1۔ موجودہ دور کے فرقوں شیعہ (خمینی کے نظریات کے حامل) بریلوی (احمد رضا خان بریلوی کے نظریات کے حامل) دیوبندی (محمد قاسم نانوتوی ، اشرف علی تھانوی ، زکریا کاندھلوی، تبلیغی نصاب کے مصنف کے نظریات کے حامل) اہل حدیث (میاں نذیر احمد دہلوی، عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ کے نظریات کے حامل) مرزائی (مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریات کے حامل) کو آپ کا فرو مشرک مانتے ہیں یا مسلم؟
2۔ ایک ہندو کو مسلمان کرتے وقت عہد لیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی پوجا کے لائق نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب اگر وہ ہندو زبانی عبادت اس طرح شروع کردے کہ یاکرشن مدد کر ، یا علی مدد فرماؤ۔
تو وہ ان ہستیوں کو الٰہ مان کر ان کی عبادت کرتا ہے ۔ اس طرح پھر وہ اپنے مذہب کی طرف عہد توڑ کر لوٹ جاتا ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج ہوکر کافر و مشرک بن جاتا ہے ۔ کیا موجودہ فرقے شیعہ ،بریلوی اور دوسرے ان کو مسلمان ماننے والے کافر ومشرک نہیں ہوتے؟
3۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ان فرقوں میں صحیح العقیدہ لوگ بھی ہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں۔ تو بتائیں کہ شیعہ میں کون سا گروہ یا عالم ایسا گزرا ہے جو صحیح العقیدہ تھا یا موجودہ دور میں موجود ہے۔ اسی طرح بریلوی دیو بندی اور اہل حدیث کے صرف ایک ایک گروہ یا عالم کا نام لکھ دیں؟
4۔ بقول آپ کے درود نبی ﷺ کے حضور پیش ہوتا ہے ، درود ایک عبادت ہے ۔ دعائیہ عمل ہے، سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ درود پڑھتے وقت بھی ہم دعا اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! محمدﷺ پر رحمتیں نازل فرما۔ تو فرشتے ہماری اس دعا کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے رسول ﷺکے حضور کیوں پیش کرتے ہیں؟ کیا وہ (فرشتے) عربی سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال نبیﷺ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ نبی ﷺ کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؟
5۔ فتاویٰ نذیریہ صفحہ نمبر: ۶۰۷ ، حصہ اول ، مطبوعہ اہل حدیث اکادمی ، لاہور۔ میں میاں نذیر دہلوی لکھتے ہیں کہ نبیa نے فرمایا کہ : ’’ قبر پر پڑھا جانے والا دُرود میں خود سنتا ہوں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ، پ:۲۲ ، سورۂ أحزاب)
[ ’’ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں۔ محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے۔ ‘‘] اس حدیث کو وہ صحیح مان کر کہتے ہیں کہ نبیﷺ قبر پر پڑھا جانے والا درود سنتے ہیں اس طرح سماع موتی کا عقیدہ رکھنے والے کے متعلق آپ کا کیا خیا ل ہے اسے رحمۃ اللہ علیہ کہیں گے یا نہیں؟ اسی طرح وحید الزمان صاحب (اہل حدیث کے پیشوا حافظ ابن قیم نے صراحتاً سماع موتی کو ثابت کیا ہے اور بے شمار حدیثوں سے، جن کو امام سیوطی نے شرح الصدور میں ذکر کیا ہے ، مردوں کا سماع ثابت ہوتا ہے اور سلف کا اس پر اجماع ہے۔ صرف عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا انکار منقول ہے اور ان کا قول شاذ ہے۔ جیسے معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول کہ معراج ایک خواب تھا۔) ایسے سماع موتیٰ کے اقراری علماء کے بارے میں بتائیں کہ کیا آپ ان کے نظریات سے متفق ہیں یا انہیں قرآن و حدیث کا انکار کرنے والے مانتے ہیں؟
القرآن:…
’’ آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ ‘‘ [النحل:۸۰]
’’اللہ جسے چاہتا ہے ، سنواتا ہے، مگر (اے نبی!) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔ ‘‘ [فاطر: ۲۲]
’’ یعنی اس شخص سے زیادہ گمراہ اور کون ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے۔ حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔‘‘ [الاحقاف:۶ ، ۵]سماع موتیٰ کا عقیدہ رکھنے سے درج بالا قرآنی آیات کا انکار ہوجائے گا۔
6۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ: تم دونوں مجھے رات بھر گھماتے پھراتے رہے… میں جبریل ہوں اور یہ میرے ساتھی میکائیل ہیں۔ ذرا اپنا سر اوپر تو اٹھائیے۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر بادل سا دیکھا۔ ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ کا مقام ہے۔ میں نے (نبیﷺ) نے کہا مجھے چھوڑ دو۔ میں اپنے گھر میں داخل ہوجاؤں۔ ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے، جس کو آپ نے پورا نہیں کیا ہے۔ اگر آپﷺ اس کو پورا کرلیں تو اپنے اس گھر میں آجائیں۔ صحیح بخاری جلد اول ، صفحہ نمبر: ۱۸۵ مطبوعۃ دہلی بقول آپ کے نبیa مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں، لیکن بخاری صفحہ نمبر: ۶۴۰ ، ۵۱۷ میں درج ہے کہ نبی کی وفات کے موقع پر عمر bکھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! نبی کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میرے ذہن میں یہی بات آئی اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور زندہ کرے گا… پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے… اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اللہ آپ کو دو موتوں کا مزہ نہ چکھائے گا۔، پھر وہ باہر نکل گئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے قسم کھانے والے! اتنی تیزی نہ کر… حمد و ثناء کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سن رکھو تم میں سے جو محمدﷺ کی بندگی کرتا تھا، اسے معلوم ہو کہ محمدﷺ وفات پاگئے ہیں… اس کے بعد سورۂ آل عمران آیت:۱۴۴ تلاوت فرمائی… عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! جس دم میں نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا تو گھٹنوں کے بل گر پڑا اور ایسا بے دم ہوا کہ میرے پاؤں مجھے سہارا نہ دے سکے ، یہاں تک کہ میں زمین کی طرف جھک گیا۔ جس وقت مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اللہ کے نبیa وفات پاگئے ہیں۔ ترجمہ عبارت صفحہ:۵۱۷ ، جلد اول، صفحہ ۶۴۰ ، جلد دوم، صحیح بخاری مطبوعہ دہلی۔ درج بالا دونوں حدیثوں کے مطابق آپ کا قول نہیں ہے ، وضاحت کریں؟
القرآن:… ’’ آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ ‘‘ [الزمر:۳۰]
جب سارے صحابہ کا اجماع ہوگیا کہ نبیﷺ کو موت آچکی ہے اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ بھی نہیں کیے جائیں گے۔تو آپ نبیﷺ کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر قرآن و حدیث کا کفر کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ صحابہرضی اللہ عنہم پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے رسول کو زندہ درگور کیا؟
7۔ قرآن میں دو زندگیوں اور دو موتوں کا ذکر ہے ، پورے قرآن میں مرنے والے کو مردہ اور جان کی رمق نہ رکھنے والا قرار دیا گیا ہے آپ کے پاس تیسری زندگی کا کیا ثبوت ہے؟ [النحل:۲۱]
8۔ صحیح مسلم ، جلد دوم ، صفحہ نمبر: ۳۶ ۔۱۳۵ ، مطبوعہ دہلی کی حدیث کے مطابق شہداء کی روحوں کو قبض ہونے کے بعد شہداء کی فرمائش کے باوجود دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔ اسی طرح قرآن میں بھی موت کے بعد روح لوٹائے جانے کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن ہر انسان کو مردہ ہونے کے بعد بے شعور ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ آپ کے پاس روح لوٹائے جانے کی کوئی دلیل ہے ۔ اسے بحوالہ پیش کریں؟
9۔ کسی تعویذ پہننے والے سے پوچھیں کہ اسے آپ نے کیوں پہنا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف دور ہوگی، اس کا پورا ایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ تعویذ غائبانہ طور پر میری مدد کرے گا۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی رہنمائی کرتا ہے کہ: ’’ جس نے تعویذ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔‘‘ (مسند احمد ، ص:۱۵۶ ، جلد چہارم)اس میں نبیﷺ نے قرآنی تعویذ یا غیر قرآنی تعویذ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی پوری زندگی آپﷺ نے کوئی تعویذ بتایا۔ آپ اس کو شرک کہتے ہیں یا بدعت؟
10۔ ’’ اے نبی! اعلان فرمادیجیے کہ اگر میں نے تم لوگوں سے اسی دین پر معاوضہ مانگا تو وہ تمہارا ہی رہا میرا صلہ اور مزدوری تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ ‘‘ [سورۂ سبا آیت نمبر: ۴۷] آپ کی جماعت بھی دینی اُمور پر اجرت لیتی ہے۔ آپ اس قرآنی آیت کو کس طرح بیان اور عمل کب کریں گے؟
-------------------------------------------------------
1۔غلام احمد قادیانی اور اس کو نبی یا مجدد ماننے والے کافر ہیں۔ باقی جن گروہوں کا آپ نے تذکرہ فرمایا ان میں سے جن افراد میں کفرو شرک پایا جاتا ہے وہ کافر و مشرک ہیں اور جن افراد میں اسلام و توحید پائے جاتے ہیں وہ مسلم و موحد۔ آپ نے سوال میں جماعت المسلمین رجسٹرڈ کراچی والی کا ذکر نہیں فرمایا۔ جس کے امیر و بانی سید مسعود بی ایس سی رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔ آخر کیاوجہ ہے؟
2۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو الٰہ مان کر اس کی عبادت و پوجا کرنے والا کافر و مشرک ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث و اہل سنت کہلائے، خواہ دیوبندی ، خواہ بریلوی، خواہ شیعہ، خواہ جماعت المسلمین، خواہ تنظیم المسلمین خواہ کچھ اور۔
3۔ امام مسلم ہو، کافر یا مشرک نہ ہو تو اس کی اقتداء میں نماز درست ہے، خواہ وہ دیو بندی ہو ، خواہ بریلوی ، خواہ شیعہ خواہ کوئی اور۔ امام مسلم نہ ہو، کافر یا مشرک ہو تو اس کی اقتداء میں نماز درست نہیں۔ خواہ وہ اہل حدیث ہو، جماعت المسلمین ہو، خواہ کوئی اور۔ باقی رہی یہ بات کونسا امام مسلم ہے کافر یا مشرک نہیں اور کونسا امام کافر یا مشرک ہے مسلم نہیں یہ میرا کام نہیں یہ کسی کی اقتداء میں نماز پڑھنے والے کا کام ہے۔
4۔آپ لکھتے ہیں: ’’ بقول آپ کے درود نبیﷺ کے حضور پیش ہوتا ہے۔‘‘ تو محترم آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا درود رسول کریم ﷺ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان سناتے ہیں۔ چنانچہ ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَومُ الجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِیْہِ قُبِضَ ، وَفِیْہِ النَّفْخَۃُ ، وَفِیْہِ الصَّعْقَۃُ ، فَأَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلاَۃِ فِیْہِ فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ۔ قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ: یَقُولُوْنَ: بَلِیْتَ۔ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَآئِ »(ابن ماجۃ ؍ کتاب الجنائز ؍ باب ذکر وفاتہ ودفنہ ﷺ ، ابو داوٗد ، المجلد الأول ؍ کتاب الصلوٰۃ ؍ باب تفریع أبواب الجمعۃ ، نسائی ؍ کتاب الجمعۃ ؍ باب إکثار الصلاۃ علی النبی یوم الجمعۃ)
[’’اوس بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تمہارے افضل دنوں میں سے جمعہ کا دن بھی ہے، اسی میں آدم کو پیدا کیا گیا اور اسی میں وہ فوت ہوئے اسی میں صور کی آواز اور بیہوش کن آواز ہوگی۔ پس تم اس دن میں مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔ ‘‘ اوسرضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے سوال کیا ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا؟ حالانکہ آپﷺ بوسیدہ ہوچکے ہوں گے۔ اوس نے کہا:اَرِمْتَکا معنی بَلِیتَ ہے تو رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام حرام کردیئے ہیں۔‘‘] شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو صحیح نسائی میں درج فرمایا ہے۔ دیکھیں : ’’ صحیح نسائی ، کتاب الجمعۃ، باب اکثار الصلاۃ علی النبیﷺ یوم الجمعۃ ، حدیث نمبر: ۱۳۰۱ ‘‘ پھر اُمتیوں کے دُرود و سلام کے رسولِ کریم ﷺ پر پیش کیے جانے کا مطلب و مفہوم دوسری احادیث میں مذکور ہے۔ چنانچہ نسائی اور دارمی میں ہے:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: «إِنَّ لِلّٰہِ مَلاَئِکَۃً سَیَّا حِیْنَ فِی الْأَرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ مِنْ أُمَّتِیَ السَّلاَمَ »[’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ کے فرشتے زمین میں چلتے ہیں مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘ ]
اس حدیث کو بھی شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح نسائی میں درج فرمایا ہے۔ دیکھیں: ’’ صحیح نسائی ؍ باب السلام علی النبیA ، حدیث نمبر: ۱۲۱۵‘‘
نیز ابو داؤد و اواخرحج میں ہے:
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ یَقُوْلُ: «لاَ تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا ، وَلاَ تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا ، وَصَلُّوْا عَلَیَّ فإِنَّ صَلاَتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ»[’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ اور میری قبر کو میلہ مت بناؤ۔ اور مجھ پر درود پڑھو، کیونکہ تم جہاں بھی ہوگے تمہارا درود مجھے پہنچے گا۔‘‘ ]حدیث نمبر: ۲۰۴۲
تو دُرود و سلام کے رسول اللہ ﷺ پر پیش ہونے کی رسول اللہ ﷺ نے خود ہی تشریح فرمادی کہ دُرود و سلام رسول اللہ a کو پہنچ جاتا ہے۔ دُرود و سلام بھیجنے والا امتی خواہ کہیں بھی ہو۔
میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
آپ کے مکتوب میں جہاں کہیں نبی کریم ﷺ کانامِ نامی اور اسمِ گرامی کسی بھی صورت میں ذکر ہوا تو آپ نے (ــؐـ) لکھا ہے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا۔ اس لیے اس فقیر إلی اللہ الغنی آپ کی عبارت نقل کرتے وقت آپ کا لکھا ہوا (ــؐـ) ہی نقل کردیا ہے۔ ورنہ میں آپ ﷺ کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا قائل و فاعل ہوں۔ امید ہے آپ محسوس نہیں فرمائیں گے۔
پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں۔
پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر: ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟
5۔ سماع موتی و احیاء کے متعلق میرا عقیدہ وہی ہے جو قرآنِ مجید اور رسول اللہ ﷺ کی صحیح صحیح احادیث نے پیش فرمایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’ ایسے سماع موتی کے اقراری علماء کے بارے میں بتائیں کہ کیا آپ ان کے نظریات سے متفق ہیں یاانہیں قرآن و حدیث کا انکار کرنے والے مانتے ہیں۔‘‘
جواباً گزارش ہے صحیح بخاری ؍ کتاب الجنائز بَابُ الْمَیِّتِ یَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: «الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَتَوَلّٰی وَذَھَبَ أَصْحَابُہٗ حَتّٰی إِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ أَتَاہُ مَلَکَانِ ، فَأَقْعَدَاہُ»[ ’’ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مردہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فراغت کے بعد واپس ہوتے ہیں، تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ، اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔‘‘ ](الحدیث، جلد اول ،ص:۱۷۸)صحیح بخاری ؍ کتاب المغازی ؍ باب قتل ابی جہل میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
فَقَالَ عُمَرُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لاَ أَرْوَاحَ لَھَا؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: «وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُوْلُ مِنْھُمْ»[ ’’ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ایسی لاشوں سے گفتگو کرتے ہیں جن میں روح نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد(ﷺ) کی جان ہے۔ میں جو باتیں کر رہاہوں تم ان کو مردوں سے زیادہ نہیں سنتے۔‘‘ ] (جلد دوم ، ص:۵۶۶ )اور صفحہ :۵۶۷ پر ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: وَقَفَ النَّبِیُّ ﷺ عَلٰی قَلِیْبِ بَدْرٍ فَقَالَ: «ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا۔ ثُمَّ قَالَ: إِنَّھُمُ الْآنَ یَسْمَعُوْنَ مَا أَقُوْلُ لَھُمْ۔ فَذُکِرَ لِعَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ: إِنَّمَا قَالَ النَّبِیُّ ﷺ: إِنَّھُمُ الْآنَ لَیَعْلَمُوْنَ أَنَّ الَّذِیْ کُنْتُ أَقُولُ لَھُمْ ھُوَ الْحَقُّ۔ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ المَوْتٰی حَتّٰی قَرَأَتِ الْآیَۃَ»[ ’’ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبیﷺ بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہارے مالک نے جو تم سے وعدہ کیا تھا کیا وہ تم نے پالیا۔ پھر فرمایا: جواب میں کہہ رہا ہوں وہ سن رہے ہیں۔ یہ بات عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کی گئی تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ |ﷺ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اس وقت وہ جانتے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ ٹھیک تھا۔ پھر یہ آیت پڑھی : بے شک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘ ]
اب آپ ہی بتائیں کہ: ’’ ایسے سماع موتی کے اقراری نبی کریم ﷺ کے بارے میں بتائیں کہ کیا آپ ان کے نظریات سے متفق ہیں یا انہیں قرآن و حدیث کا انکار کرنے والے مانتے ہیں؟ ‘‘ یہ سارے لفظ آپ کے ہیں، صرف علماء کی جگہ پر نبی کریمﷺ کا ذکر کیا ہے ، کیونکہ آپ ﷺ کی مندرجہ بالا صحیح بخاری والی دونوں حدیثوں کا تقاضا یہی ہے۔ جواب ذرا سوچ سمجھ کر ارشاد فرمانا۔
رہا ام المؤمنین عائشہ صدیقہ |رضی اللہ عنہا کا بیان:
إِنَّھُمُ الْآنَ لَیَعْلَمُوْنَ أَنَّ الَّذِیْ کُنْتُ أَقُولُ لَھُمْ ھُوَ الْحَقُّ۔ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ المَوْتٰی حَتّٰی قَرَأَتِ الْآیَۃَتو اسل سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
"ولم ینفرد عمر ولا ابنه بحکایۃ ذلك ، بل وافقهما أبو طلحۃ کما تقدم ، وللطبرانی من حدیث ابن مسعود مثله بإسناد صحیح ، ومن حدیث عبد الله نحوه، وفیه: قالوا: یا رسول اللّٰہ وهل یسمعون؟ قال: یسمعون کما تسمعون ، ولکن لا یجیبون۔ وفی حدیث ابن مسعود: ولکنهم الیوم لا یجیبون۔ ومن الغریب أن فی المغازی لابن اسحاق روایۃ یونس بن بکیر بإسناد جید عن عائشۃ مثل حدیث أبی طلحۃ ، وفیہ: ما أنتم بأسمع لما أقول منھم۔ وأخرجہ أحمد بإسناد حسن فإن کان محفوظا فکأنھا رجعت عن الإنکار لما ثبت عندھا من روایۃ ھؤُلاء الصحابۃ لکونھا لم تشہد القصہ۔ ۱ھ "(۷ ؍ ۳۰۳ ــ ۳۰۴)
پھر حدیث میں رسول اللہ a نے یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کو سنا تا ہوں یا سنا رہا ہوں بلکہ یہ فرمایا: " إِنَّھُمُ الْآنَ یَسْمَعُوْنَ مَا أَقُوْلُ لَھُمْ "کہ وہ اب سن رہے ہیں جو میں ان سے کہہ رہا ہوں۔ اور واضح ہے انہوں نے یہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے ہی سنا اور قرآنِ مجید میں ہے:
[ ’’ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنادیتا ہے۔‘‘ ]اللہ جن کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے تو قلیب بدر والوں کا رسول اللہ a کی بات کو سن لینا۔ آیت: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی…الخ﴾کے منافی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے تھا۔
پھر ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی مسند امام احمد وغیرہ کی روایت کے مطابق قلیب بدر والوں کے رسول اللہ ﷺ کی بات کو سننے کو تسلیم فرمارہی ہیں اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ان کے علم اور جاننے کو تسلیم فرمارہی ہیں اور معلوم ہے کہ علم و جاننا بھی حیا ت و زندگی کے بغیر تو نہیں ہوسکتا۔
آپ لکھتے ہیں: ’’ آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘ (النحل:۸۰)پوری آیت اس طرح
[’’ بے شک آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں ، جبکہ وہ پیٹھ پھیرے جارہے ہوں۔ ‘‘ ]آیت کریمہ کے آخری لفظ دلالت کر رہے ہیں کہ موتی سے جو مردے آپ سمجھ رہے ہیں، اس مقام پر وہ مردے مراد نہیں، کیونکہ ان میں تو ﴿إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ والا وصف موجود ہی نہیں ہوتا۔ پھر دوسری آیت کریمہ میں وضاحت موجود ہے۔
تو سورۂ نمل اور سورۂ فاطر والی آیات میں رسول اللہ ﷺ کے اسماع کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماع کی نفی نہیں۔ جبکہ سورۂ فاطر والی آیت میں اللہ تعالیٰ کے اسماع کا اثبات بھی موجود ہے۔
رہی سورۂ احقاف والی آیت تو اس میں موتی یا میت یا ان کے ہم معنی کوئی لفظ صرف یہ آیا ہے:
[’’ جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں ، بلکہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہوں۔‘‘ ]اور یہ لفظ زندہ اور مردہ دونوں کو شامل ہیں، اگر اس سے عدم سماع موتی اخذ کیا جائے تو اس سے عدم سماع احیاء بھی اخذ ہوگا۔ کیونکہ﴿ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ ﴾الخ ۔دونوں کو متناول ہے۔
پھر آپ نے ترجمہ میں لکھا ہے: ’’ اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ حالانکہ استجاب یستجیب قبول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[ ’’ اور تمہارے رب کافرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔‘‘ ]
نیز فرمانِ رسولﷺ ہے: یُسْتَجَابُ لِأَحَدِکُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ (صحیح ابو داؤد : ۲۳۳۴ ، ترمذی ؍ الدعوات ؍ باب ماجاء فیمن یستعجل فی دعائہ)
[ ’’ تمہارے ایک کی دعا قبو ل ہوتی ہے ، جب تک وہ جلدی نہ کرے۔‘‘]
پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[’’ اپنےرب کا حکم قبول کرو ، اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے ، جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے۔‘‘ ]
نیز فرمان ہے:
[’’ میں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں، لوگوں کو چاہیے میری بات مان لیں اور مجھ پر ایمان رکھیں ، تاکہ وہ بھلائی پائیں۔‘‘ ]
آپ نے لکھا ہے: ’’ سماع موتی کا عقیدہ رکھنے سے درج بالا قرآنی آیات کا انکار ہوجائے گا۔‘‘ تو محترم ٹھنڈے دل سے درج بالا قرآنی آیات کریمہ کو ایک دفعہ پھر غور سے پڑھیں ، ان کے کسی ایک لفظ میں بھی سماع موتی کی نفی نہیں۔ صرف اتنی بات ہے: ﴿إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰ﴾اور ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے اسماع موتی (مردوں کو سنانے ) کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ درج بالا آیات سے ایک آیت کریمہ میں آیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء ﴾ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، سنادیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اسماع موتی کا اثبات ہے ، جن مردوں کو اللہ تعالیٰ چاہے سنا دے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہ سنیں تو اللہ تعالیٰ کا سنانا چہ معنی دارد؟ تو جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض موتی بعض اوقات بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کے سنانے سے سن لیتے ہیں، جیسے خفق نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں مذکور ہوا تو ایسے لوگ نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی حدیث کا۔ البتہ جو لوگ یہ نظریہ اپنائے ہوئے ہیں کہ کوئی مردہ کسی وقت بھی کوئی چیز نہیں سنتا، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہیں سنتا تو انہیں غور فرمانا چاہیے کہیں آیت:﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء﴾اور احادیث خفق نعال اور احادیث قلیب بدر کا انکار تو نہیں کر رہے؟
ہوسکتا ہے کہ آپ میری اس سابقہ تحریر کے پیش نظر سمجھنا شروع کردیں کہ یہ بھی سماع موتی کا قائل ہے۔ اس لیے کتاب و سنت کی روشنی میں اپنے عقیدے کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوںتو میرا یہ عقیدہ ہے کہ اصول، قاعدہ اور قانون یہی ہے کہ موتی نہیں سنتے، موتی تو موتی ہیں نوام سوئے ہوئے نہیں سنتے۔ البتہ اس اصول ، قاعدہ اور قانون سے کچھ صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ جیسے خفق نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں بیان ہوا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء ﴾ اس پر دلالت کررہا ہے۔ اب کے ان چند مستثنیٰ صورتوں کو لے کر کوئی شخص مذکورہ بالا اصول، قاعدے اور قانون (موتی نہیں سنتے۔) کو تسلیم نہ کرے تو اس کا اس کو حق حاصل نہیں۔ دو مثالوں سے اس کی توضیح کی جاتی ہے:
(1)اصول ، قاعدہ اور قانون ہے کہ احیاء و زندہ سنتے ہیں، مگر چند صورتیں اس اصول، قاعدہ اور قانون سے مستثنیٰ ہیں مثلاً بہرے ہیں تو زندہ مگر سنتے نہیں۔ اب ان بہروں کو سامنے رکھ کر کوئی مذکورہ بالا اصول ، قاعدے اور قانون (احیاء و زندہ سنتے ہیں) کو تسلیم نہ کرے تو وہ حق بجانب نہیں ہوگا۔
(۲) اصول ، قاعدہ اور قانون ہے کہ جو فوت ہوجاتے ہیں ، واپس دنیا میں نہیں آتے۔ البتہ چند جزئیات اس اصول، قاعدہ اور قانون سے مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً مار علی قریