سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) رسول اللہ ﷺکی طرف سے قربانی کرنا

  • 23329
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3242

سوال

(42) رسول اللہ ﷺکی طرف سے قربانی کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہﷺ کی طرف سےقربانی دینے کی شرعی حیثیت کیاہے؟ آج کل بعض لوگ اس طرح کرتےہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟ حضرات صحابہ کرام، ائمہ وفقہاء اور سلف صالحین سےاس کاثبوت ملتا ہے؟ ( عائشہ صدیقہ،برمنگھم )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض اہل علم میت کی طرف سے قربانی کےقائل ہیں۔ ان میں عبداللہ بن مبارک شامل ہیں۔وہ کہتےہیں کہ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہےکہ میت کی طرف سے صدقہ کردیا جائے لیکن قربانی نہ کی جائے اوراگرقربانی کی جائے توخود اس میں سے کچھ نہ کھایا جائے، سارے کاسارا صدقہ کردیا جائے۔

اس موضوع پرمزید بحث کرنےسے قبل مندرجہ ذیل دو حدیثوں کاجائزہ لیاجاتا ہے:

1۔ امام ترمذی حضرت علی﷜ کی یہ روایت لائے ہیں کہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے۔ ایک اپنی طرف سے اورایک نبی کریم﷜ کی طرف سے۔ ان سےپوچھا گیا تو انہوں نےکہا:اس بات کاحکم مجھے نبیﷺ نےدیا ہے، اس لیے میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ایسی ہی روایت امام ابوداؤد نےبھی سنن میں ذکر کی ہے۔ ( سنن ابی داؤد، الضحایا، حدیث: 2790، وجامع الترمذی ، الاضاحی، حدیث: 1495، )

امام حاکم  نےاپنی روایت میں دو دو مینڈھوں کاذکر کیاہے، یعنی اپنی طرف سے دو اور رسول اللہﷺ کی طرف سےدو۔

(مؤلف کویہاں تسامح ہوا ہے کیونکہ مستدرک حاکم میں بھی ایک ایک مینڈھا ذبح کرنےکاتذکرہ ہے۔(المستدرک للحاکم:5؍255، حدیث ، 7556) ہاں! مسند ابی یعلیٰ میں ایک روایت ہےکہ مجھے (علی﷜ کو) رسول اللہﷺ نےحکم دیا تھا کہ میں آپ کی طرف  دومینڈھے ذبح کیاکروں۔(مسند ابی یعلیٰ:1؍355) اس روایت کےراوی وہی ہیں جوسنن ابی داؤد اورسنن الترمذی میں اس حدیث کےراوی ہیں، اس لیے یہ حدیث بھی ضعیف ہے)۔

2۔ امام ترمذی اورامام ابوداؤد دونوں نےحضرت جابر﷜ سےیہ روایت بیان کی ہے:

حضرت جابر ﷜ بیان کرتےہیں کہ میں نےنبیﷺ کےساتھ عیدگاہ میں نماز پڑھی۔

آپ ﷺ خطبہ ختم کرنےکےبعد منبر سےاترے۔ آپ کےپاس ایک مینڈھا لایا گیا توآپ نےیہ کہتے ہوئے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا:

« بسم الله والله أكبر،هذا عنى وعمن لم يضح من أمتى »

’ اللہ کےنام کےساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے ہےاور میری امت کے  ان تمام  لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔،،

میت کی طرف سے قربانی کےجواز کادارومدار ان دو احادیث پرہے۔ اب آئیے ملاحظہ کریں کہ محدثین نےان دونوں احادیث کی سند کےبارے میں کیا لکھا ہے؟

پہلی حدیث کی سند میں امام ترمذی کےبعد راویوں کی ترتیب اس طرح ہے:

محمد بن عبیدالمحاربی الکوفی: جوکہ امام ترمذی کےشیخ ہیں۔

شریک بن عبداللہ القاضی: فيه مقال وهو سى الحفظ،ان کےبارے میں اعتراض کیاگیا ہےاورحافظے کےاعتبار سے وہ اچھے نہیں ہیں۔امام مسلم ﷫ نےمتابعات یعنی حدیث کےشواہد کےطورپر ان کی حدیث کولیا ہے۔

ابوالحسناء :مجہول ہیں، حکم بن عتیبہ سےان کی روایت معروف نہیں ہے۔

حکم بن عتیبہ : ثقہ اور قابل اعتبار ہیں۔

حنش بن معتمر الکنانی: حضرت علی﷜ کےاصحاب میں سے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حدیث ضعیف ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں حضرت جابر﷜ سےروایت کرنےوالے مطلب بن عبداللہ بن حنطب ہیں۔ ان کےبارے میں کہاگیا کہ حضرت جابر سےان کاسماع ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ان کےبارےمیں کہتےہیں کہ وہ کثرت سےتدلیس اورارسال کیا کرتےتھے۔ اس حدیث میں انہوں نےجابرسےسننےکی تصریح نہیں کی، ابوحاتم الرازی نےبھی ان کی عدم سماعت کاتذکرہ کیا ہے۔ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن الرازی کہتےہیں:معلوم ہوتاہےکہ وہ جابر تک پہنچے ہوں۔’’يشبه أن يكون أدركه،،

گویا اس حدیث کی سند میں بھی اشتباہ ہے۔

شارح ترمذی محمد عبدالرحمٰن بن عبدالرحیم مبارکپوری تحفۃ الاحوزی میں لکھتےہیں:

میت کی طرف سے انفرادی طورپر قربانی کرنے کےبارےمیں مجھے ایک بھی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملی۔

حضرت علی کی حدیث ضعیف ہے، اس لیے اگر کوئی شخص میت کی طرف سے انفرادی طورپر بھی قربانی کرےتو احتیاط سب کا سب صدقہ دے دے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتےہیں۔( تحفۃ الاحوذی :5؍66 )

رسول اللہ ﷺ کی امت کی طرف سے قربانی کےبارےمیں لکھتےہیں:

’’ نبی ﷺ کااپنی امت کی طرف سے قربانی کرنااور اپنی قربانی میں ان کوشریک کرناآپﷺ کےساتھ خاص ہے، البتہ اپنی طرف سے اوراپنے اہل وعیال  کی طرف سے قربانی کرناآپ کےساتھ خاص نہیں ہےاورنہ منسوخ ہی ہے اوراس کی دلیل یہ ہےکہ صحابہ کرام ایک ایک قربانی اپنی طرف سےاور اپنےگھروالوں کی طرف سےکیا کرتےتھے۔کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ وہ بھی امت کی جانب سےقربانی کیاکرتے ہوں اورانہیں اپنی قربانی میں شریک کرتےہوں۔،،

(تحفۃ الاحوذی : 5؍66)

آخر میں شیخ محمدبن عثیمین﷫ کی رائے پربات ختم کی جاتی ہے۔

میت کےلیے قربانی کی دو قسمیں ہیں:

1۔(پہلی ) یہ کہ شرعی قربانی ہواور وہ یہ ہےکہ جوعیدالاضحیٰ میں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کےلیے ذبح کی جاتی ہے اوراس کاثواب میت کےلیے مقرر کردیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس سے بھی افضل یہ ہےکہ انسان اپنی طرف سے اور اپنےگھروالوں کی طرف سے قربانی کرےاور اس کےساتھ زندہ اورفوت شدہ (افراد) کی بھی نیت کرلے تو تبعاً میت بھی اس میں شامل ہوجائے گی کیونکہ نبیﷺ نےصرف اپنےگھر کےفوت شدگان میں سے کسی طرف سے قربانی نہیں کی۔

آپﷺ کی تین بیٹیاں زینب،ام کلثوم اوررقیہ ؓ جوآپ کو بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں، آپ نے ان کےلیے بھی قربانی نہیں کی اوراسی طرح خدیجہ ؓ جوآپ کی بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں،آپ نےان کےلیے بھی قربانی نہیں کی اوراسی طرح آپ کی چچا حضرت حمزہ ﷜  جوجنگ احد میں شہید کردئیے گئے تھے، آپ نے ان کی طرف سے بھی قربانی نہیں کی۔ ہاں! آپ ﷺ نےاپنی طرف سے اوراپنے گھر والوں(مجموعی طورپر زندہ یافوت شدہ) کی طرف سے قربانی کی ہے۔

2۔ غیرعیدالاضحیٰ میں میت کی طرف سے جانور ذبح کرناجیسا کہ بعض جاہل لوگ ایسا کرتےہیں کہ میت کےلیے اس کی وفات کےساتویں روز جانور ذبح کیا جاتاہے یا اس کی وفات کےچالیسویں روز یا اس کی وفات کےتیسرے روز،یہ بدعت ہے اور جائز نہیں کیونکہ یہ ایسے بےفائدہ کام ہیں جن میں مال کاضیاع ہے، جس میں نہ تو دینی فائدہ ہےاور نہ دنیاوی بلکہ دینی نقصان ہےاور تمام بدعتیں گمراہی ہیں جیسا کہ آپ ﷺ نےفرمایا:’’ ہربدعت گمراہی ہے۔،،

( فتاویٰ منارالاسلام :2؍ 411، منقول از جریدہ محدث، لاہور، عدد277)

میت کی طرف سے کون کون سےاعمال کیے جاسکتےہیں، ان کا جواب اگلے سوال کےضمن میں آجائے گا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

حج و قربانی کےمسائل،صفحہ:334

محدث فتویٰ

تبصرے