سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(460) تفریق جماعت اور دوسروں پر لعن طعن کرنے کی ممانعت

  • 23225
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1607

سوال

(460) تفریق جماعت اور دوسروں پر لعن طعن کرنے کی ممانعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔اس طرف کچھ ایسے لوگ ہیں کہ آپس میں جب لڑتے  ہیں،ایک د وسرے کو کافر مردود کہتے ہیں۔وقت دینے الزام کے کہتے ہیں کہ ہاں ہم ایسے ہیں،ایسا کر تے ہیں۔کیا مسلما نوں کو یہ الفاظ کہنا جائز ہے؟

2۔ہمارے یہاں ایک شخص آیا،کچھ مسائل میں گفتگو ہوئی۔ہماری طرف سے چند تحریر پیش ہوئی۔سب سوالات کا یہ جواب دیا کہ یہ سب غلط اور بے قاعدہ ہیں۔کہا گیا غلطی دور کرکے بعد اصلاح قاعدے سے جواب دیا جائے۔کچھ جواب نہ دیا،نماز کا وقت آیا۔ہم میں سب عمل بالحدیث والے تھے،اس نے نماز جدا پڑھی۔ہمارے علم میں اس دن کوئی کافر ومشرک نہ تھا۔کیا تفریق جماعت کاالزام اس کے ذمہ نہ ہوا؟

﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾کے خلاف نہ ہوا؟

3۔اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں جانتے۔اگر ان کی خدمت گزاری نقدا زائد کی جائے تو اگرچہ وہ برا ہو،اس کو اچھا کہتے ہیں۔اگر ان کو نہ دیا جائے یا کم دیا جائے تو اس کی مذمت کرتے ہیں۔ایسی حالت میں یہ لوگ فی الشرع مذموم ہیں یا موصوف؟موافق ادلہ شرعیہ جواب تحریر ہو۔

4۔ان میں بعض ایسے ہیں کہ امام حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کو برا کہتے ہیں۔اگر وہ برے تھے یا صلحائے سلف کا برا کہنا ثواب ہو،اطلاع دیجئے۔ہم لوگوں نے جو مسائل فقہ کے خلاف حدیث تھے،ترک کیے ،حدیث پر عمل کیا،ہم برا کہنا صلحائے سلف اور خلف سب کا مذموم اور معیوب فی الدین جانتے ہیں۔

5۔جو شخص کسی عالم متبع شریعت اور مروج سنن مصطفویہ کو بد دین کہے،وہ شخص کیسا ہے؟مدلل بآیات وحدیث جواب ارشاد ہو۔

6۔آیت﴿فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى﴾ کا شان نزول کیا ہے؟

7۔اگر کوئی شخص دراز اللحیہ جس کے بال پھٹ کر خراب ہوتے ہوں،کسی قدر کتر اڈالے تو عند الشرع جواز اس کا ہے یا وہ شخص ملامت کیا جائے؟بعد کترانے کے بھی ڈاڑھی ہنوز یکمشت سے زائد باقی ہے اور ہمیشہ کترانے کا عادی نہیں ہے،نہ اُس کے قصد کا عازم ہے؟

8۔ایک شخص کہتا ہے کہ مرتکبان کبیرہ جو بدون توبہ مرگئے ہیں،اُن پر عذاب ہونا ضرور ہے۔دوسرا کہتا ہے ،مرتکبان کبائر کے واسطے قرآن وحدیث میں وعید آئی ہے۔اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے چاہے عذاب کرلے،چاہے بدون عذاب محض بفضل وکرم اپنے   یا بذریعہ شفاعت شافعان بخش دے،اس میں کس کا قول حق اور صواب ہے؟کیا حدیث میں((ان شاء عذبه وان شاء غفرله))اور قرآن میں:

﴿فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ﴾نہیں آیا؟

یہ بات مجرمان کبائر کے واسطے ہونا ضروری ہے۔یہ عقیدہ اہل سنت کا ہے یا معتزلہ کا؟اور گناہ کبیرہ بھی(مَا دُونَ ذَلِكَ) کے تحت میں داخل ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1و5 مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کی شان میں اس طرح کے الفاظ"کافر"مردود وبددین" استعمال کرنا جائز  نہیں ہے۔جب کوئی شخص کسی کی شان میں اس طرح کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو جس کی شان میں استعمال کیا ہے،اگر وہ در حقیقت ایسا نہیں ہے  تو کہنے والے ہی پر وہ الفاظ لوٹ پڑتے ہیں۔لہذا مسلمانوں کو ایسے الفاظ کے استعمال سے احتراز لازم ہے۔کتاب"الترغیب والترہیب"(ص503) للحافظ المنذری  میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال : ((أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلا رَجَعَتْ عَلَيْهِ)) .[1](رواہ مالک والبخاری ومسلم وابوداود والترمذی)

’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"جب آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کو کہے"اے کافر! تو ان میں سے کوئی ایک ضرور(ایمان سے) کفر کی طرف لوٹا،اگر وہ جسے یہ کہا گیا ایسا ہے تو وہ کفر کی طرف لوٹا،ورنہ یہ حکم کہنے والے کی طرف لوٹ آتا ہے۔‘‘

وعن ابي ذر رضي الله عنه سنه سمع رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول:(( وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ ، أَوْ قَالَ : عَدُوَّ اللَّهِ ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ ، إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ)))[2](رواہ البخاري ومسلم فی حدیث حار بالحاء المھملۃ والراء ای رجع اھ)

’’سیدنا ابو ذر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس  شخص نے کس شخص کو کافر کہہ کر پکارا یا کہا:اللہ کے دشمن!جب کہ وہ ایسا نہ ہو تو وہ بات اس(کہنے والے) پر لوٹ آ تی ہے۔‘‘

2۔اس صورت میں ضرور  تفریق جماعت کا الزام اس شخص پر آیا اور بے شبہ(وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ) کا خلاف اس سے ہوا۔

3۔ایسی حالت میں یہ لوگ شرعاً مذموم ہیں،نہ کہ ممدوح ،جو لوگ دنیا کے بندے ہیں کہ جس سے ان کو دنیا ملے اس سے خوش رہیں اور جس سے نہ ملے ناخوش،ایسے لوگوں کے حق میں حضرت رسول خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سخت بد دعا فرمائی ہے۔کتاب"الترغیب والترھیب"(ص:248) للحافظ المنذری رحمۃ اللہ علیہ  میں ہے:

رواه أبو هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (( تعس عبد الدينار وعبد الدرهم وعبد الخميصة ))

وفي رواية عبد القطيفة.

(( إن أعطي رضي وإن لم يعط سخط تعس وانتكس وإذا شيك فلا انتفش طوبى لعبد أخذ بعنان فرسه في سبيل الله أشعث رأس مغبرة قدماه إن كان في الحراسة كان في الحراسة وإن كان في الساقة كان في الساقة إن استأذن لم يؤذن له وإن شفع لم يشفع ))[3]

’’سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے روایت کر تے ہیں ،دینار درہم اور پوشاک کا(پرستار) بندہ ہلاک ہوا،اگر اسے دیاجائے تو خوب اور اگر نہ دیاجائے تو ناراض ہوتا ہے۔وہ ہلاک ہوا اور ذلیل ہوا،جب اسے کانٹ چبھے تو نکالا جائے۔۔۔الحدیث

4۔صلحائے امت میں سے کسی لو،امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ہوں یا اور کوئی ،برا کہنا جائز نہیں ہے۔حدیث شریف میں عموماً اموات مسلمین صالحین کے برا کہنے سے نہیں آئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب الجنائز کے آخر میں حضرت  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم   نے  فرمایا:

" عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لا تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ , فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا " .[4]

’’فوت شدگان کو برا بھلا مت کہو،کیوں کہ وہ تو اپنے کیے کے پاس جا چکے ہیں‘‘

سورہ حشر میں اپنے اور ان کے لیے یوں دعا کرنے کا حکم کیا ہے:

﴿رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورة الحشر

’’اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے،اے ہمارے رب!یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا،نہایت رحم والا ہے‘‘

جو قول کسی کا خلاف کتاب وسنت ملے،اس کو  چھوڑ دینا اور مجتہدین دین کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے اور ان کا جو قول کتاب وسنت کے خلاف ملے،اس کو ان کی اجتہادی غلطی پر محمول کرنا چاہیے۔جس میں وہ معذور ہیں،بلکہ ماجور اور اپنا عمل کتاب وسنت کے مطابق رکھنا چاہیے۔سلف صالحین وائمہ دین کایہی طریقہ مرضیہ چلا آتا ہے۔

6۔آیت کریمہ:۔

﴿وَإِذا رَأَيتَ الَّذينَ يَخوضونَ فى ءايـٰتِنا فَأَعرِض عَنهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ وَإِمّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيطـٰنُ فَلا تَقعُد بَعدَ الذِّكرىٰ مَعَ القَومِ الظّـٰلِمينَ ﴿٦٨وَما عَلَى الَّذينَ يَتَّقونَ مِن حِسابِهِم مِن شَىءٍ وَلـٰكِن ذِكرىٰ لَعَلَّهُم يَتَّقونَ ﴿٦٩﴾... سورة الانعام

’’یعنی اور جب تو اُن لوگوں کو دیکھے،جو ہماری آیتوں میں خوض کرتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے،یعنی ان کے ساتھ نہ بیٹھ،یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں خوض کریں اور اگر شیطان تجھ کو(ان سے منہ پھیرنا)بھلادے تو یاد آجانے کے بعد ان کے ساتھ نہ بیٹھ اور جو لوگ کہ ہماری آیتوں میں خوض کرنے والوں ظالموں کے ساتھ بیٹھنے سے پرہیز کرتے ہیں،ان پر ان ظالموں کے محاسبہ میں سے کچھ نہیں ہے،لیکن ان پر ان ظالموں کو نصیحت کردینا ہے تاکہ وہ بچیں۔‘‘

مع آيت ما بعد میں اس بات کا بیان ہے کہ جو لوگ اپنی مجلسوں میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   یا قرآن شریف کی ہجو اور بُرائی بیان کریں یا احکام شریعت کے ساتھ ٹھٹھا کریں اور معصیت کے کام میں مشغول ہوں،اس وقت مسلمانوں کو ان کی مجلسوں میں بیٹھنا منع ہے اور اگر ایسے وقت میں بھی ان کے پاس بیٹھے رہ جائیں گے اور نہ اُٹھیں گے تو انھیں کے مثل ہوجائیں گے اور وہی مواخذہ ومحاسبہ اللہ کا جواُن سے ہوگا،ان سے بھی ہوگا اور اگر بھول کر بیٹھے رہ جائیں تو ان کو جس وقت یہ حکم یاد آجائے،اسی وقت وہاں سے اٹھ کھڑے ہوں اور ذرا بھی اس  میں دیر نہ کریں۔

ہاں جولوگ نصیحت کرنے کے لیے بیٹھے رہ جائیں،اس امید پر کہ شاید ان کی نصیحت سے ان کو کچھ فائدہ ہوجائے اور نصیحت سن کر گناہ سے باز آجائیں تو ان کو اجازت ہے۔کفار مکہ اس قسم کی ناشائستہ حرکات اپنی مجلسوں  میں کرکے اپنا منہ کالا کیا کرتے،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان آیات میں مذکورہ بالا ہدایتیں فرمائیں۔یہی ان آیات کا شان نزول ہے،لیکن حکم ان آیات کا ہر ملک اور ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔

8۔جو شخص کہتا ہے کہ مرتکبان کبیرہ جو بدون توبہ مرگئے ہیں، ان پر عذاب ہونا ضرور ہے،اس کا قول باطل و غلط اور عقیدہ معتزلہ وخوارج کے موافق ہے اور جو شخص کہتاہے کہ وہ لوگ اللہ کی مشیت میں ہیں،چاہے ان کو عذاب کرے اور چاہے بدون عذاب بفضل وکرم اپنے یا بذریعہ شفاعت شافعان انھیں بخش دے،اس کا قول حق وصواب اور عقیدہ اہل سنت وجماعت کے موافق ہے اور(مَا دُونَ ذَلِكَ) کے تحت میں سوائے شرک کے سب گناہ داخل ہیں،کبیرہ ہوں یا صغیرہ۔شرح مواقف(ص:790 مطبوعہ نولکشور) میں ہے:

"او جب  جميع المعتزله والخوارج عقاب صاحب الكبيرة اذا مات بلا توبة ولم يجوزواان يعفوالله عنه "انتهي

’’کبیرہ گناہ کامرتکب جب بغیر توبہ کے فوت ہوگیا تو تمام معتزلہ اور خوارج نے اس پر عذاب کا ہونالازم کیا ہے اور انھوں نے اس بات کو درست قرار نہیں دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے‘‘

نیز اسی صفحہ میں ہے:

"قالت المعتزله والخوارج :صاحب الكبيرة اذا لم يتب عنها فخلد في النار ولا يخرج عنها ابدا"انتهي

’’معتزلہ اور خوارج نے کہا ہے کہ مرتکب کبیرہ نے جب اس سے توبہ نہ کی تو وہ ہمیشہ آگ میں رہے گا،اس سے کبھی نہیں نکلے گا‘‘

صفحہ(713) میں ہے:

"الثاني:الآيات الدالة عليه اي العفو عن الكبيرة قبل التوبة نهو قوله تعاليٰ (وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ) (النساء:١٤٨)فان ما عدا الشرك داخل فيه ولا يمكن التقيد بالتوبة لان الكفر مغفور معها فيلزم تساوي ما نفي عنه الغفران وما ثبت له وذلك مما لا يليق بكلام عاقل فضلا عن كلام الله وقوله:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا﴾(الزمر:٥٣)

فانه للكل فلا يخرج عنه الا مااجمع عليه وقوله:

﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ﴾والتقرير ما زكرنا آنفا الي غير ذلك من الآيات الكثيرة"انتهي

’’دوسری وجہ وہ آیات ہیں جو اس پر،یعنی توبہ سے پہلے کبیرہ گناہ کی معافی پر دلالت کرتی ہیں،جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:۔

﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾

’’اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ  ہے،جسے چاہے گا‘‘

یقیناً شرک کے سوا ہر گناہ اس میں داخل ہے اور اس کو توبہ کے ساتھ مقید کرنا ممکن نہیں ہے،کیوں کہ توبہ کے ساتھ کفر سے معافی مل جاتی ہے تو اس سے اس کی اس گناہ کے ساتھ برابری لازم آتی ہے،جس سے معافی کی نفی کی گئی ہے اور جس کے لیے معافی ثابت ہے اور یہ کسی عاقل کے کلام میں لائق نہیں ہے،چہ جائے کہ یہ کلام اللہ میں ہو۔نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا﴾

’’بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘

بلاشبہ یہ غفران ومعافی تمام گناہوں کے لیے ہے ،سوائے اس کے جس پر اجماع ہو۔اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد ہے:

﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَذو مَغفِرَةٍ لِلنّاسِ عَلىٰ ظُلمِهِم ...﴿٦﴾... سورة الرعد

’’اور بے شک تیرا رب یقیناً لوگوں کے لیے ان کے ظلم کے باوجود بڑی بخشش والا ہے"ابھی جو ہم نے بات ثابت کی ہے،اس پر بہت سی آیات ہیں‘‘

شرح فقہ اکبر(ص:86) میں ہے:

"المعصية تحت المشئة عند اهل السنة والجماعة لقوله تعاليٰ:((إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء))اي من غير توبة والافهو سبحانه:

((يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ))(التوبہ:104)ويغفر بها الشرك وغيره بمقتضي وعده واخباره خلافا للمعتزلة حيث يقولون:يجب علي الله تعاليٰ عقاب العاصي...الخ

’’اہل سنت وجماعت کے نزدیک معصیت مشیت کے تحت ہے،کیوں کہ  فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء﴾

’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے جسے چاہے گا۔‘‘

یعنی بغیر توبہ کے ورنہ تو اللہ تعالیٰ:

﴿هُوَ يَقبَلُ التَّوبَةَ عَن عِبادِهِ ...﴿١٠٤﴾... سورة التوبة

’’اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا  ہے‘‘اور وہ اپنے حسب وعدہ وخبر توبہ کے ساتھ شرک وغیرہ کو معاف کرتا ہے،برخلاف معتزلہ کے ،وہ کہتے ہیں:

’’عاصی کو عذاب دینا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے۔۔۔الخ‘‘

نیز صفحہ(181) میں ہے:

"وعند الخوارج من عصي صغيرة او كبيرة فهو كافر مخلد في النار اذا مات من غير توبة وعند المعتزلة تفصيل في المسئلة فان كانت كبيرة يخرج من الايمان ولا يدخل في الكفر الا انه مخلد في النار وان كانت صغيرة واجتنب الكبائر لا يجوز التعذيب عليها وان ارتكب الكبائر لا يجوز العفو عنها ورد عليهم باجمعهم قوله سبحانه : ((وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء))

’’خوارج کے نزدیک صغیرہ وکبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے اور اگر وہ بغیر توبہ کیے مرگیا تو وہ ہمیشہ آگ میں رہےگا۔معتزلہ کے نزدیک اس مسئلے میں تفصیل ہے:اگر تو اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا تو وہ ایمان سے خارج ہوجائےگا اور وہ کفر میں داخل نہیں ہوگا،ہاں!وہ آگ میں ہمیشہ رہے گا۔اگر اس کا گناہ صغیرہ ہو اور وہ کبیرہ سے اجتناب کرے تو اسے عذاب کرنا جائز نہیں ہے اوراگر وہ کبائر کا مرتکب ہوتو اسے معاف کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘

فرمان باری تعالیٰ:

﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء﴾

’’اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے۔جسے چاہے گا‘‘

ان تمام باتوں کاردکرتا ہے۔

"غنیة الطالبین"(ص:156 چھاپہ لاہور) میں ہے:

"ونعتقد ان المومن وان اذنب ذنوبا كثيرة من الكبائر والصغائر لا يكفر بها وان خرج من الدنيا بغير توبة اذا مات علي التوحيد والاخلاص بل يرد امره الي الله عزوجل ان شاء عفا عنه وادخله الجنة وان شاء عذبه وادخله النار"

"ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ مومن کو،اگرچہ وہ بہت سے صغیرہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوچکا ہو،ان کی وجہ سے کافر نہیں قرار دیا جائے گا،اگرچہ وہ بغیر توبہ کے دنیا سے رخصت ہوا ہو،بشرط یہ کہ اس کی موت  توحید اور اخلاص پر واقع ہوئی ہو،بلکہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا جائے گا۔چاہے تو اسے معاف کرکے جنت میں داخل کرے اور چاہے تو اسے عذاب دینے کے لیے آگ میں داخل کرے"


[1] ۔صحیح البخاري  رقم الحدیث(5753) صحیح مسلم رقم الحدیث(60) ح

[2] ۔صحیح البخاري  رقم الحدیث(6044) صحیح مسلم  رقم الحدیث(61)

[3] ۔صحیح البخاري ر قم الحدیث(2730)

[4] ۔صحیح البخاري  رقم الحدیث(1329)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الادب،صفحہ:704

محدث فتویٰ

تبصرے