سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) جرابوں پرمسح کے قائل امام کا اعتراض ہونے پر پاؤں دھونا اور امام ابوحنیفہ﷫ کا مسلک

  • 23302
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1202

سوال

(61) جرابوں پرمسح کے قائل امام کا اعتراض ہونے پر پاؤں دھونا اور امام ابوحنیفہ﷫ کا مسلک
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جرابوں پرمسح کاقائل امام صاحب اگر بعض مقتدی حضرات کےاعتراض اور ان کی خواہش کی تکمیل میں موزوں پرمسح ترک کرکے پیردھونےلگ جائیں توکیا سنت رسولﷺ کی رو سے یہ عمل درست قرار پائے گا؟ نیز کیاامام ابوحنیفہ ﷫ کپڑے کےموزوں پرمسح کےقائل تھے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب د ے کر مشکور فرمائیں۔ (سائل: حاجی محمد رفیق ،ڈڈلی یوکے)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک خُفّ (چمڑے کےموزے) کا تعلق ہےتو اس کےجواز پرجماع ہے،یعنی سوائے اہل تشیع کےسب اس کے قائل ہیں اور اس کی بنیاد ایک تومغیرہ بن شعبہ ﷜ کی روایت ہےکہ رسول اللہﷺ  نےغزوہ تبوک میں خفین (دونوں موزوں) پرمسح کیا تھا۔

(صحیح البخاری ،الوضوء، حدیث، 203-205، وصحیح مسلم ،الطہارۃ،حدیث 274، )

اوردوسری حدیث جریربن عبداللہ بجلی سےمروی ہےکہ انہونے پیشاب کیا،پھر وضو کیا اورپھر خفین پرمسح کیااور کہا: جب میں نےرسول اللہﷺ کومسح کرتے ہوئے دیکھا ہےتو مجھے مسح کرنےسےکون سی چیز روک سکتی ہے؟لوگوں نےکہا:یہ توسورہ مائدہ کی آیت سےقبل کاواقعہ ہے(کہ جس میں پاؤں دھونے کا حکم دیا گیاہے) توجریری نےکہا: میں تو مسلمان ہی سورہ مائدہ کےنزول کےبعد ہوا تھا۔

دونوں صحابہ کےعلاوہ یہ مسئلہ اتنے زیادہ صحابہ سےمروی ہے کہ حسن بصری کہتےہیں : مجھےسترصحابہ نےخفین پرمسح کرنے  کی روایت بیان کی ہے۔زرقانی مؤطا کی شرح میں لکھتے ہیں: بعض علماء نےاس کےتمام راویوں کوشمار کیا وہ اسی سےتجاوز کرگئے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔

اس لیے یہ کہنا بجا ہےکہ خف پرمسح کرناتواتر سے ثابت ہےاورجہاں تک جرابوں پرمسح کرنے کاتعلق ہےتواس ضمن میں ایک تومغیرہ بن شعبہ﷜ ہی کی دوسری روایت ہےکہ رسول اللہﷺ  نےوضو کیااور جرابوں پر مسح کیا۔

امام ترمذی نےاس حدیث کوحسن صحیح کہاہے لیکن امام ابوداؤد نےاسے ضعیف قرار دیا ہے۔ وہ کہتےہیں کہ عبدالرحمٰن بن مہدی اس حدیث کوبیان نہیں کرتےتھےکیونکہ مغیرہ کی معروف روایت صرف خفین پرمسح کرنے کےبارےمیں ہے۔ اس کی تائید میں دوسری حدیث موسیٰ اشعری کی ہے جس میں جرابوں اورجوتوں پرمسح کرنے کا بیان ہے اورحدیث بھی بیہقی کی تحقیق کےمطابق ضعیف ہے۔

امام ابن قیم  ﷫ ابن منذر﷫ کاقول نقل کرتےہیں کہ صحابہ سےنوحضرات سےجرابوں پرمسح کرناثابت ہے،جن میں سیدنا علی،عمار، ابومسعود انصاری، انس، ابن عمر، براء بن عازب، ہلال ، عبداللہ بن ابیاوفی اورسہل بن سعد﷢ شامل ہیں۔ امام ابوداؤد نےابوامامہ، عمروبن حریث،عمر اورعبداللہ بن عباس ﷢ کےناموں کااضافہ کیا ہے، یہ کل تیرہ صحابی ہوئے اور اس مسئلے میں جواز کی بنیاد ان صحابہ کےطرز عمل پرہے نہ کہ مغیرہ بن شعبہ کی اس روایت پرجسے ابوقیس  ان سے بیان کررہے ہیں اورجس میں جرابوں پرمسح کرنے کا ذکر ہے۔

ابن قیم ﷫ لکھتےہیں: امام احمدجرابوں پرمسح کرنے کوجائز سمجھتےہیں، حالانکہ وہ ابو قیس کی روایت کوضعیف قرار دیتےہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ انہوں نےانصاف کی بات کی ہے، ان کا اعتماد بھی ایک توصحابہ کے طرز عمل پرہے اوردوسرے صریح قیاس پر اوروہ یہ کہ خف اورجراب میں ایسا کوئی فرق نہیں ہےکہ جس کی وجہ سےدونوں کےحکم علیحدہ علیحدہ ہوں ۔

پھر لکھتےہیں: جرابوں پرمسح کرنے کےبارےمیں اکثر اہل علم کااتفاق ہے۔صحابہ کےنام توہم ہم نے ذکر کردیے۔ ائمہ میں سے اس کےقائلین میں احمد، اسحاق بن راہویہ، عبداللہ بن مبارک، سفیان ثوری، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، سعیدبن مسیت اور ابویوسف  بھی ہیں اورصحابہ میں سے جن کےنام ہم نے درج کیے ہیں، ان کی مخالفت کرنےوالا کوئی نہیں۔امام ابوحنیفہ کےتلامذہ میں سے ابویوسف اورمحمد کی رائے ہے کہ اگر جرابیں اتنی موٹی ہوں کہ پیرکی کھال نظر نہ آئے توان پرمسح کرنا جائز ہے۔

امام ابوحنیفہ موٹی جرابوں پرمسح کےقائل نہ تھے لیکن اپنی وفات سےسات یا تین دن قبل انہوں نے اپنی رائے سےرجوع کرلیا تھا اوراپنے مرض موت میں موٹی جرابوں پرمسح کرتے رہے، جولوگ عیادت کےلیے آتےان سےکہتے میں جس بات سے روکتا تھااب اسی پرعمل کررہاہوں۔خیال رہےکہ نہ صرف جرابوں بلکہ اس کپڑے پربھی مسح کیاجاسکتاہے جوپیروں پرلفافے کی طرح لپیٹ لیا جائے۔

امام ابن تیمیہ ﷫ کہتےہیں: صحیح بات یہی ہےکہ پیر کےلفائف ضرورت کی بناپر پہنے جاتےہیں سردی، ننگے پیر چلنے یازخم کی تکلیف سےبچنے کےلیے۔اس کےناجائز ہونے پر اجماع نقل کرنالاعلمی کی نشانی ہے۔ اجماع توچھوڑئیے،دس ایسے مشہور علماء  کےنام بھی پیش نہیں کئے جاسکتےکہ جواس کےناجائز ہونے کےقائل ہوں۔

وہ کہتےہیں کہ جونبیﷺ کےالفاظ پرغورکرے اورقیاس کابھی برمحل اعتبار کرے تووہ جان لےگا کہ اس بات میں رخصت کادائرہ بڑا وسیع ہےاور اسی سےشریعت کےحسن کااندازہ ہوتاہے۔

ضمناً تذکرہ ہوجائے کہ اگرخف یاجراب میں تھوڑےبہت چھیدہوں تب بھی ان پرمسح کرناجائز ہے، بشرطیکہ ان کاپہننا ممکن  ہو۔

امام ثوری ﷫ کہتےہیں کہ مہاجرین اورانصار کےخف عام لوگوں کی طرح چھید سےخالی نہیں ہوتےتھے،اگران پرمسح کرنا ناجائز ہوتا توضرور منقول ہوتا۔

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہےکہ شریعت میں اگر کسی بات کی رخصت دی جاتی ہے تووہ مشقت سےبچانے کےلیے ہوتی ہے نہ کہ مزید مشقت میں مبتلا کرنےکےلیے۔

برطانیہ کےطویل سردموسم کودیکھیے کہ اس میں جرابوں پرمسح کرنے سےآدمی کتنی مشقت سےبچ جاتا ہے۔ خاص طورپر اس بات کابھی خیال کیجئے کہ آفس، کار خانون اورفیکڑیوں میں کام کرنے والے حضرات جب جرابیں اتار کراپنا پاؤں واش بیسن میں رکھتےہیں توغیر مسلم حضرات کویہ بات کتنی ناگوار گزرتی ہےکہ جہاں وہ اپنے ہاتھ اورچہرہ دھوتے ہیں وہاں ہم لوگ اپنا پیردھورہے ہوتےہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اللہ کی دی گئی رخصت سےفائدہ اٹھایا جائے۔ آپ گھرسےوضوکرکے آئیں،خف یا جراب پہن کرنکلیں اورپھر سارا دن ان پرمسح کرتے رہیں۔ خود کوبھی آسانی رہےگی اورکسی کواعتراض کرنے یا ناگواری کےاظہار کی نوبت بھی نہ آئے گی۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے