سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(446) کیا شراب اور تاڑی کا سرکہ اور حرام پیسا تبدیل کرنے کے بعد حلال ہے؟

  • 23211
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1032

سوال

(446) کیا شراب اور تاڑی کا سرکہ اور حرام پیسا تبدیل کرنے کے بعد حلال ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔اگر شراب یا تاڑی کا  سرکہ بنایا جائے تو وہ حلال ہے یا حرام اور اگرحلال ہے تو کس طرح پر بنایا جائے؟

2۔اگر روپیہ رشوت کا ملے اور وہ روپیہ دے کر اس کا  پیسہ بدلالیاجائے تو وہ رشوت یا نہیں؟پیسہ بدلا لینے سے اس کی شکل تبدیل ہوجاتی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔اگرشراب یاتاڑی خود بخود سرکہ بن جائیں تو اس سرکہ کا کھانا حلال ہے،لیکن تاڑی یا شراب کاسرکہ بنانا جائز نہیں ہے۔صحیح مسلم(163/2) میں ہے:

"عن انس رضي الله عنه  ان النبي صلي الله عليه وسلم سئل عن الخمر تتخذ خلا؟فقال:((لا))[1]

"یعنی انس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے ر وایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے شراب کے بارے میں  پوچھا گیا کہ اس کا سرکہ بنایا جائے؟فرمایا کہ نہیں۔‘‘

2۔حرام چیز ،روپیہ ہو یاکوئی دوسری چیز ہو،تبدیل سے حلال نہیں ہوجاتی ہے،یعنی جیسے اصل چیز حرام تھی،ویسے ہی اس کا بدل بھی حرام ہے ،دونوں میں کوئی فرق نہیں۔صحیح بخاری مع فتح البخاری(396/2) اور صحیح مسلم(23/2) میں ہے:

"قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ فَبَاعُوهَا ، وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا".[2]

’’یعنی اللہ لعنت کرے یہودیوں پراللہ نے ان پر  چربی حرام کردی تھی،انھوں نے اس کو بیچ کراس کادام کھایا۔‘‘

اس سے معلوم ہواکہ جب کوئی چیز حرام ہوتی ہے تو اس کا بدل بھی حرام ہوجاتا ہے۔سنن ابی داود کی حدیث سے  یہ امر اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔سنن ابی داود(2/137) میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حدیث مذکورہ کے بعد یہ فرمایا:

"إن الله إذا حرم على قوم أكل شيء حرم عليهم ثمنه"[3]

’’یعنی اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کردیتا ہے تو ان پراس کا  ثمن،یعنی بدل بھی حرام کردیتاہے۔‘‘


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1983)

[2] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(2111) صحیح مسلم رقم الحدیث(1583)

[3] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(3488)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الاطعمة،صفحہ:682

محدث فتویٰ

تبصرے