سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) نماز میں رسول اللہ ﷺ کاخیال گدھے کےخیال سے بدتر (شاہ اسماعیل شہید کےحوالے سے استفسار )

  • 23290
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6619

سوال

(49) نماز میں رسول اللہ ﷺ کاخیال گدھے کےخیال سے بدتر (شاہ اسماعیل شہید کےحوالے سے استفسار )
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صاحب نےاپنانام ظاہر کیےبغیر شاہ اسماعیل شہید سےمنسوب کتابوں تقویۃ الایمان اورصراط مستقیم میں درج چند عبارتوں کوگستاخ پرمحمول کرتےہوئے ان کےبارےمیں فتویٰ طلب کیاہے۔ انہوں نے اس بات کاحوالہ دیا ہےکہ شاہ صاحب نماز کےدوران میں رسول اللہ ﷺ کا خیال آنے کوگدھے اوربیل کاخیال آنےسےزیادہ بدتر سمجھتےہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چونکہ اس مسئلے پرمشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی خامہ فرسائی کرچکےہیں، اس لیے ہم انہی کاجواب من وعن نقل کررہے ہیں۔ اس جواب کی روشنی میں سائل کےدوسرے سوالوں کاجواب بھی مل جاتاہے۔مولانا اسماعیل سلفی مرحوم کی یہ تحریر اُن کی کتاب’’تحریک آزادی فکراورشاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی،، سےلی گئی ہے۔

رسول اللہ کا تصور:

                 آپ ﷺ کانماز میں تصور کرنا یانہ کرناعقیدے کامسئلہ نہیں۔عقائد کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ عقائد کی مشہور کتابیں شرع عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، شرح عقیدہ اصفہانیہ، عقیدہ صابونیہ شرح مطابع یہ عقائد کی کتابیں عام کتب خانوں میں ملتی ہیں، کسی میں یہ عقیدہ موجود نہیں ۔ معلوم نہیں بریلوی مولوی صاحبان نےیہ عقیدہ کہاں سے بنایا؟ صحیح یہ ہےکہ نماز خشوع وعاجزی سےپڑھی جائے۔ نماز میں جوپڑھا جائے اس کےمفہوم مطالب کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔

بافی پریشان خیالات سےبچنے کی کوشش کرے۔ اگرخیالات ذہن میں آئیں تودل میں أعوذباالله يا لاحول پڑھے اورخیالات کی آمدکوروکے۔

غلطی کی وجہ:

                قریباً ایک سوسال سےزیادہ عرصہ ہورہاہے۔ایک بزرگ سید احمد بریلوی ہوئے۔ یہ حنفی المذہب تھے۔ نہایت پرہیز گارتھے۔انہوں نےسکھوں اور انگریزوں کےساتھ جہاد کافیصلہ کیا۔ بڑے بڑے عالم بھی اُن کےمرید تھے۔ اسی سلسلے میں مولانا اسماعیل بن شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی  اللہ اورمولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی حنفی ان کےعقیدت مند تھے۔مولانا اسماعیل صاحب اہل حدیث تھے۔سید احمد صاحب بریلوی حنفی صوفی بزرگ تھے۔ انہوں نےتصوف میں ایک کتاب لکھوائی جس کانام’’الصراط المستقیم،، ہے۔یہ کتاب فارسی میں ہے۔ اس کےچار باب ہیں۔ اس کےدوابواب کاترجمہ مولوی عبدالحی صاحب بڈھانوی حنفی نےکیاہے۔اس میں ایسی عبارت موجود ہے جس میں بریلوی حضرات کومغالطہ ہواہے۔ وہ عبارت کو صحیح نہیں سمجھ سکے۔ اصل عبارت اوراس کا مفہوم آگے آئے گا لیکن مہربانی فرما کرآپ دو چیزیں ذہن میں رکھیں۔سید احمد بریلوی ﷫ بھی حنفی ہیں اورمولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی بھی حنفی ہیں ۔سید احمد بریلوی ﷫ نہ اس کتاب کےمصنف ہیں نہ اس باب کےمترجم ۔وہ تاجران کتب حضرات کی ہوشمندی کہ انہوں نےشہرت کی وجہ سےکتاب پرشاہ اسماعیل صاحب کانام لکھ دیا اوروہ بریلوی حضرات کی لاعلمی کانشانہ بن گئے، حالانکہ وہ بیچارے بالکل بےقصور ہیں اورشاہ صاحب کےنام اوراہلحدیث ہونے کی وجہ سے جماعت اہلحدیث بدنام ہوگئی، حالانکہ ہماری کتب میں یہ مسئلہ نہیں۔

 اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم ان بزرگوں کواختلاف فقہی کےباوجود نیک اور بزرگ سمجھتےہیں لیکن ان کوپیشوایااپناامام نہیں سمجھتے۔ ان میں بعض حضرات کی کچھ تصنیفات ہیں۔ جن میں ہرقسم کےمسائل پائے جاتےہیں۔ان میں غلط بھی ہیں اور صحیح بھی۔

ہم ان حضرات میں سے کسی کےمقلد نہیں۔ انہیں اچھے عالم اوربزرگ سمجھتےہیں۔

بریلوی حضرات معلوم نہیں یہ غلط بیانی کیوں کرتےہیں کہ یہ حضرات ہمارے امام ہیں۔آپ یقین فرمائیں نہ ان کی کتابیں ہمارے لیےحجت ہیں نہ یہ بزرگ ہمارے امام۔ اب ہمارا فرض نہیں کہ میں اصل عبارت کی تشرحیح کروں یامغالطے کااظہار، لیکن آپ کی تسکین کےلیے اصل عبارت اوراس کا مطلب عرض کرنامناسب سمجھتاہوں۔

سید احمد کامقصد یہ ہےکہ نماز پوری توجہ سے ادا ہونی چاہیے۔ اس میں خیالات اور وسوسوں کوقریب نہیں آنے دینا چاہیے۔ خصوصا ایسے خیالات جن سے خداتعالیٰ کی عظمت اوربزرگی میں فرق آئے کیونکہ عبادت میں پہلی چیز اللہ سے محبت اوراس کی عظمت اوربرتری ہے۔

دوسری چیز عبادت میں انسان کاعجز وانکسار اورحاجت مندی۔ان دوچیزوں میں جن خیالات سےنقص پیدا ہو، اللہ کی عزت اور برتری میں فرق آئے یاانسان اپنے آپ کوبڑا سمجھے،اس کےدل میں تکبر آجائے،عبادت میں رسول اللہﷺ  کا ذکر بطور عبدہ ورسولہ آئے اس میں کچھ حرج نہیں، اس لیے کہ یہ الہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا بلکہ اس میں ان کی عبدیت اوررسالت کااقرار ہے۔

اسی لیے مغضوب اور منعم علیہ گروہوں کےخیال سےاللہ کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔

اس لحاظ سےیہ خیال اللہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا۔ اگر کسی ولی، بزرگ یانبی کاخیال آجائے توان کی عظمت، ان کی بزرگی کاخیال اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی سے ٹکرائےگا۔ آپ اس کےلیے اعوذ پڑھ سکتےہیں نہ لاحول ۔ اس کےخلاف اگر بیل،گدھے یا کسی ذلیل اورحقیر چیز کاخیال آجائے توآپ فوراً  لاحول یااعوذ پڑھ کراسے دور کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اورعزت اس سے متاثر نہیں ہوگی۔

سید صاحب کامقصد یہ ہے:

وسوسہ کوئی بھی نماز میں نہ آنا نہ ہی لانا چاہیے لیکن بعض وسوسے نماز میں زیادہ خلل پیدا کریں گےبعض کم۔ صوفیانہ لحاظ سےسید صاحب نےواقعی عجیب نکتہ فرمایا ہےلیکن کندذہن آدمی جواتنی گہرائی تک نہ جاسکے وہ کفر کےفتوئے لگانےشروع کردےگا۔ مقابلہ حضرت کی ذاتِ گرامی اورگاؤخرمیں نہیں ۔مقابلہ وسوسے کےنقصان اورمضرت میں ہے۔ ایک شخص کہتاہےکہ گرم لوہا جلانے کےلحاظ سے گرم پانی سےزیادہ مضرہے۔ مقابلہ لوہے اورپانی کی مقدار میں نہیں بلکہ لوہے اورپانی میں گرمی میں تاثیرکا ہوگا۔

سیدصاحب نےاس عمیق اورلطیف بات کو سمجھانے کےلیے متعدد صفحے لکھے ہیں لیکن بریلوی  علماء کابغض بھرا ذہن سچی بات سمجھنے میں حائل ہوگیا۔ سید صاحب کی پوری بات سمجھنے کےلیے اگر آپ پسند فرمائیں تواصل کتاب بھیج دوں۔ ممکن ہےاللہ تعالیٰ آپ کاذہن کھول دے۔

سید صاحب نےیہ بھی فرمایا ہےکہ طبائع کےلحاظ سے وسوسے کااثر ہرطبیعت پر مختلف ہوتاہے۔ حضرت عمر﷜ ایسے بزرگ نماز میں لشکر مرتب فرمالیتے تھے۔ان کی نماز میں ، ان کےخشوع میں کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے بزرگوں اوراہل اللہ کی ریس کرکےعوام کواپنی نماز نہیں خراب کرنی چاہیے۔

سید صاحب نےوسوسے کی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں۔

ایک وسوہ لاعلاج ہے۔ اس کےلیے یاتواللہ سےدعا کرے یاکسی کامل پیرکی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے۔

دوسرا قابل علاج ہے۔ اس کاعلاج ذکر فرمایا ہے۔سید صاحب فرماتےہیں :

’’ اورجوکچھ حضرت عمر ﷜ سےمنقول ہےکہ نماز میں سامان لشکر کی تدبیر فرمایاکرتے تھے۔ سواس قصے سےمغرور ہوکر اپنی نماز کوتباہ نہ کرنا چاہیے۔،،

                کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر!

                ہست مانند در نوشتن شیر و شِیر

’’ پاکبازہستیوں کےمعاملے کو خوپرقیاس مت کریں۔یہ شیر اوشِیر لکھنے کےمانند ہے، جس سےآپ اشتباہ کاشکار ہوسکتےہیں۔،،

حضرت خضر﷤ کےلیے کشتی توڑنے اوربےگناہ بچے کومارڈالنے میں بڑا ثواب تھا اوردوسروں کےلیے نہایت درجے کاگناہ ہے۔ جناب عمرفاروق﷜ کاوہ درجہ تھا کہ لشکر تیاری آپ کی نماز میں خلل نہیں ڈالتی تھی بلکہ وہ نماز کوکامل کرنے والی ہوجاتی تھی، اس لیے کہ وہ تدبیر اللہ جل شانہ کےالہامات سےآپ کے دل میں ڈالی جاتی تھی اورجوشخص خود کسی امر کی تدبیر کی طرف متوجہ ہو، خواہ وہ امر دینی ہویا دنیاوی، بالکل اس کےرخلاف ہے۔اورجس شخص پریہ مقام کھل جاتا ہےوہ جانتا ہے۔ہاں بمقتضائے ظلمات بعضها فوق بعض  زنا کےوسوسے سے اپنی بیوی سےمجامعت کےخیال کا بہتر ہے۔ اورشیخ یا اس جیسے اوربزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآبﷺ ہی ہوں، اپنی ہمت  کولگادینا، اپنے بیل گدھے کی صورت میں مستغرق ہونےسے زیادہ بُرا ہے۔ کیونکہ شیخ کاخیال توتعظیم اوربزرگی کےساتھ انسان کےدل میں چمٹ جاتاہے اور بیل یا گدھے کےخیال میں نہ تواس قدر چسپیدگی ہوتی ہے نہ تعظیم بلکہ حقیر وذلیل ہوتاہے۔ اورغیر کی یہ تعظیم اوربزرگی شرک کی طرف لےجاتی ہے۔حاصل کلام یہاں وسوسوں کےتفاوت کابیان کرنا مقصود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے۔ میں نے بقدر ضرورت ترجمہ نقل کردیا ہے۔

سید صاحب یہاں نبی اکرم اور بزرگوں کی عظمت اوربزرگی کاذکر کرتےہیں۔بریلوی مولوی  صاحبان نےاسے توہین بناڈالا۔سمجھ الٹ جائے تواس کا کوئی علاد نہیں۔ومَن يُضلِلهُ فلا هادى له .

 اس امر پرتمام مسلمان متفق ہیں کہ نماز خشوع اور انابت سےادا کرنی چاہیے۔ وسوسے اورخیالات نماز میں نقصان پیدا  کرتےہیں۔یہی مسئلہ سید صاحب نےذکر فرمایا۔

سید صاحب نےاس کی وضاحت فرمائی کہ ردی اورحقیر چیزوں کا خیال اس لیے زیادہ مضر نہیں کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ معزز اورمحبوب چیزیں زیادہ مضر ہیں کہ ان کی عزت اورمحبت دل پرغالب ہوتی ہے۔ آپ ان بریلوی علمائے کرام سے فرمائیں کہ ان کےہاں کیا صورت ہوگی۔

کیاگاؤخر کےتصور سےنماز میں صرف نقص پیدا ہوگا اوربزرگوں کےتصورسےنماز پرکوئى اثر نہیں پڑےگا، یا بریلوی حضرات نماز میں خشوع کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ آپ کےہاں کافر،مشرک یہودی، عیسائی، مجوسی کےتصور میں فرق نہیں، سب یکساں ہیں۔ آپ کےسوال کےآخری حصے سےتویہی ظاہر ہوتاہےکہ آپ حضرات مغضوب عليهم اور منعم عليهم،  کفار مشرکین اور صالحین سب کےتصور کاجائز سمجھتےہیں۔ اس کےسواآپ کےہاں کوئی چارہ ہی نہیں۔ بہرحال سید صاحب نماز میں خشوع ضروری  سمجھتےہیں اورخیالات ووسوسوں میں بھی فرق کرتےہیں۔ بعض زیادہ مضر اوربعض کم۔اور اس میں مقابلہ رسول اللہﷺ کی ذاتِ بابرکات اور(معاذاللہ) گاؤخر میں نہیں بلکہ اچھے  اوربرے اورمضر اورکم مضروسوسوں میں مقابلہ ہے۔

ایک فقہی نظیر:

                ذہین کوصاف کرنےکےلیے میں چاہتاہوں آپ فقہائے حنفیہ﷭ کی ایک دو تصریحات پرغور فرمائیں:

’’ اگر قرآن سےدیکھ کرپڑھے تواس کی نماز(احناف کےنزدیک) فاسد ہوجائےگی(کیونکہ اس میں تعظیم وتعلم ہے)۔اگرعورت کی شرمگاہ کوشہوت سےدیکھے تونماز فاسد نہیں ہوگی۔،( الاشباہ والنظائر ،ابن نجیم، ص 720)

مولوی احمد رضا صاحب لکھتےہیں:

’’اگر عورت کوطلاق رجعی دی تھی، ہنوذعدت نہ گزری، یہ نماز میں تھا کہ عورت کی فرج داخل پرنظر پڑگئی اورشہوت پیدا ہوئی اورنماز میں فساد نہ آیا۔،، ( فتاوی رضویہ 1؍ 76 )

مولوی صادق صاحب اور دوسرے بریلوی صاحبان دریافت فرمائیں کہ شرمگاہ قرآن سےافضل ہے۔ قرآن سےنماز فاسد ہو، شرمگاہ کےملاحظہ سے سےنماز پرکوئی اثر نہ پڑے۔ شامی عراقی الفلاح میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، جوتوجیہ آپ کے بزرگ اس کےلیے کریں گے،اسی قسم کا عذر سید احمد شہید کےلیے بھی ہوگا۔

دوسرا مسئلہ:

                ’’ اگر امام ایک ماہ امامت کےبعد کہتاہےکہ میں مجوسی تھا۔مقتدی کونماز لوٹانےکی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر امام کہےکہ میں نےبےوضویاپلید کپڑے میں نماز پڑھائی ہےتوبصورت بےوضونماز لوٹانی چائیے۔،،( الاشباہ والنظائر، ص : 720 )

اگر آپ پر یہ الزام لگایا جائے کہ آپ مجوسی آتش پرست کوبےوضو مسلمان سےبہتر سمجھتےہیں، کیا آپ اسے پسند کریں گے؟ اگریہاں فقہاء﷭ کی توجیہات صحیح سمجھی جاسکتی ہیں توسید احمدصاحب کےارشاد کی بھی توجیہ ہوسکتی ہے۔آپ اپنےعلماء سےدریافت فرمائیں۔ مجھےخطرہ ہےکہ اگر آپ نےمسائل میں تحقیق شروع کی تو محلے میں آپ کا مقاطعہ کرایا جائے گااور مسجد میں آپ کا داخلہ بند ہوجائے گا۔

 ہم جس طرح ائمہ اربعہ اورفقہائے مذاہب کواپنا بزرگ سمجھتےہیں، ان کےعلوم سےفائدہ اٹھاتےہیں، اسی طرح سیداحمدشہید اورمولانا عبدالحئی صاحب کوباوجود ان کے حنفی ہونے کے اپنابزرگ اورعالم سمجھتےہیں۔ جوباتیں ان کی قرآن وحدیث کےمصالح کےمطابق ہوں انہیں قبول کرتےہیں۔جوسمجھ میں نہ آئیں ، انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن ان کو برا بھلا نہیں کہتے نہ ان کوانبیاء کی طرح واجب الاطاعت جانےہیں۔

﴿رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا... ﴿١٠﴾... سورة الحشر

میں آخر میں آپ کاپھرشکرگزارہوں کہ آپ نےتحقیق کرنے کی جرات فرمائی۔

اللہ تعالیٰ آپ کوسمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے