السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص کسی معصیت اور ناجائز امر کی وصیت کرے تو اس کی وہ وصیت شرعاً معتبر اور قابل نفاذ ہوگی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی وصیت شرعاً معتبر اور قابل نفاذ نہ ہوگی اس لیے کہ ایسی وصیت کے نافذ کرنے سے تقریر معصیت پائی جاتی ہے جو شخص ناجائز ہے ہدایہ میں ہے۔
"الوصية بالمعصية باطلة لما في تنفيذها من تقرير المعصية"[1]
(معصیت کی وصیت باطل اور ناجائز ہے کیوں کہ اس کے نافذ کرنے سے تقریر معصیت پائی جاتی ہے) ہاں اگر ایسی وصیت کو تبدیل کردیں۔(یعنی بجائے معصیت کے طاعت قائم کردیں) تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿فَمَن خافَ مِن موصٍ جَنَفًا أَو إِثمًا فَأَصلَحَ بَينَهُم فَلا إِثمَ عَلَيهِ ...﴿١٨٢﴾... سورة البقرة
’’پھر جو شخص کسی وصیت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری یا گناہ سے ڈرے پس ان کے درمیان اصلاح کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔‘‘
تفسیر فتح البیان میں ہے۔
"قال القرطبي:لا خلاف انه اذا اوصيٰ بما لا يجوز مثل ان يوصي بخمر او خنزير او بشئي من المعاصي انه يجوز تبديله ولا يجوز امضاؤه كما لا يجوز امضاء ما زاد علي الثلث قاله ابو عمرو"[2]
(امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے ابو عمرو نے کہا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب وہ وصیت کرنے والا) کسی ناجائز کام کی وصیت کرے جیسے وہ شراب یا خنزیر یا کسی معصیت کی وصیت کرے تو اسے تبدیل کرنا جائز ہے اسے جاری کرنا جائز نہیں ہے جیسے تہائی مال سے زیادہ کی گئی وصیت کو نافذ کرنا ناجائز ہے)
[1] الھدایة (۴/ ۲۵۶)
[2]فتح البیان (۱/ ۳۶۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب