سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(501) میت کی خلاف شرع تقسیم کالعدم ہوگی

  • 23266
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 797

سوال

(501) میت کی خلاف شرع تقسیم کالعدم ہوگی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کے تین لڑکے مثلاً عمرو ،بکر، خالد و چارلڑکیوں مثلاً ہندہ بتول،آسیہ، آمنہ، ہیں ۔زید نے اپنی زندگی میں اپنا مال کل جائیداد تین حصے کر کے اس میں سے ایک حصہ بڑے لڑکے عمرو کو دے کر علیحدہ کردیا اور بقیہ دو حصہ بکرو خالد کو دیا۔ وہ دونوں یعنی بکرو خالد ایک جاکاروربار کرنے لگے اور دونوں کے باپ و ماں یعنی زید و ماں مریم نے بکرو خالد کے شامل زندگی بسر کیا جس کا زمانہ عرصہ پچیس برس کا ہو تا ہے بعدہ منجھلے بھائی بکر نے چھوٹے بھائی خالد کی شادی وغیرہ کردیا جس کو زمانہ تویا دس برس کا ہوتا ہے چھوٹے بھائی خالد نے رحلت کیا اور اپنا ترکہ منجھلے بھائی بکر کی شرکت میں چھوڑ ااور ماں مریم کو اور بیوی خاتون کو بھی چھوڑا ان دونوں کا نان و نفقہ بکر دیتا ہے اور عمرو نان و نفقہ دینے سے یعنی مریم و خاتون کے انکار کرتا ہے اور کوئی اولاد خالد مرحوم کی نہیں ہے پس ایسی حالت میں بڑا بھائی عمرو جو اپنے والد کی زندگی سے جدا تھا چھوٹے بھائی خالد کے مال متروکہ کا وارث اور حقدار ہو سکتا ہے یا نہیں؟

واضح ہو کہ زید نے بکر اور خالد کو جو اپنے کل مال کا حصہ دیا تھا اس کی مقدار بہت قلیل تھی بعدہ اس کی مقدار زیادہ ہوگئی جو منجھلے بھائی بکرو خالد کا حاصل کردہ شدہ ہے اور خالد کے زمہ دس بیس روپیہ قرض ہے عمرو اس قرض کے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور دونوں بھائی یعنی بکرو خالد کی جائیداد ایک جاہے ایسی حالت میں مرحوم کی جائیداد قائم کرنے کی کیا صورت ہے؟(الراقم : محمد شفیع و غلام محمد مقام جگن ناتھ پور۔ ضلع سنگہ بھوم۔)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں عمرو خالد کے مال متروک کا وارث اور حقدار ہو سکتا ہے جس کی تفصیل جواب میں آتی ہے۔ زید نے اپنی زندگی میں اپنی کل جائیداد صرف لڑکوں کو دی اور لڑکیوں کو کچھ نہیں دیا یہ دینا زید کا ناجائز اور نادرست ہوا ۔لہٰذا کل جائیداد مذکورہ بدستور زید ہی کی ملک رہی اور زید کے لڑکے اس دینے سے اس جائیداد کے مالک نہیں ہوئے لہٰذا بعد مرنے زید کے کل جائیداد مذکورہ متروکہ زید قرارپائی اور زید کے وارثوں میں اس کے مرنے کے بعد اس طرح تقسیم ہو گی کہ

"بعد تقديم ما تقدم علي الارث ورفع موانعه"

 ثمن یعنی آٹھواں حصہ جائیداد مذکورہ کا زید کی بی بی مریم کو ملے گا اور باقی زید کے لڑکو ں کو اور لڑکیوں کو بحساب۔

﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾

یعنی ہر ایک لڑکے کو ہر ایک لڑکی کا دونا ملے گا پس اگر زید کے مرتے وقت اس کے تینوں لڑکے (عمرو بکر ، خالد) اور چاروں لڑکیاں (ہندہ بتول آسیہ ،آمنہ ) زندہ رہی ہوں تو جائیداد مذکورہ اسی سہام (حصوں) پر تقسیم ہوکر دس سہام مریم کو اور چودہ چودہ عمرو، بکرو خالد کو اور سات سات سہام ہندہ بتول، آسیہ، آمنہ،کو ملے گا۔ پھر خالد کو ملا ہے خالد کے وارثوں میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ:

"بعد تقديم ما تقدم علي الارث ورفع موانعه"

 ربع یعنی چوتھائی خاتون کو اور ثلث یعنی تہائی مریم کو ملے گا اور باقی خالد کے بھائی بہنوں میں بحساب "لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ "تقسیم ہو گا پس اگر خالد کے مرتے وقت اس کے دونوں بھائی اور چاروں بہنیں زندہ رہی ہوں تو خالد کا کل ترکہ چھیانوے سہام پر تقسیم ہو کر چوبیس سہام خاتون کو اور بتیس مریم کو اور دس دس سہام عمرو بکر اور پانچ پانچ سہام ہندہ ، بتول، آسیہ ، آمنہ کو ملے گا۔

واضح ہو کہ تقسیم مذکورہ بالا اسی صورت سے تعلق رکھتی ہے کہ زید کی چاروں لڑکیاں زید و خالد کے مرتے وقت زندہ موجود رہی ہوں ورنہ یہ تقسیم قائم نہیں رہے گی۔ بلکہ جیسی صورت ہوگی اسکے مطابق تقسیم ہوگی اور یہ بھی واضح رہے کہ خالد کے ذمہ جو قرض ہے اس قرض کے خالد کے ترکہ سے ادا کرنے کے بعد جو بچ رہے وہ خالد کے وارثوں میں بطریق مذکوربالا تقسیم ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الفرائض،صفحہ:740

محدث فتویٰ

تبصرے