سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) میت کے لیے قرآن خوانی کا حکم

  • 23298
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2956

سوال

(57) میت کے لیے قرآن خوانی کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی کےانتقال کےبعد میت کےاقرباء واحباب قرآنی خوانی شروع کردیتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیااس تلاوت سےمیت کوثواب پہنچتا ہے؟

بعض لوگوں کاخیال ہےکہ اگر تلاوت قرآن میں مصروف نہ ہوں تولوگ مختلف سیاسی اور دنیاوی بےکارگپ شب میں مصروف ہوجاتےہیں،کیا اس سے بہتر نہیں کہ تلاوت قرآن اورذکر واذکار میں مصروف ہوں؟

اگر میت کوان چیزوں کاثواب نہیں پہنچتا توکیاپڑھنے والے بھی اس کےاجروثواب سے محروم ہوں گے؟ اگرقرآن خوانی اورذکرواذکار نہ کیے جائیں تو کیا پڑھا جائے اور کیسے وقت کوکارآمد بنایا جائے جبکہ یہاں میت کےحصول اورتدفین تک بسا اوقات کئی دن ہوجاتےہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں ا صولی بات کاتذکرہ توقرآن میں آگیا ہے،ارشاد ہوا:

﴿وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ ﴿٣٩﴾... سورة النجم

’’ اورانسان کےلیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے خود کوشش کی ۔،،

اس آیت کامطلب واضح ہےکہ انسان اپنے اعمال کاچونکہ خود مالک ہے، اس  لیے قیامت کےدن وہ اس کےکام آئیں گے لیکن اس سےاس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسرے کےعمل سےفائدہ بھی حاصل کرسکے،بالکل ایسے جیسے ایک شخص دوسرے کےمال سےفائدہ اٹھا لیتا ہے۔

اب حل طلب مسئلہ یہ ہےکہ آیا مرنےکےبعد بھی وہ دوسروں کےعمل سےفائدہ اٹھا سکتاہے؟

اور آیا ایک شخص اپنے عمل کوکسی گزرجانے والے شخص کےلیے ہدیہ کرسکتاہے؟

جواباً عرض ہےکہ عبادات میں سے مالی عبادات میں ایسا کرناجائز ہے،جیسے میت کی طرف سے صدقہ کرناکئی نصوص سےثابت ہے۔بدنی عبادات میں صرف انہی اعمال تک محدود رہنا چاہیے جورسول ا لل ﷺ سےثابت ہیں، چونکہ عبادات کےمسئلے میں قیاس جائز نہیں ، اس لیے وہ چیز جس کا کرنا نبی اکرمﷺ سےثابت نہیں اس کا جواز نہیں دیا جاسکتا ۔

اب آئیے ان نصوص کی طرف جن سےمالی یابدنی عبادات کاایک میت کی طرف سےکرناثابت ہے:

1۔رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا:

«إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ)

’’ جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے ،،

اس حدیث میں بیان کردہ تینوں چیزیں دراصل میت کااپناہی عمل ہےجواس کی موت کےبعد بھی جاری ہے۔ صدقہ جاریہ جیسے کنواں کھدوانا، سرائے بنانا، ہسپتال قائم کرناوغیرہ جسےاس نے اپنی زندگی میں قائم کیاتھا اورجب تک وہ باقی ہےاس کاثواب میت کوملتا رہےگا۔

وعلم جوکتابوں کی شکل میں  محفوظ ہوچکا  ہے(اوراب توکیسٹ اورسی ڈی کی شکل میں بھی محفوظ ہوجاتاہے) وہ بھی میت کا اپنا  تحریر کردہ ہے۔

اولاد انسان کی اپنی کمائی ہے(مااغنىٰ عنه ماله وماكسب )

’’ ابولہب کےکام نہ اس کا مال آیااور نہ اس کاکسب ہی(یعنی اولاد)۔،،

اس لیے اولاد کی دعا خصوصی طورپرمیت کونفع دے گی۔

2۔ عام لوگوں کی دعا:

                اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتےہیں: ’’ اورجولوگ ان کےبعد آئے، (مہاجرین وانصار کےبعد) وہ کہتےہیں: اےہمارے رب! ہماری مغفرت کراور ہمارے ان بھائیوں کی جوایمان کی حالت میں ہم سےپہلے گزرچکے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان والوں کےلیے کوئی کینہ نہ رکھ، بے شک توانتہائی مہربان اورحم کرنےوالا ہے۔،،(الحشر 59: 10 )

نماز جنازہ میں میت کےلیے دعا کی جاتی ہےاوراہل ایمان کی دعا میت کےلیے سفارش بن جاتی ہے۔

3۔ میت کی طرف سے صدقہ کرنا:

                حضرت عائشہ ؓ سےمروی ہےکہ ایک آدمی نےرسول اللہﷺ سےکہا: میری والدہ اچانک فوت  ہوگئی اور میں خیال کرتاہوں کہ اگر اسے بولنے کی مہلت ملتی تووہ صدقہ کرتی، اگر میں اس  کی طرف سے صدقہ کردوں توکیا اسےثواب ملے گا؟ آپ نے کہا: ہاں!( صحیح بخاری )

4۔ میت کی طرف سے اس کےولی کاروزہ رکھنا:

                حضرت عائشہ ؓ سےمروی ہےکہ نبی ﷺ نےارشاد فرمایا:

( من مات وعليه صيام صام عنه وليه )

’’ جوشخص مرجائے اور اس  کےذمے کچھ روزے ہوں تو اس کاولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔،،

ولی سےمراد ہروہ شخص ہےجومیت کاوارث ہے۔

5۔ حج بدل کرن:

                ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور عرض کی یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ حج جو اس کے بندوں پر ہے اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سواری پر بھی بیٹھ سکیں تو کیامیں ان کی طرف سے حج کرلوں توان کا حج ادا ہوجائے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں!،،

یہ واقعہ حجۃ الوداع کےموقع پرپیش آیا۔

’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کرسکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے۔،،( صحیح البخاری،جزاء الصید، حدیث: 1852 )

پہلی حدیث سےمعلوم  ہواکہ اگر انسان حج کرنے سےخود عاجزہوتو اس  کی طرف سےحج کیا جاسکتاہےاوردوسری حدیث سےمعلوم ہواکہ فوت شدہ شخص کی طرف سےبھی حج کیا جاسکتاہے لیکن آیا یہ حج صرف اولادہی کرسکتی ہے؟ کیونکہ دونوں حدیثوں میں اولاد ہی کا ذکر ہے۔

اس کاجواب یہ ہےکہ دونوں حدیثوں میں اولاد کاذکر ہےلیکن ابن عباسؓ کی ایک تیسری روایت سےمطلق جواز کاپتہ چلتا ہے۔وہ کہتےہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا «لبيك عن شبرمة » ” میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ” شبرمہ کون ہے ؟ “ اس نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا قریبی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” کیا تم نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے ؟ “ اس نے کہا ، نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ( پہلے ) اپنی طرف سے حج کرو ، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا ۔ “(سنن ابی داؤد،المناسک، حدیث :1811)

امام احمد﷫ کےنزدیک یہ حدیث موقوف ہے،یعنی یہ واقعہ خودعبداللہ بن عباس ؓ کےساتھ پیش نہیں آیا تھا، رسول اللہﷺ  کےساتھ نہیں لیکن نفس استدلال میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ صحابی کاقول بھی حجت ہےاگر اس کی مخالفت میں کوئی دوسرا قول نہ ہو۔

دوسری دلیل یہ بھی ہےکہ نبیﷺ نےمیت کی طرف سے حج کرنےکوقرض ادا کرنے سے تشبیہ دی ہےاورقرض چاہے اولاد کردے یاکوئی دوسرا شخص دونوں صورتوں میں ادا ہوجاتاہے۔

اور تیسری دلیل یہ ہےکہ اگرمیت کی طرف سے اس کاوارث روزہ رکھ سکتاہے، جوکہ خالص بدنی عبادت ہےتوحج کیوں نہیں کرسکتا کہ جس میں بدن کےساتھ ساتھ مال بھی خرچ ہوتاہے۔

بعض علماء میت کی طرف سے قربانی کرنےکےبھی قائل ہیں لیکن ہم اس  مسئلے کوپچھلے سوال کےذیل میں واضح کرچکےہیں۔

یہاں تک تو سوال کےپہلے جز کاجواب ہوگیا کہ وہ کون سےاعمال ہیں  جن سےایک  میت اپنی موت کےبعدبھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔دعا  کےضمن میں واضح رہےکہ مشرکین کےلیے(چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) دعاء استغفار کرنامنع ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتےہیں:’’ نبی کےلیے اورایمان والوں کےلیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کےلیے، چاہے وہ رشت دار ہی کیوں نہ ہوں، مغفرت کی دعا کریں، بعد اس کےکہاانہیں معلوم ہوگیا کہ وہ جہنمی ہیں ۔،،

مندرجہ بالاامور کےعلاوہ دوسری عبادات جیسے میت کی طرف سے سےنماز پڑھنا، قرآن پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سےثابت نہیں ہے۔

