سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) عیسائی کے جنازے میں شرکت کرنا

  • 23318
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2346

سوال

(31) عیسائی کے جنازے میں شرکت کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی عیسائی کےجنازےمیں شرکت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس ضمن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ کےفتویٰ کاحوالہ دینا مناسب رہےگا، ان سے پوچھا گیاکہ آیا ایک مسلمان کےلیے جائز ہےکہ وہ ایک عیسائی مریض کی عیادت کرے اوراس کےمرجانے پراس کےجنازے کےساتھ جائے؟ اوریہ کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی ایسا کام کرے توکیا اس پرگناہ لازم ہوگا؟

شیخ الاسلام نےجواب دیا:

الحمدللہ رب العالمین ........... جنازہ کےساتھ تونہ جائے، البتہ عیادت میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ اس طرح اس کی تالیف قلب ہوگی کہ شایدوہ اسلام قبول کرلے لیکن اگروہ مرجاتاہےتووہ جہنمی ہے،اس لیے اس پرنماز جنازہ نہیں پڑھی جاسکتی ۔ واللہ اعلم( روائع المسائل والفتاویٰ،ص 18)

عیادت کےبارےمیں دو احادیث ملاحظہ ہوں:

نبی ﷺ نےایک یہودی لڑکے کی عیادت کی اور اسےکہا:’’اسلام قبول کرلو۔،، (صحیح البخاری ، الجنائز، حدیث 1356)

اورنبی ﷺ نےاپنےچچا ابوطالب کومرض الموت کی حالت میں کہا:’’ چچا!لا الہ الا اللہ کہو۔،،( صحیح البخاری ، الجنائز ، حدیث :1360، وصحیح مسلم، الایمان،حدیث:24 )

زیارت قبر کےسلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو:

حضرت ابوہریرہ ﷜ سےمروی ہے:نبی ﷺ نےاپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی، خود بھی روائے اوردوسروں کوبھی رلایا،پھر کہا:’’ میں نے اپنےرب سےاجازت مانگی کہ اپنی ماں کےلیے دعائے مغفرت کروں تو مجھے اجازت نہیں گئی۔پھراجازت مانگی کہ ان کی قبر کی زیارت کروں تومجھے اس کی اجازت دی گئی۔توقبروں کی زیارت کروکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہیں۔،،(صحیح مسلم)

مشرک کےلیے دعائے مغفرت کرناحرام ہے،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:’’ پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وه رشتہدار ہی ہوں اس امر کے ﻇاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں (113) اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا وه صرف وعده کے سبب سے تھا جو انہوں نے اس سے وعده کرلیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ﻇاہر ہوگئی کہ وه اللہ کا دشمن ہے تو وه اس سے محض بے تعلق ہوگئے، واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور برد بار تھے ،، ( سورہ توبہ 9؍ 113، 114 )

خلاصہ کلام یہ ہواکہ

1۔ غیر مسلم کی عیادت جائز ہے۔

2۔ غیرمسلم کےلیےدعائے مغفرت کرنابالکل ناجائز ہے۔

3۔ غیرمسلم کےجنازے میں بھی شریک ہوناجائز نہیں،الا یہ کہ اس کےدفن کاانتظام کرنےوالا کوئی نہ ہو، ایسی صورت میں غیرمسلم رشتے دارکی میت کارضرورت کی بنا پر دفن کاانتظام کیاجاسکتاہےلیکن اگر چرچ میں یا کسی دوسری عبادت گاہ میں اس کی آخری رسوم ادا کی جائیں تواس میں شریک نہ ہوا جائے۔

ابوطالب کی وفات پررسول اللہﷺ نےحضرت علی﷜ سےکہا تھا«اِذهَب فَوَارِه»

’’ جاؤ اوراسے (قبر میں) ڈھانپ دو۔،،(سنن النسائی ، الطہارۃ، حدیث:190)۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

جنازے کےمسائل،صفحہ:305

محدث فتویٰ

تبصرے