سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(511) بے اولادبیوی سے باپ اور خاوند کا حصہ

  • 23276
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 647

سوال

(511) بے اولادبیوی سے باپ اور خاوند کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کی اہلیہ نے بقضائے الٰہی زید کی زند گی میں وفات پائی مرحومہ کی کوئی اولاد نہیں نہ ہی اس کے بھائی بہن ہیں مگر اس کا والد زندہ ہے اور خاوند سے شرعی حصہ مانگتا ہے مرحومہ کی کوئی جائیداد نہیں ہے صرف زیور اور پارچہ جات ہیں زیور کا کچھ حصہ مرحومہ کو اس کے والد نے دیا تھا اور کچھ حصہ اس کے خاوند نے بعد نکاح وقتاً فوقتاً بنواکر دیا مرحومہ نے اپنے خاوند کو یہ وصیت بھی کی ہے کہ اس کے زیور میں سے حج بدل کرایا جائے ۔ مرحومہ کا خاوند زید اب یہ کہتا ہے کہ جو زیور اس نے( زید نے) مرحومہ کو وقتاً فوقتاً بنوا کر دیا تھا وہ اس نے اپنی زوجہ کی ملکیت میں نہیں کیا تھا اس لیے وہ مرحومہ کا ترکہ نہیں ہے البتہ جو زیور مرحومہ کو والدین کی طرف سے ملاتھا وہ مرحومہ کا ترکہ ہے پس خاوند زید یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا زیور وغیرہ الگ کر کے باقی ماندہ مال میں سے رقم حج نکالے گا پھر جو بچے گا اس میں سے نصف والد مرحومہ کے حوالے کرے گا۔

جناب والا کی خدمت میں التماس ہے کہ شرعی فتوی مندرجہ ذیل امور کی نسبت تحریر فرمائیں۔

1۔مرحومہ کا ترکہ کیا ہے؟ صرف وہ زیور اور پارچہ جات جو اس کو والدین کے ہاں سے ملے یا وہ زیور بھی ترکہ میں داخل سمجھا جائے گا جو خاوند نے اس کو وقتاًفوقتاًبنوا کر دیا مگر اس کی ملک نہیں کیا؟

2۔وصیت تقسیم کرنے سے پہلے پوری کرنی چاہیے؟

3۔باپ اور خاوند کا کس قدر حصہ ہو گا؟ مسکین : ڈاکٹر عبدالرحیم سب اسسٹنٹ سرجن محلہ اقبال گنج شتر خانہ لودھیا نہ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔مرھومہ کا ترکہ صرف وہ زیور وپارچہ جات ہیں جو اس کو اس کے والدین کے ہاں سے ملے بشرطیکہ خاوند نے جو زیور اس کو وقتاً فوقتاً بنواکر دیا اس کے دینے کے وقت تصریح کردی ہوکہ یہ زیور تم کو مستعار دیتا ہوں۔تمھاری ملک نہیں کرتا اور اگر تصریح نہ کی ہو تو ایسی صورت میں رواج پر فیصلہ ہو گا یعنی اگر یہ رواج ہوکہ زیور جو خاوند دیتا ہے وہ بھی زوجہ کی ملک سمجھا جاتا ہے تو زیور مذکور ہ بالا مرحومہ کی ملک اور مرحومہ کے ترکہ میں داخ رحمۃ اللہ علیہ  سمجھا جائے اور اگر زیور جو خاوند دیتا ہے مستعار سمجھا جاتا ہے تو زیور مذکورہ بالا مرحومہ کے ترکہ میں داخل نہیں سمجھا جائے گا بلکہ وہ کاوند کی ملک ہو گا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

2۔وصیت تقسیم ترکہ سے پہلے پوری کرنی چاہیے مگر صرف تہائی ترکہ سے اور وہ بھی اس ترکہ کی تہائی سے جو مرحومہ کی تجہیز و تکفین سے و نیز ادائے دین سے (اگر مرحومہ پر کسی کا کچھ دین آتا ہو) بچ رہے بشرطیکہ ورثہ تہائی سے زیادہ وصیت پوری کرنے پر راضی نہ ہوں اس قدر ست وصیت تقسیم ترکہ سے پہلے پوری کرنی چاہیے۔

3۔وصیت پوری کرنے کے بعد جس قدر بچ رہے اس میں سے نصف باپ کا حصہ ہے اور نصف خاوند کا اگر مرحومہ نے اولاد نہ چھوڑی ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الفرائض،صفحہ:752

محدث فتویٰ

تبصرے