جہاں تک ایصال ثواب کاتعلق ہےکہ قرآن پڑھ کراس کاثواب میت کوبخش دیا جائے توسنت کےدفاتر ایسے واقعات سےبالکل خالی ہیں کہ رسول اللہﷺ کےزمانےمیں لوگ ایک شخص کی وفات کےبعد تیسرے دن یاکسی بھی دن جمع ہوتے ہوں، اجتماعی طریقے پرقرآن پڑھتے ہوں اورپھر اس کاثواب میت کوبخشتے ہوں۔

امام ابن  تیمیہ﷫ لکھتےہیں: خیرالقرون میں جوامر مسلمانوں کےدرمیان معروف تھا کہ وہ نماز، روزے اورتلاوت کی فرض اورنفل تمام عبادات کیا کرتےتھے جومشروع ہیں اوراللہ کےحکم کےمطابق مومن مردوں اورعورتوں کےلیے دعا کیا کرتےتھے، زندوں کےلیے بھی اورمردوں کےلیے بھی۔

سلف کی یہ عادت نہ تھی کہ اگر وہ نفلی نماز، روزہ ،حج ادا کرتےیاقرآن پڑھتے تو اس کاثواب کسی میت کوہدیہ کرتے، چاہے وہ ان کےرشتےداروں میں سے ہوتےہو یاعام مسلمانوں میں سے۔

اب آخر میں شیخ ابن باز اورشیخ عبداللہ بن قعود کےدستخطوں سےجاری شدہ فتویٰ بھی ملاحظہ ہو جو سعودی عرب کےدارالافتاء سےصادر ہوا ہے۔

فتویٰ نمبر 2232:’’ ہماری معلومات کےمطابق نبیﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ نےقرآن پڑھ کراس کاثواب اپنے فوت شدہ قریبی رشتے داروں یا دوسرےمسلمانوں کوبخشا ہو۔ اگر اس طرح ثواب پہنچتا توآپ ضرور ایسا کرتےبلکہ امت کوبھی بتاتے تاکہ وہ مردوں نفع پہنچا سکتے کیونکہ نبیﷺ مسلمانوں  پربہت ہی شفیق تھے۔ آپ کےبعد خلفائےراشدین اورتمام صحابہ بھی آپ کےاسی طریقے پرگامزن رہے، ہمار ے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ ان میں سے کسی نے قرآن کاثواب کسی اور کوبخشا ہو۔ تمام خیرنبی اکرمﷺ کےراستے اورآپ کےصحابہ کےراست پرچلنے میں ہےاورتمام شربدعات اورنئی چیزوں کےپیچھے لگنے میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کاارشاد گرامی ہے:

« إياكم ومحدثات الامور فان كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة»

’’ نئے نئے امور سےبچو، اس لیے ہ ہرنیا امر بدعت ہےاورہربدعت گمراہی ہے۔،،

اورآپ نےیہ بھی ارشاد فرمایا:

« من احدث فى امرنا هذا ماليس منه فهورد»

’’ جس نے ہمارے اس امر(دین ) میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سےنہیں ہےتو وہ ٹھکرادی جائے گی۔،،

چنانچہ میت کےلیے قرآن کاپڑھنا ناجائز ہے، اسے قراءت کاثواب نہیں بلکہ یہ بدعت کہلائے گا۔

جہاں تک دوسری عبادات کاتعل ہے توجس کاثواب پہنچنے کی دلیل صحیح موجود ہوتو اسے قبول کیاجائے گا، جیسے میت کی طرف سے صدقہ کرنا، اس کےلیے دعا کرنا، اس کی طرف سےحج کرنا۔

اورجس بات پردلیل نہ ہوتووہ ناجائز ہےیہاں تک کہ اس پردلیل مل جائے،اس لیے علماء کی صحیح رائے کےمطابق میت کےلیے قرآن پڑھنا ناجائز ہےاورایسی قراءت کاثواب میت کونہیں پہنچتا بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔( فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية :9/ 43 )

باقی رہا میت کےگھرتعزیت کےلیے جانا تو ایسا کرناجائز ہےلیکن اس مقصدکےلیے میت کےگھرمیں اجتماع کرنایا کئی کئی دن وہیں قیام کرناخود اہل میت کےلیے پریشااوردرد سرکاباعث ہوسکتا ہے۔ سنت تویہ ہےکہ میت کےگھروالوں کےلیے کھانا بنایا جائے نہ یہ کہ انہیں مہمانوں کےلیے کھانابنانے پرمجبور کیاجائے۔تعزیت کی غرض سےجانا ہوتوتسلی کےالفاظ کہے جائیں، میت کی خوبیوں کاتذکرہ کیاجائے، وقت گزاری کےلیے اگرکوئی شخص خود قرآن پڑھ لےتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ایصال ثواب کی نیت سے اجتماع منعقد کرنا بدعت ہےجیسا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے