ! اپنی قربانی کی طرف کھڑی ہوجاؤ اوروہاں حاضر رہو کیونکہ اس کے خون کاپہلا قطرہ جوں ہی بہے گا تمہارے ہراس گناہ کی مغفرت ہوجائے گی جوتم نے کیاہوگا۔(قربانی کےوقت) یہ الفاظ کہو:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَريكَ لَهُ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورة الانعام

عمران نےپوچھا: اللہ  کےرسول! کیا یہ بات صرف آپ کےلیے اورآپ کےاہل بیت کےلیے ہےیا تمام مسلمان کےلیے ہے؟

آپ ﷺ نےفرمایا: نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کےلیے ہے۔،،(مستدرک حاکم 4؍222)

امام حاکم تواپنی ہرروایت کےبارےمیں کہتےہیں کہ صحیح الاسناد ہےگوبخاری و مسلم نےاسے روایت نہیں کیا، اس لیے حقیقت جاننے کےلیے امام ذہبی کاسہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ کہتےہیں: اس کی سند میں ابوحمزہ شمالی جاننے نہایت کمزور راوی ہے اور دوسرا راوی اسماعیل بھی اتنا قابل اعماد نہیں۔( ذیل مستدرک حاکم:4؍222)

 حاکم حضرت ابوسعید سےبھی روایت لائے ہیں جس کےایک راوی’’عطیہ،، کےبارےمیں ذہبی کہتےہیں:عطیہ(واہ جداً ) بہت کمزور راوی ہے۔

امام بیہقی نےبھی یہ روایت ذکر کی ہے، وہاں بھی ابوحمزہ والی سند ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہواکہ یہ وہ واحد روایت ہے جس میں ذبیحہ کےوقت حاضر رہنے کا حکم دیا گیا ہےلیکن اس روایت کےضعیف ثابت ہوجانے کےبعد ایسا لازم قرار دنہیں دیا جاسکتا،اس لیے اہل علم نےاس امر کومستحب قرار دیا ہے۔یہ بھی سوچنے کی بات ہےکہ انگلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ کےقریب ہے، گویا کم از کم پانچ لاکھ گھرانے آباد ہیں جوقربانی کرنا چاہتےہیں۔ اس ملک میں اب تک ایسی سہولت میسر نہیں کہ پانچ لاکھ قربانیاں ایسے ذبح خانوں میں کی جاسکیں جہاں حلال طریقے سےذبح کرنے کی اجازت ہو، اس لیے ہم یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ حضرات اپنے اپنےعلاقوں میں ذبح کرنے پرقادر ہوں وہ یہیں ذبح کرنےکی کوشش کریں۔

لیکن جوایسا نہ کرسکیں وہ یاتومسلم ممالک میں اپنے رشتہ داروں کووکیل بنادیں یا مسلم رفاہی وخیراتی تنظیموں کاسہارا لیں جونہ صرف پاک وہند بلکہ فلسطین اورافریقہ کےکئی قحط زدہ ممالک میں قربانی کابندوبست کرتی ہیں جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد قربانی کےگوشت سےاپنی بھوک مٹا پاتےہیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

حج و قربانی کےمسائل،صفحہ:341

محدث فتویٰ

تبصرے