سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) حجراسود کی اہمیت اور فضیلت کی بابت استفسارات

  • 23294
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1259

سوال

(53) حجراسود کی اہمیت اور فضیلت کی بابت استفسارات
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نیپال سے عبدالعزیز بن عبدالرزاق مدنی سوال کرتےہیں:

1۔ حضرت آدم ﷤ صرف حجراسود ہی کوکیوں جنت سےلائے تھے؟

2۔ اس کی کیا وجہ ہوئی کہ یہ پتھر لوگوں کےگناہوں کی وجہ سے کالا ہوگیا ؟

3۔ اسے کعبہ میں کیوں رکھا کیا، کیا صرف اس لیے کہ طواف کےلیے ایک نشانی کاکام دےسکے یاصرف اس لیے کہ اسے چھوا جائے یا بوسہ دیا جائے؟

ہم حجراسود  کواتنی اہمیت کیوں دیتےہیں ۔ مجھے حضرت عمر﷜ کایہ قول معلوم ہے:

’’ تم صرف ایک پتھر ہو،جونفع دے سکتا ہےنہ نقصان ، میں تمہیں اس لیے چومتاہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوتمہیں چومتےدیکھا ہے۔،،

ایک ہندو معاشرے میں جہاں پتھروں کوپوجاجاتا ہےہمیں حجراسود کی حقیقت جاننے کاشدید احساس ہے۔ میں آج کل نیپال زبان میں نبی اکرمﷺ کی سیرت پر ایک کتاب لکھ رہاہوں لیکن حجراسود کےبارے میں الجھن کاشکار ہوں، برائے مہربانی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حجراسود کی فضلیت کےبارےمیں امام ابوعبداللہ محمدبن اسحاق الفاکہی نےاپنی کتاب اخبار مکہ میں چونتیس احادیث ذکر کی ہیں، کتاب کےمحقق ڈاکٹر عبدالمالک بن عبداللہ بن وھیش کی تحقیق کےمطابق ان میں سے صرف آٹھ احادیث صحیح یا حسن کےدرجے تک پہنچتی  ہیں ، ان میں سے چند احادیث ہم یہاں درج کرتےہیں:

(1)   حضرت ابن عباس ؓ سےروایت ہےکہ نبیﷺ نےفرمایا:’’ حجراسود جنت میں سے ہے اوربرف سے زیادہ سفید تھا یہاں تک کہ اہل شرک کےگناہوں نےاسے سیاہ کردیا۔ ،، ( صحیح ابن خزیمہ :4؍ 219 ، ومسند احمد: 1؍ 307، 329 ، 373 ، دیکھیے : الصحیحہ : 6؍230، حدیث 2618 )

(2)   عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتےہیں کہ جب یہ پتھر نازل ہوا تو چاندی سےزیادہ سفید تھا اوراگر اسے جاہلیت کی پلیدگی نہ لگی ہوتی توہرجسمانی عیب والا شخص اےچوتےہی شفایاب ہوجاتا۔ ( اخبار مکۃ للازرقی : 1؍ 256 ، واخبار مکہ للفاکھی : 1؍ 17 )

(3)   حضرت ابن عباس ؓ کہتےہیں : یہ رکن ( یعنی حجراسود) زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے، جس سے کہ وہ اپنے بندوں سےایسے مصافحہ کرتا ہے جیسے ایک آدمی اپنے بھائی سے۔( اخبار مکہ للازرقی:1؍ 257 ، واخبار مکۃ للفاکھی : 1 ؍ 18 )

(4)   اسماعیل بن عبدالرحمٰن السدی(الکبیر ) کہتےہیں : آدم﷤ ہندوستان میں نازل ہوئے اور ان کےساتھ حجراسود کواتارا گیا اورجنت کےپتوں میں سے ایک گچھا بھی۔ انہوں نے ان پتوں کوہندوستان میں پھیلا دیا جس سے خوشبوں کاپودا اگ آیا۔ ہندوستان سےدرآمدخوشبو کی اصلیت یہی پودا ہے۔ حضرت آدم ﷤ نےیہ گجھا جنت سےنکالے جاتےوقت عالمِ افسوس میں اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ اخبار مکۃ للفاکھی : 1؍ 90 . اخبار مکہ کےمحققق ڈاکٹر عبدالمک بن عبداللہ وھیش نےاس کی سند کوحسن قرار دیا ہے۔)

(5)   عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کہتےہیں ، جبریل ﷤ جنت سےحجراسود کولے کر نازل ہوئے اور وہاں رکھا جہاں تم اسے دیکھتے ہو۔ جب تک یہ پتھر تم میں موجود ہےتم بخیریت رہوگے،اس لیے جہاں تک ہوسکے اس سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ ایک وقت آئے گا کہ جہاں سےیہ پتھر آیا ہے وہیں واپس چلا جائے گا۔ ( اخبار مکہ للازرقی :1؍40 ، 258 ، 274 ،واخبار مکۃ  للفاکھی ‎: 1؍91 ، یہ اثر صحیح ہے۔

(6)   خیثمہ بن عبدالرحمن جعفی کہتےہیں :حجرجب جنت سےنازل ہوا تھا توبرف سے زیادہ سفید تھا اگر بنی آدم کےگناہوں نےاسے نہ چھوا ہوتا توکوئی بھی اندھا، برص والا یاکوڑھی اسے چھوتا توشفایاب ہوجاتا۔ ( اخبار مکۃ للفاکھی: 1؍ 94 ، ڈاکٹر دھیش نےاس کی سند کوحسن کہاہے۔)

ان احادیث اورآثار سےیہ فوائد اخذ کیے جاسکتےہیں:

 کعبہ کی ساری عمارت دنیا کےپتھروں سےبنی ہے۔صرف ان میں سے ایک پتھر ایسا ہےجس کی نسبت جنت کی طرف ہے، اس لیے اگر مسلمان اس پتھر کوبوسہ دیتے ہیں تو جنت کی اس نسبت کی بنا پر دیتےہیں نہ کسی دنیوی پتھر کو۔

جنت کاہر شخص مشتاق ہےاوراگر اس دنیا میں جنت کی ایک چیز لاکر رکھ دی گئی ہےتو مشتاقان دید کا اسے چھونا اوربوسہ دینا ایک فطرتی امرہے۔

خانہ کعبہ کوسب سےپہلے حضرت آدم ﷤ نےبنایا تھا۔ بیہقی کی ایک روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے(دلائل النبوۃ للبیہقی : 1؍ 424، وتاریخ دمشق:2؍ 321 )

اورصحیح کی یہ حدیث اس بات پر واضح طریق سےدلالت کرتی ہے۔ حضرت ابوذر﷜ سےروایت ہے،انہوں نے کہا: اللہ کےرسول! کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی تھی؟ آپ ﷺ نےفرمایا: ’’ مسجدحرام۔،، انہوں نے پوچھا: اورپھر ؟ آپ نےفرمایا: ’’ مسجد اقصیٰ۔،، انہوں نے پوچھا: دونوں میں کتنا وقفہ ہے؟ آپ ‎ﷺ نےفرمایا:’’ چالیس سال۔،، ابوذر﷜ کہتےہیں کہ میں نے پوچھا:اور پھر؟ تونبیﷺ نےفرمایا:’’ پھر جہاں کہیں تمہیں نماز کاوقت آجائے تونماز پڑھ لو، اس لیے کہ ہرجگہ مسجد ہے۔،، (صحیح البخاری، احادیث الانبیاء ، حدیث 3366 ، وصحیح مسلم ، المساجدومواضع الصلاۃ ، حدیث:520 )

واضح رہے کہ دونوں مساجدکی تعمیر میں چالیس سال کاوقفہ اس طرح ہوسکتاہے جبکہ حضرت آدم﷤ نےدونوں تعمیر کی ہوکیونکہ حضرت ابراہیم﷤  نےکعبہ کوبنیادوں سےاٹھایا تھا، یعنی بنیادیں موجود تھیں ، باقی عمارت منہدم ہوچکی تھی۔اور پھر حضرت داؤد﷤ کےآخرزمانےمیں ہیکل کی تعمیر شروع ہوئی، جوحضرت سلیمان﷤ کےزمانےمیں پایۂ تکمیل کوپہنچی، اس لیے ہیکل سلیمانی کہلائی اورقرآن نے اسےمسجد اقصیٰ سےتعبیر کیاہے۔

خانہ کعبہ کی عمارت میں جنت کےایک پتھر کا لگنا اسے ایک ندرت عطا کرنا ہےاور اسی لیے حضرت آدم﷤ کےساتھ اس پتھر کواتارا گیا ہوگا۔

 جہاں تک حجراسود کےسیاہ ہوجانے کاسوال ہےتوذہن اس حدیث کی طرف جاتاہے جس میں اللہ کےرسولﷺ نےدل کی مثال دی ہےکہ گناہ کرنے پر دل میں ایک سیاہ دھبا لگ جاتا ہےاورپھر گناہوں کی کثر سے دل سارے کاسارا سیاہ ہوجاتا ہے۔( سنن ابن ماجہ ،الزھد ، حدیث 4244، ومسنداحمد:2؍297 )

 گویا حجراسود پرلوگوں کےگناہوں کاانعکاس ہوا ہے۔ قاعدہ ہےکہ آئینہ اتبدا میں صاف وشفاف ہوتاہےلیکن مدت کےبعد دھندلا ہوتا چلا جاتا ہےاورپھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس میں کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔

خانہ کعبہ کےجس کونے میں حجراسود کورکھا گیا ہےوہ طواف کی ابتداء کرنےکی علامت بنادیا گیا ہے، گویا حجراسود کی خاص حیثیت کی بنا پراسےیہ اعزاز دیا گیا ہےجوکہ کعبہ کےکسی دوسرے کونے کوحاصل نہیں ہے۔

حضرت عمر ﷜ کےقول سےیہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اسے ہاتھ لگانا یاچومنا سنت کی بنیاد پرہےنہ کہ پتھر کی عبادت یااس سےنفع ونقصان کی توقع رکھنا۔ شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتےہیں:نبی ﷺ نےارشاد فرمایا: ’’حجراسود جنت سےنازل ہوا، وہ دودھ سےزیادہ سفید تھا لیکن بنی آدم کےگناہوں نےاسے کالا کردیا۔،،

( جامع الترمذی ، الحج ، حدیث : 877 )

اور یہ بھی فرمایا:’’ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ قیامت کےدن اسے اس طرح لائیں گےکہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جس سے وہ دیکھے گااور ایک زبان ہوگی جس سے وہ بات بات کرےگا اورہر اس شخص کےلیے گواہی دے گا جس نےحق کےساتھ اسے چھوا ہوگا۔،، ( سنن ابن ماجہ ، المناسک ، حدیث: 2944 ، ومسند احمد: 1؍ 371 )

اور کہا: ’’ رکن (حجراسود) اورمقام ( وہ پتھر جس پرحضرت ابراہیم ﷤ نےکھڑے ہوکر کعبہ کی تعمیر کی تھی) دونوں یاقوت ہیں ۔،، ( جامع الترمذی، الحج ، حدیث : 878 ، ومسند احمد :،2؍ 213 )

پھر شاہ ولی اللہ کہتےہیں : اس بات کا احتمال ہےکہ یہ دونوں پتھر اصل میں جنت سےہوں لیکن جب انہیں دنیا میں لایا گیا توحکمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ ان میں زمینی اوصاف رکھے جائے اوراس لیے ان کےنورکو مٹا دیا گیا۔ حجۃ اللہ البالغہ ، ص : 556 )

مولانا عبدالسلام بستوی لکھتےہیں :’’ حجراسود ایک تاریخی پتھر ہے، جس کوحضرت ابراہیم﷤  اورحضرت اسماعیل ﷤ کےمبارک اجسام سےمس ہونے کاشرف حاصل ہے۔ یہ پتھر کعبہ مقدس کےایک کونے میں نصب ہے۔ اسی جگہ سےطواف شروع کیا جاتاہےاوریہاں پرہی آکر ایک چکر پورا ہوتاہے۔ اس موقع پراس کوچوما اورہاتھ لگایا جاتاہے تاکہ طوافوں کےگننے میں آسانی ہواور تاریخی عظمت کااحترام بھی ہوسکے۔ عہد ابراہیمی میں عہد وپیمان لینے کےلیے ایک پتھر رکھ دیا جاتا تھا، جس پرلوگ آآکر ہاتھ رکھتے۔اس کےیہ معنی ہوئے کہ جس عہد کےلیے وہ پتھر رکھا گیا ہے اس کوامتوں نےتسلیم کرلیا ۔ اسی دستور کےمطابق حضرت خلیل﷤ نےاپنی مقدی قوموں کےلیے یہ پتھر نصب کیا ، جوکوئی اس گھر میں جس کی بنیاد خدائے واحد کی عبادت کےلیے رکھی گئی ہے،داخل ہو، اس پتھر پرہاتھ رکھے، جس کامطلب یہ ہےکہ اس نےتوحید کاعہد مضبوط کرلیا، وہ موحد ہوکررہے گا۔اگر جان بھی دینی پڑے اس سے منحرف نہ ہوگا۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی ایسے ہی ایک سوال کےجواب میں لکھتےہیں:مسئلے کی تحقیق کےلیے پہلے یہ دیکھنا ہےکہ مسلمان کعبہ اورحجراسود کی طرف منہ کرکے کیا کہتےہیں اورکیا پڑھتے ہیں ۔ بت پرست اپنی حاجات اورپرارتھنا ان بتوں سےکرتےہیں اورمسلمان کہتےہیں : سبحان اللہ والحمدللہ خدا کےنام کی پاکی بیان کرتےہیں، پس ان دونوں میں فرق نمایاں ہے۔اگر مسلمان بھی کعبہ اورحجراسود کی عبادت کرتےتوساری نماز میں کوئی لفظ توکعبہ کومخاطب کرکےکہتے: اےکعبہ ! تو ہماری مددکر، حالانکہ بت پرست بتوں سےپراتھنا اورعجز ونیاز کرتےہیں۔،، ( فتاویٰ ثنائیہ 1 ؍ 798 )

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے