سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) ہر سال بار بار زکاۃ ادا کرنے کا حکم

  • 23323
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1349

سوال

(36) ہر سال بار بار زکاۃ ادا کرنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک بارکسی مال(نقدین وکرنسی وغیرہ) سےزکاۃ ادا کردینے سےدوبارہ آئندہ سالوں میں اس مال میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی؟( محمد ذبیح اللہ بیک،سیکرٹری مرکز ابن القیم الاسلامی ،مدراس انڈیا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے کوسمجھنے کےلیے پہلے چند احادیث مطالعہ مفیدہوگا:

1۔ حدیث  عائشہ ؓ: ( لازكاة فى مال حتى يحول عليه الحول)

’’ کسی بھی مال میں اس وقت تک زکاۃ نہیں جب تک اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔،،

2۔ عمروبن شعیب اپنےوالدسے اوروہ اپنے دادا عبداللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت کرتےہیں کہ وہ اپنے خازن سالم کوہدایت کیاکرتےتھےکہ ہرسال ان کی بیٹیوں کےزیورات کی زکاۃ نکال دیا کریں۔( السنن الکبریٰ للبیہقی :4؍139، وسنن الدارقطنی:2؍107)

3۔ بروایت عمروبن شعیب، نبیﷺ نےاپنے خطبہ میں فرمایا:’’ سنو! جوشخص بھی کسی یتیم کےمال کاوالی بنایا جائے تووہ اس میں تجارت کرے،اسے ایسا ہی نہ چھوڑدے کہ صدقہ(زکاۃ) اسے کھاجائے۔،،

4۔ حضرت عمر﷜ سےمروی ہےکہ انہوں نے کہا: یتیموں کےمال میں تجارت کرو تاکہ صدقہ انہیں کھانہ جائے۔

5۔ عبداللہ بن عباس اورعبداللہ بن عمرؓ نےکہا:جس کسی نے کسی کوقرض دیاتو اگر قرض دارثقہ ہےتو وہ اس کی زکاۃ ہرسال دیا کرے۔

6۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نےاپنے ان گورنروں کووہ مال ان کےحقداروں کوواپس دینے کاحکم دیا جوانہوں نے زبردستی ان سےلیا تھا اور کہا:یہ لوگ اس مال میں سے پچھلے تمام سالوں کی زکاۃ ادا کریں، پھر ایک دوسرا خط لکھ کر بھیجا کہ ایسے اموال میں سےصرف ایک سال کی زکاۃ دی جائے کیونکہ یہ مال ضمار(ایسا مال جس کےملنے کی امید نہیں تھی) کی تعریف میں آتاہے۔

7۔ حضرت ابوہریرہ ﷜ سےروایت ہےکہ نبیﷺ نےفرمایا:’’ اگرتم اپنے مال  کی زکاۃ دے دو توتم نےوہ فرض ادا کردیا توتم پرعائد ہوا تھا۔،،

8۔ حدیث (ما نقص مال عبدمن صدقة)

’’ صدقہ کی وجہ سے کسی آدمی کےمال میں کمی نہیں آتی۔،،

ان احادیث سےمندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:

پہلی حدیث  بالکل واضح ہےکہ کسی بھی مال پر(بشرط تکمیل نصاب) ایک سال گزرنے کےبعد زکاۃ واجب ہے اور سال میں زکاۃ ایک ہی دفعہ واجب ہوتی ہےاور یہی مفہوم ہےساتویں حدیث کا،کہ اگر سال میں ایک دفعہ زکاۃ دے دی تو دوبارہ اس سال اس پرزکاۃ نہیں ہوگی، بالکل ایسے ہی جیسے کہ اگر ایک نماز ایک دفعہ ادا کرلی جائے تواسےدوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگلے دن دوبارہ اسی نماز کاوقت آنے پروہ نماز پڑھی جائےگی،ایسے ہی رمضان کےروزہ کاحکم ہے۔

صرف حج ایسی عبادت ہےجوعمر میں ایک دفعہ فرض ہوتی ہے اورزائد حج نفلی حج کےحکم میں آتاہے۔زکاۃ مالی عبادت ہےجورمضان کی طرح ہرسال واجب ہوتی ہے۔

دوسری حدیث سےمعلوم ہواکہ زیورات پرہرسال زکاۃ دینی چاہیے یہ  نہیں کہ ایک سال زکاۃ دےدی تو ساری عمر کےلیے اب ان زیورات میں زکاۃ نہیں۔

تیسری اورچوتھی روایت سےمعلوم ہواکہ یتیموں کی مصلحت کی خاطر ان کےمال میں تجارت کاحکم دیا گیا اور وہ اس لیے کہ اگر اس مال کو تجارت کےذریعے سےپڑھایا نہ گیا توہر سال زکاۃ دینے کی صورت میں چند سالوں کےبعد یہ مال ختم ہوجائے گا۔ظاہرہےاگر ایک دفعہ ہی زکاۃ واجب ہوتی توپھر اس ہدایت کی ضرورت نہ تھی۔

پانچویں اورچھٹی روایت سےمعلوم ہوا کہ اگر قرض ایسے شخص کودیا گیا ہےجوثقہ ہے، امانت دار ہےتوپھر گویا یہ قرض ایک محفوظ جگہ پڑا ہوا ہے، اس لیے قرض دار کوہر سال اپنے مال کی زکاۃ نکالتےرہنا چاہیے لیکن اگر قرض ایسے شخض کودیا گیا ہےجس سےمال واپس ملنے کی ا مید نہیں توپھر جب بھی مال واپس ملےتو صرف ایک سال کی زکاۃ دے دی جائے۔

آٹھویں حدیث میں بتایا گیاہےکہ بظاہر صدقہ وزکاۃ دینے سےمال کم ہوتا نظر آتاہےلیکن ایسے مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہےاوروہ بربنائے برکت کم نہیں ہوتا۔

اس کی مثال ایسے ہی ہےجیسے کنویں سےجنتا زیادہ پانی نکالا جائے کنواں اتناہی گہرا ہوتاجاتا ہےاور اس کاپانی ختم ہونے میں نہیں آتا۔زمزم کاکنواں اس کی زندہ مثال ہے۔

مسئلہ مذکورہ کی وضاحت توہوگئی۔آخر میں یہ بھی تحریر کرتاچلوں کہ زکاۃ نہ دینے میں شیطانی وساوس کادخل ہے۔ یہ آیت پیش نظررہنی چاہیے:

﴿الشَّيطـٰنُ يَعِدُكُمُ الفَقرَ وَيَأمُرُكُم بِالفَحشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَغفِرَةً مِنهُ وَفَضلًا وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٢٦٨﴾... سورةالبقرة

’’ شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعده کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے ،،

زکاۃ نہ دینے پرجوسخت وعید آئی ہےوہ بھی پیش نظر رہے توان شاء اللہ مذکورہ وساوس سےنجات مل جائے گی۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

زکاۃ کےمسائل،صفحہ:320

محدث فتویٰ

تبصرے