سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(507) فرائض کے بعض اختلافی مسائل میں ترجیح

  • 23272
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 766

سوال

(507) فرائض کے بعض اختلافی مسائل میں ترجیح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دریں مسائل فرائض بین العلماء خلافے رودادہ و حاجت تصیفہ ثالث فتادہ کشف استارفرنید (فرائض کے درج ذیل مسائل میں علماء کے مابین اختلاف واقع ہو گیا ہے کسی ثالث کی طرف سے اس کے تصفیے کی ضرورت ہے لہٰذا آپ ہی حقیقت حال سے نقاب کشائی کیجئے )

1۔حسینی بیگم

مسئلہ3تصحیح 84،

ابن الخال، ابن الخال، ابن الخال،بنت الخال،ابن خالہ،بنت الخالہ،بنت الخالہ،

مظہر علی خاں، احمد خاں، ولی محمد خاں، بی بی عمرہ، علی حسین، بی بی بدہن، بی

16۔۔۔۔۔۔۔16۔۔۔۔۔۔۔۔۔16۔۔۔۔۔۔۔۔8۔۔۔۔۔14۔۔۔۔7بی سد ہن،7۔۔۔

2۔مسئلہ 11،تصحیح 308۔

ابن اخ الام ، ابن اخ الام ، ابن اخ الام ، بنت اخ الام ، ابن اخت الام، بنت اخت الام ،بنت اخت الام ،

مظہر علی خاں، احمد خاں، ولی محمد خاں، بی بی عمرہ، علی حسین، بی بی بدہن، بی

64۔۔۔۔۔۔۔۔64۔۔۔۔۔64۔۔۔۔۔۔32۔۔۔۔42۔۔۔۔21۔۔۔بی سد ہن،21۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ نمبر2۔مسئلتاً اور تصحیحاً دونوں صورتوں میں صحیح اور درست ہے اور مسئلہ نمبر 1۔ہر لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ زوی الارحام کی صنف رابع کا حساب ثلث اور تکفین کے ساتھ اس وقت ہو تا ہے جب ان کی قرابت کا جزو مختلف  ہو۔ یعنی ان میں سے بعض اب کے فریق ہوں جیسے پھوپھیون کی اولاد اخیافی چچوں کی اولاد اور چچوں کی بیٹیوں کی اولاد اور ان میں سے بعض ام کے فریق سے ہیں جیسے ماموؤں کی اولاد اور خالاؤں کی اولاد اور اگر ان کی قرابت کا جزو و متحد ہو یعنی سب فریق اب ہوں یا سب فریق ام ہوں تو اس وقت ثلث اور ثلثین کا حساب جاری نہیں ہوتا بلکہ اس صورت میں ان میں سے اگر کوئی ولد عصبہ میں سے نہ ہو (امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کلے مطابق حنفی مذہب میں مفتی بہ قول یہی ہے) تو اول بطن کے اصول پر جن میں ذکورت و انوثت کا اختلاف رونما ہو چکا ہو ترکہ کی تقسیم﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ کے حساب پر کرنا ہوگی ان کے اصول کے حصے ان کے فروع کو صفات فروع کے اعتبار سے دیے جائیں گے رہا وہ مسئلہ جس پر ہم بات کر رہے ہیں اس میں تین ماموں کے بیٹے ایک ماموں کی بیٹی ایک خالہ کا بیٹا اور دو خالہ کی بیٹیاں ہیں ان کی قرابت کا جزو متحد ہے کیوں کہ وہ فریق ام ہیں اور ان میں سے کوئی ایک ولد عصبہ بھی نہیں ہے پس امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کے مطابق ہر چار ماموں اور تین خالائیں جو ان (ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد) کے اصول ہیں اور ذکوت و انوثت میں مختلف ہیں:

 ان میں﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾کے حساب سے ان کی صفات کے اعتبار سے ان کو حصہ دیا جائے گا۔

پس زیر  بحث مسئلے میں چار ماموں اور تین خالائیں ہیں چار ماموں بمنزلہ آٹھ خالاؤں کے ہوئے لہٰذا کل گیارہ خالائیں بن گئیں ۔ پس اس کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تو ان میں سے آٹھ حصے چار ما موؤں کےاور تین حصے تین خالاؤں کودیے گئے اور جب چار ماموؤں کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے تو تین بیٹے بمنزلہ چھے بیٹیوں کے ہوئے گویا یہ کل سات بیٹیاں ہو گئیں اور جب آٹھ حصوں کو جو ماموؤں کے حصہ ہے سات پر جو ان کی فروع کے رؤس کا عد ہے وہ مستقیم نہیں ہے ان کے درمیان نسبت تباین ہے تصحیح کے قاعدے کے مطابق تمام سات حصوں کو محفوظ رکھا گیا تین خالاؤں  کی فروع ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ایک بیٹا بمنزلہ دو بیٹوں کے ہے گویا مجموعی طور پر چار بیٹیاں ہوئیں پھر تین حصے جو خالاؤں کا حصہ ہے چار پر ان کی فروع کے روؤس کا عددہے اور وہ عدد مستقیم نہیں ہے ان کے درمیان نسبت تباین ہے لہٰذاکل چار حصوں کو محفوظ کر دیا گیا پھر دونوں محفوظ عددوں (7اور چار) میں بھی تباین کی نسبت ہے لہٰذا ایک دوسرے سے ضرب دی گئی تو حاصل ضرب (28)ہوا۔ پھر اس کو اصل مسئلے (11)کے ساتھ ضرب دی گئی تو حاصل ضرب (308)ہوا۔ اس سے مسئلے کی تصحیح ہو گی پس ان میں سے (424)چار ماموؤں کو ملیں گے اور ان کو ان کی فروع پر لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ"کے قاعدے پر تقسیم کر دیا جائے گا باقی کے (84)حصے تین خالاؤں کو ملیں گے اور ان کو مذکورہ حساب کے ساتھ ان کی فروع پر تقسیم کر دیا جائے گا۔

السراجیہ اور اس کی شرح الشریفیہ میں ہے۔

’’اگر وہ میت کی طرف قرب میں برابر ہوں اور ان کی قرابت کا جزو متحدہ ہو یعنی سب کی قرابت میت کے باپ یا اس کی ماں کی طرف سے ہو تو جس کو قوت قرابت حاصل ہوگی تو بالا جماع وہی زیادہ حق دار ہو گا۔‘‘

اسی میں یہ بھی ہے۔

"اگر وہ قرب میں حسب درجہ اور قرابت میں حسب قوت برابر ہوں اور ان کی قرابت کا جزو متحد ہو تو ولد عصبہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔"

شریفیہ میں ہے۔

’’اگر وہ مجتمع ہوں اور ان کی قرابت متحد ہوتو ان میں سے جو قوی قرابت والا ہے وہی زیادہ حق دار ہے۔خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اگر ان کی قرابت برا بر ہو تو پھر ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾کے قاعدے کے مطابق تقسیم ہو گی۔‘‘

السراجیہ اور الشریفیہ میں ہے۔

’’پھر باپ اور ماں کے فریق میں سے ہر فریق کو جتنا حصہ ملے تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اول بطن میں مال تقسیم کیا جائے گا اور اصول میں فروع اور حساب کے عدد کے اعتبار سے مختلف ہو گا۔‘‘

عالمگیری میں ہے۔

’’پس اگر ان میں سے ایک فریق ماں کی طرف سے ماموؤں اور خالاؤں کی بیٹیوں کی صورت میں ہواوردوسرا فریق باپ کی طرف سے پھوپھیوں اور اخیافی چچوں کی بیٹیاں ہو تو دونوں فریقوں میں ثلث اور ثلثلین کے حساب سے مال تقسیم ہو گا۔‘‘

ردالمختار میں ہے۔

’’اگر ان کی قرابت کا جزو مختلف ہو تو دو ثلث اس کو ملے گا جس کا باپ کی قرابت کے ذریعے رشتہ ہے اور ایک ثلث اسے ملے گا ۔ جس کی ماں کی قرابت کی وجہ سے رشتے داری ہے اور السراجیہ میں ہے اور اگر ان کی قرابت مختلف ہوتو قرابت اب کے لیے دو ثلث اور قرابت ام کے لیے ایک ثلث ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الفرائض،صفحہ:747

محدث فتویٰ

تبصرے