سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) رسول اور نبی میں فرق

  • 23289
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2050

سوال

(48) رسول اور نبی میں فرق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اور نبی میں کیا فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عموماً تفسیر کی کتب میں رسول کےلیے صاحب شریعت ہونا اورنبی کےلیے کسی پہلے رسول کی شریعت کےتابع ہونامراد لیا جاتاہےلیکن اس تعریف کےمطابق عیسیٰ ﷤ کونبی شمار کرنا چاہیے کیونکہ وہ موسیٰ ﷤ کی شریعت کےتابع تھے، حالانکہ قرآن انہیں رسول قرار دیتاہے۔

دوسری تعریف یہ بیان کی گئی کہ رسول صاحب کتاب ہوتاہےجبکہ نبی کےاوپر کسی کتاب کانزول نہیں ہوتا۔ اس تعریف  کےمطابق داؤدﷺ  کورسول قرار دیا جانا چاہیے  کیونکہ ان پرزبور کانزول ہواتھا، حالانکہ قرآن نےانہیں صرف نبی قرار دیا ہے۔ اس لیے سب سے بہترین تعریف وہ ہے جس کےمطابق رسول اللہ کےلیے غلبہ لازمی  قرار دیاگیا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یون ہےکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نےرسولوں کےلیے اس دنیا میں غلبے کاذکر کیاہے، یعنی وہ مغلوب نہیں ہوتے اورنہ انہیں قتل  ہی کیاجاسکتاہے، اس کےمقابلے میں انبیاء مغلوب بھی  ہوئے ہیں اورقتل کانشانہ بھی بنےہیں ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتےہیں : ﴿كَتَبَ اللَّهُ لَأَغلِبَنَّ أَنا۠ وَرُسُلى...﴿٢١﴾... سورة الحشر

 ’’ اللہ تعالیٰ نے(تقدیر میں ) یہ لکھ دیا کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔،،

اورانبیاء کےضمن میں ارشاد فرمایا:

﴿ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم كانوا يَكفُرونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ وَيَقتُلونَ الأَنبِياءَ بِغَيرِ حَقٍّ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا ...﴿١١٢﴾... سورةآل عمران

’’ یہ اس لیے کہ وہ لوگ (بنی اسرائیل) اللہ کی آیات کاانکار کرتےتھے اور انبیاء کوناحق قتل کیا کرتےتھے۔،،

چنانچہ یہود نےزکریا﷤  اوران کےبیٹے یحییٰ ﷤ کوقتل کیا۔ یہ دونوں نبی تھے لین وہ اللہ کےرسول عیسیٰ ﷤ کےقتل پرقادر نہیں ہوسکے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَولِهِم إِنّا قَتَلنَا المَسيحَ عيسَى ابنَ مَريَمَ رَسولَ اللَّهِ وَما قَتَلوهُ وَما صَلَبوهُ وَلـٰكِن شُبِّهَ لَهُم وَإِنَّ الَّذينَ اختَلَفوا فيهِ لَفى شَكٍّ مِنهُ ما لَهُم بِهِ مِن عِلمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ وَما قَتَلوهُ يَقينًا ﴿١٥٧﴾... سورة النساء

’’ اوران (یہود) کےیوں کہنے کےباعث(ملعون ہوئے) کہ ہم نےاللہ کےرسول مسیح عیسیٰ ابن مریم کوقتل کیا، حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا اورنہ سولی چڑھایا بلکہ انہیں شبہے میں ڈال دیا گیا۔ یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ﷤  کے بارےمیں اختلاف کرنے والےان کےبارے میں شک میں ہیں،انہیں اس کا کوئی یقین نہیں سوائے تخمینی باتوں پرعمل کرنےکے۔اتنایقینی ہےکہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا۔ ،،

رسولوں کےلیے جس غلبے کاذکر کیاگیا ہے،وہ وہی غلبہ ہےجو ایک شخص کواپنے دشمن پرحاصل ہوتا ہے کہ دشمن شکست سےدوچار ہوتاہےجبکہ رسول کوفتح ونصرت نصیب ہوتی ہے کیونکہ جہاں تک دلائل وبراہین سےغلبے کاتعلق ہےوہ توہرصورت میں ہررسول ہرنبی کوحاصل رہا ہے۔

محسوس طریقے پرغالب آنے کےیہ معنی خود قرآن ہی سےاخذ کیےگئے۔وہ اس طرح کہ قرآن میں جہاں جہاں غلبے کاذکر ہے، وہاں یہی محسوس غلبہ مراد لیا گیا ہے۔ کافروں کی اس دنیا میں مغلوبیت کاتذکرہ کیاگیا،فرمایا:

﴿قُل لِلَّذينَ كَفَروا سَتُغلَبونَ وَتُحشَرونَ إِلىٰ جَهَنَّمَ وَبِئسَ المِهادُ ﴿١٢﴾... سورة آل عمران

’’ (اے نبی) کافروں سےکہہ دیجیے کہ تم عنقریب مغلوب کیے جاؤ گےاور جہنم کی طرف جمع کئے جاؤ گےاوروہ براٹھکانا ہے۔،،

رسول اللہ ﷺ  کےزمانے میں یہود نےآپ سےدشمنی کی۔ مدینہ کےتین یہودی قبائل میں سے بنوقینقاع اوربنونضیر جلاوطن ہوئے اوربنوقریظہ قتل کئے گئے۔ خیبر فتح ہوا اور یہودیوں پرجزیہ عائد کردیا گیا۔ سورہ روم کےآغاز میں فارسیوں کےہاتھوں رومیوں کی شکست اورپھر چندسال میں ان کےغالب آنے کی بشارت دی گئی۔ فرمایا:

﴿الم ﴿١ غُلِبَتِ الرّومُ ﴿٢ فى أَدنَى الأَرضِ وَهُم مِن بَعدِ غَلَبِهِم سَيَغلِبونَ ﴿٣ فى بِضعِ سِنينَ...﴿٤﴾... سورةالروم

 ’’ الم ، رومی مغلوب ہوگئے ، زمین کےپست ترین حصے میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کےبعد عنقریب غالب آجائیں گے، چند سال ہی میں۔،،

اورتاریخ  یہی بتاتی ہےکہ باز نطینی سلطنت (جو سلطنت روما کی مشرقی شاخ تھی) نےارض فلسطین میں (جوکہ بحیرہ مردار کےحوالے سےزمین کاپست ترین حصہ کہلاتی ہے) نبی  اکرمﷺ  کےمکی دور کےزمانے میں شکست  کھائی اورپھر سات سال کےمختصر عرصے میں شاہ ہرقل کودوبارہ فتح نصیب ہوئی اوراسی فتح کی خوشی میں وہ اللہ کاشکریہ ادا کرنےکےلیے بیت المقدس(موجودہ یروشلم ) آیا تھا جہاں اسےنبی ﷺ کی طرف سے اسلام قبول کرنے کادعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ تب اس نے یروشلم میں موجود عربوں کےسردار کوبلایا تھا اور اس سےرسول اللہ ﷺ کےبارےمیں چند سوالات کئے تھے۔

سورہ نساء کی آیت میں غلبے کوقتل کےمقابلےمیں ذکر کیاگیاہے،فرمایا:

﴿ وَمَن يُقـٰتِل فى سَبيلِ اللَّهِ فَيُقتَل أَو يَغلِب فَسَوفَ نُؤتيهِ أَجرًا عَظيمًا ﴿٧٤﴾... سورة النساء

’’ اور جوشخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتاہے، پھر یاتو وہ قتل ہوجاتاہےیاغلبہ پالیتا ہے،پھر یقینًا ہم اسے بڑا ثواب عطا کریں گے۔،،

البتہ سورہ بقرہ کی آیت 87 سےاشکال پیدا ہوتاہےکہ آیا رسول بھی قتل کیے جاسکتے ہیں ؟ فرمایا:

﴿وَلَقَد ءاتَينا موسَى الكِتـٰبَ وَقَفَّينا مِن بَعدِهِ بِالرُّسُلِ وَءاتَينا عيسَى ابنَ مَريَمَ البَيِّنـٰتِ وَأَيَّدنـٰهُ بِروحِ القُدُسِ أَفَكُلَّما جاءَكُم رَسولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُكُمُ استَكبَرتُم فَفَريقًا كَذَّبتُم وَفَريقًا تَقتُلونَ ﴿٨٧﴾... سورة البقرة

’’ اوربےشک ہم نے موسیٰ کوکتاب دی اوراس کےبعد اس کےپیچھے اوررسول بھیجے اورہم نےعیسیٰ ابن مریم کوروشن دلیلیں دیں اورروح القدس سے ان کی تائید کروائی لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جوتمہاری طبیعتوں کےخلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پھر تم نے بعض کوتوجھٹلایا  اوربعض کوقتل کرڈالا۔،،

اس اشکال کی وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی سےمطلوب تھی جوکہ رسول اور نبی کےدرمیان مذکورہ بالا فرق کےشدومد کےساتھ قائل ہیں لیکن انہوںنے سورہ بقرہ اوروسورہ مائدہ کےان دونوں مقامات پرجہاں یہ اشکال پیداہوا ہے، کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ میرے ذہن میں اس اشکال کاایک حل آتاہ، جومیں پہلے پیش کرتاہوں اور اس کےبعد اپنےشیخ محمد امین شنقیطی کا، جواس اشکال کوحل کرنے میں معاون ہوسکتاہے۔

1)رسول یہاں مبعوث کےمعنی میں لیا جائے۔ رسول لغوی لحاظ سے پیغامبر کےمعنی میں ہےاورمبعوث وہ جسے بھیجا گیاہو۔

مبعوث ، بعث (بھیجا) سےنکلا ہےاورقرآن مجید میں یہ لفظ نبی اوررسول دونوں کےلیے استعمال ہواہے،فرمایا:

﴿هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَسولًا مِنهُم...﴿٢﴾... سورة الجمعة

’’ وہی اللہ ہےجس نےامی لوگوں میں، انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔،،

اورفرمایا:

﴿كانَ النّاسُ أُمَّةً و‌ٰحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيّـۧنَ مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ... ﴿٢١٣﴾... سورة البقرة

’’ لوگ ایک امت تھے تواللہ نےانبیاء کوبھیجا بشارت دینے کےلیے اور ڈرانے کےلیے۔،،

گویا مبعوث میں رسول اورنبی دونوں آجاتےہیں ۔ اس اعتبار سے سورہ بقرہ کی آیت میں جن دوفریقوں کاذکر کیاگیا ہے،ان میں سےایک سےمراد رسول ہوں گے ،یعنی جنہیں جھٹلایا گیا اوردوسرا فریق انبیاء کاہوگا جن میں سےبعض کولوگوں نےقتل کیا۔

اب اگر یہ کہا جائے کہ یہاں رسول کےمعن مبعوث کےکیوں لیے گئےہیں، خالص رسول ہی کےمعنی کیو نہیں لیے گئے، توجواباً عرض ہےکہ اس آیت میں چونکہ دو فریقوں کاذکر کیا گیا ہے،جن میں قتل ہونے والوں کابھی ذکر ہے،اس لیے یہا رسول اورنبی بحیثیت دوالگ الگ فریق لیے گئے تاکہ قرآن کی ان آیات سےتعارض نہ ہوجہاں رسولوں کےلیے خصوصی نصرت( انا لننصررسلنا والذين امنوا)

اور غلبے کاوعدہ کیا گیا ہے۔

2) شیخ شنقیطی نےاپنی تفسیر کےمقدمےمیں مذکورہ بحث کوتفصیل سے بیان کیاہے جس کا خلاصہ یہ ہےکہ رسولوں کےلیے غلبے کاوعدہ ایسے رسولوں کےلیے ہےجنہیں جہاد کاحکم دیاگیا ہواور ان سے میدان جنگ میں مغالبہ (یعنی غلبہ حاصل کرنےکی جدوجہد) مطلوب ہو برخلاف ان رسولوں کےجنہیں جہاد کاحکم نہیں دیا گیا ، چنانچہ ان میں سے کچھ قتل بھی کیے گئے۔یہ فرق انہوں نےسورہ آل عمران کی آیت سےلیا ہے:

﴿وَكَأَيِّن مِن نَبِىٍّ قـٰتَلَ مَعَهُ رِبِّيّونَ كَثيرٌ فَما وَهَنوا لِما أَصابَهُم فى سَبيلِ اللَّهِ وَما ضَعُفوا وَمَا استَكانوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصّـٰبِرينَ ﴿١٤٦﴾... سورةآل عمران

 ’’ بہت سےنبیوں کےہم رکاب ہوکر، بہت سے اللہ والے جہاد کرچکےہیں،انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہچیں لیکن اس پرنہ تو انہوں نےہمت ہاری، نہ سست رہےاورنہ دبے، اوراللہ صبر کرنےوالوں کوچاہتاہے۔،،

وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ایک قراءت قُتِلَ بصیغہ مجہول بھی ہے،قَاتَلَ کی جگہ اگر اسے قُتِلَ پڑھا جائے تواس کےدومعنی ہوسکتےہیں :

الف) کتنے ہی نبی ہیں جو قتل ہوئے اوران کےساتھ بہت سے اللہ والےتھے، یعنی قُتِلَ کانائب فاعل وہ ضمیر ہےجونبی کی طرف لوٹتی ہے)۔

ب) کتنے ہی نبی ہیں جن کےساتھ بہت سے اللہ والے قتل ہوئے،(یعنی نائب فاعل، لفظ ربیون ، اللہ والےہے)۔ اب یہاں پرقتال کاذکر ہےاورچونکہ اللہ تعالیٰ نےرسولوں کےلیے غلبے کی بشارت دی ہےاورغلبہ قتل کےمنافی ہے، اس لیے ہم یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ میدان جنگ میں نبی یارسول قتل نہیں ہوسکتا، اس لیے مذکورہ دونوں معنوں میں، دوسرے معنی ہی مراد لیےجائیں گےکہ جب کبھی قتال ہواتو اس میں نبی نہیں قتل ہوئے بلکہ ان کےساتھ کئی اللہ والے بےشک قتل ہوئے۔اوراس طرح یہ فرق واضح ہوگیا کہ انبیاء ورسل کےلیے غلبہ لازمی ہےاورمیدان جنگ میں وہ مقتول نہیں ہوسکتے، البتہ عام حالات میں یہ قتل واقع ہوسکتاہے، جیسے وہ انیباء جنہیں بنی اسرائیل نےقتل کیا تھا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے