سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(482) جانوروں کو خصی کرنا درست ہے یا نہیں؟

  • 23247
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1209

سوال

(482) جانوروں کو خصی کرنا درست ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ خصی کرنا جانوروں کا درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درست نہیں ہے۔

’’عن ابن عمر رضی اللہ عنہما  قال: نھٰی النبي صلی اللہ علیہ وسلم  عن إخصاء الخیل والبھائم، قال ابن عمر: فیھا نماء الخلق‘‘[1]رواہ أحمد کذا في المنتقی

[عبد  الله بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھوڑوں اور چارپایوں کو خصی کرنے سے منع فرمایا۔ عبد  الله بن عمر رضی اللہ عنہما  کا کہنا ہے کہ اس (خصی کرنے) میں خلق کی نشو و نما اور فروغ ہے۔ اس کو احمد نے روایت کیا ہے، جیسا کہ منتقی الاخبار میں ہے]

علامہ شوکانی رحمہ اللہ  ’’نیل الأوطار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’حدیث ابن عمر في إسنادہ عبد   الله بن نافع، وھو ضعیف، وأخرج البزار بإسناد صحیح من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما  أن النبي صلی اللہ علیه وسلم  نھیٰ عن صبر الروح وعن إخصاء البھائم نھیاً شدیدا، قوله: ’’عن إخصاء الخیل‘‘ الإخصاء سل الخصیة، قال في القاموس: وخصاہ خصیا: سل خصیته وفیه دلیل علی تحریم خصي الحیوانات، وقول ابن عمر رضی اللہ عنہما : فیھا نماء الخلق أي زیادتہ، أشار إلی أن الخصی مما تنموا به الحیوانات، ولکن لیس کل ما کان جالباً لنفع یکون حلالا، بل لا بد في عدم المانع، وإیلام الحیوان ھھنا مانع لأنه إیلام، لم یأذن به الشارع بل نھٰی عنه‘‘[2] انتھی

[عبد  الله بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی حدیث کی اسناد میں عبد  الله بن نافع راوی ضعیف ہے۔ امام بزار نے صحیح اسناد کے ساتھ عبد  الله بن عباس رضی اللہ عنہما  سے بیان کیا ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ذی روح چیز کو باندھنے (اور اسے قتل کرنے) اور جانوروں کو خصی کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ اخصا کا معنی خصیے کو نکالنا اور ایسے ہی فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے، اس میں حیوانات کو خصی کرنے کی حرمت کی دلیل ہے۔ عبد  الله بن عمر رضی اللہ عنہما  کا خصی کرنے کے بارے میں یہ کہنا کہ اس سے خلق کی نشو و نما ہوتی ہے، یعنی اس میں بڑھوتری ہوتی ہے، انھوں نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ خصی کرنا ایک ایسا عمل ہے، جس سے حیوانات میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ چیز، جو کسی نفع کو حاصل کرنے والی ہو، وہ حلال ہو، بلکہ یہاں عدمِ مانع کا ہونا ضروری ہے اور یہاں جانور کی اذیت مانع ہے،  کیونکہ  خصی کرنے میں جانور کو ایک ایسی تکلیف دینا ہے، جس کی شارع علیہ السلام  نے اجازت نہیں دی، بلکہ اس سے منع کر رکھا ہے]

آیت:﴿وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ بھی اس کی موید ہے، نیز وہ آثار جن کو مفسرین نے اس آیت کے تحت نقل کیا ہے۔ درایہ تخریج احادیثِ ہدایہ میں ہے:

’’وذکر ابن أبي شیبة عن ابن عباس قال: خصاء البھائم مثلة، ثم تلا:﴿وَلَآمُرُنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرَنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ وأخرجہ عبد الرزاق عن مجاھد نحوہ، وعن شھر بن حوشب قال: الخصاء مثلة‘‘[1]انتھی

[ابن ابی شیبہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: جانوروں کو خصی کرنا مثلہ ہے، پھر انھوں نے اس فرمانِ باری تعالیٰ کی تلاوت کی:﴿وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ عبد الرزاق نے مجاہد سے بھی اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ نیز شہر بن حوشب سے بھی یوں روایت کی ہے کہ خصی کرنا مثلہ ہے]

گو علماے حنفیہ و شافعیہ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، اگر یہ حدیث ان پر حجت ہے (تو) جو صاحب اس کے جواز کے (قائل) ہوں تو ان پر اس حدیث کا جواب معقول دینا واجب ہے۔ در صورت معقول جواب ہم بھی اپنے اس فتوے سے رجوع کر جائیں گے۔ (ہم کو) امرِ حق کے قبول کرنے میں کچھ عار نہ ہوگا۔ در صورت رجوع بھی اس قدر ہم ضرور کہیں گے کہ احتیاط قولِ حرمت میں ہے: ’’إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام‘‘ [جب حلال و حرام مجتمع ہوجائیں تو حرام ہونا غالب ہوتا ہے] اصول کا مسئلہ ہے۔


[1]                مسند أحمد (۲/ ۲۴) اس کی سند میں عبداﷲ بن نافع ضعیف ہے۔

[2]                نیل الأوطار (۸/ ۱۶۷)

[3]             الدرایة لابن حجر (۲/ ۲۳۰)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الحظر والاباحة،صفحہ:725

محدث فتویٰ

تبصرے