سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(484) ملازم کو رشوت دینا

  • 23249
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 964

سوال

(484) ملازم کو رشوت دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مستغیث لوگ موافق دستور کے ایک روپیہ محررتھانہ کو دیا کرتے ہیں تحریر کے لقب سے یہ رشوت میں داخل ہے یا نہیں؟ اور یہ روپیہ لینا قانوناًجرم بھی ہے اگر باضابطہ شہادت گزرے تو سزا بھی ممکن ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قسم کی تحریر کا روپیہ لینا جائز نہیں ہے کیونکہ محرر تحریر ہی کے عوض میں تنخواہ لیتا ہے پھر تحریر کے لقب سے کچھ اور لینا ناجائز ہے ۔

"جاء في الحديث عَنْ أَبِى حُمَيْدٍ السَّاعِدِي رضي الله عنه قَالَ : اسْتَعْمَلَ النَّبِيّ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ : هَذَا لَكُمْ ، وَهَذَا أُهْدِىَ لِي ، قَالَ : (فَهَلاَّ جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ ، فَيَنْظُرَ يُهْدَى لَهُ أَمْ لاَ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلاَّ جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ - ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ ، حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبْطَيْهِ - اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلاَثًا) رواه البخاري (1429) ومسلم (1832) .[1](بخاري شریف باب ھدایا العمال (ص:1064مطبوعہ نظامی)

’’ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص کو جس کو ابن لتبیہ کہا کرتے ہیں، تحصیلدار کر کے بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہنے لگے کہ یہ مال حضور کا ہے اور یہ مجھ کو ہدیہ دیا گیا ہے، تو آپ نے منبر پر یہ فرمایا کہ کیا حال تحصیلداروں کا ہے کہ ہم ان کو تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں تو وہ آکر کہتے ہیں کہ یہ مال آپ کا ہے اور یہ میرا ہے؟ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھے، پھر دیکھتے کہ ان کو ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟‘‘ (آخر حدیث تک)


[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (2457)صحیح مسلم رقم الحدیث (1832)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الحظر والاباحة،صفحہ:727

محدث فتویٰ

تبصرے