السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ایک شخص احمد تھا اس کے ایک پسر محمود زوجہ اولیٰ سے ہے۔
2۔احمد نے بعد انتقال زوجہ اولیٰ کے عقد ثانی کر لیا ۔ جس کے بطن سے سات پسر متولد موجود ہیں۔
3۔احمد نے محمود کے نام کچھ جائیداد بھی کسی وجہ سے کھیوٹ کرا دیا تھا ۔
4اب محمود خواستگار تقسیم جائیداد ہے اور احمد اب تک باحیات مستعار قائم ہے تو محمود جائیداد تقسیم پانے کا مستحق ہے یا نہیں ؟اگر ہے تو کس طرح حصص شرعیہ ہو سکتا ہے یا بعد انتقال احمد کس طرح برادران مختلف بطن میں شرعاً حصص ہو گا نیز جائیداد محمود میں پسران بطن ثانی کے حصہ پانے کے مستحق ہوں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر احمد کا مطلب محمود کے نام جائیداد کے کھیوٹ کر دینے سے جائیداد مذکورہ کا محمود کو ہبہ کر دینا ہے تو اس صورت میں کہ احمد نے محمود کو ہنوز جائیداد مذکورہ پر قبضہ نہیں دیا ہے محمود جائیداد مذکورہ کے تقسیم کراپانے کا مستحق نہیں ہے۔
"روي احمد والطبراني عن ام كلثوم بنت ابي سلمة وهي بنت ام سلمة قالت:لما تزوج النبي صلي الله عليه وسلم ام سلمة قال لها:اني قد اهديت الي النجاشي حلة واواقي من مسك ولا اري النجاشي الا قد مات ولا اري هديتي الا مردودة علي فان ردت علي فهي لك‘قال:وكان كما قال الحديث واسناده حسن"(فتح الباري طبع دہلی 2/540)
(امام احمد اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ام کلثوم بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا ہے جو ام سلم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی تو انھیں کہا:" میں نے نجاشی کے پاس ایک حلہ اور چند وقیے مسک کا ہدیہ ارسال کیا ہے میرا گمان ہے کہ نجاشی فوت ہو گیا ہے اور میں سمجھتا ہو ں کہ میرا ہدیہ میرے پاس واپس آجائے گا اگر وہ میرے پاس آگیا تو وہ تیرا ہو گا۔ "راوی کہتے ہیں کہ ایسے ہی ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا ۔ الحدیث اس کی سند حسن ہے)
"عن مالك عن ابن شهاب الزهري عن عروة عن عائشة زوج النبي صلي الله عليه وسلم انها قالت:ان ابا بكر الصديق رضي الله عنه كان نحلها جادعشرين وسقا من ماله بالغابة فلما حضرته الوفاة قال:والله يا بنية مامن الناس احب الي غنيٰ بعدي منك ولااعز علي فقرا بعدي منك واني كنت نحلتك جاد عشرين وسقا فلو كنت جددتيه واحتزيته كان لك لان الحيازة والقبض شرط في تمام الهبة وقال ابو عمر:اتفق الخلفاء الاربعة عي ان الهبة لا تصح الا مقبوضة وبه قال الائمة الثلاثة وقال احمد هو اليوم مال وارث وانما هما اخواك واختاك فاقسموه علي كتاب الله" (موطا مالک مع شرحه الزرقائی مطبوعه مصر 217/2)
(امام مالک رحمۃ اللہ علیہ محمد بن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کو غابہ نامی اپنی زمینی سے بیسوسق کا عطیہ دیا پھر جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے کہا اے بیٹی ! مجھے اپنے بعد غنا کی حالت میں تجھ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں اور مجھے تیرا فقراپنے بعد سب سے زیادہ ناگوار ہے میں نے تجھے بیس وسق کا عطیہ دیا تھا اگر توان کو توڑے اور ان کی مالک بنے تو وہ تیری ہی ہیں کیوں کہ مالک بننا اور قبضہ کرنا ہبہ کے مکمل ہونے کی شرط ہے ابوعمر نے کہا ہے چاروں خلفا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہبہ اس صورت میں درست ہے۔ جب اس پر قبضہ کیا جائے ائمہ ثلاثہ کا بھی یہی موقف ہے امام احمداور ابو ثور نے کہا ہے کہ قبضہ کیے بغیر بھی ہبہ اور صدقہ صحیح ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک غیر صحیح سند کے ساتھ یہی موقف مروی ہے آج وہ وراثت والا مال ہے اور وہ (وارث ) تیرے دو بھائی (عبد الرحمٰن اور محمد) اور دو بہنیں ہیں لہٰذا اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر لینا)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب