السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے قریب موت کے کہا کہ میرا کل مال متروکہ خیرات کردینا اب زید کا انتقال ہو گیا بعد تجہیز و تکفین زید جو کچھ از قسم غلہ و پارچہ تھا فقرا و مساکین کو تقسیم کردیے اب چند روپے زید کے باقی رہ گئے ہیں ان روپوں کو مدرسہ اور مسجد میں لگادوں۔یہ ازروئے شرع شریف جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خیرات خیر کی جمع ہے اور خیر کے معنی نیک اور اچھے کام کے ہیں تو اگر زید کی مراد خیرات کردینے سے اس کے مال کا اچھے کاموں میں خرچ کردینا ہے تو اس صورت میں اس کے مال کا دینی مدرسہ اور مسجد میں لگا دینا جائز ہے اور اگر زید کی مراد خیرات کردینے سے فقراء اور مساکین پر تقسیم کردینا ہے تو اس صورت میں مدرسہ اور مسجد میں اس کا مال لگادینا جائز نہیں ہے۔
﴿فَمَن بَدَّلَهُ بَعدَ ما سَمِعَهُ فَإِنَّما إِثمُهُ عَلَى الَّذينَ يُبَدِّلونَهُ ...﴿١٨١﴾... سورة البقرة
(پھر وہ شخص اسے بدل دے اس کے بعد کہ اس سن چکا ہو تو اس کا گناہ انھی لوگوں پر ہے جو اسے بدلیں)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب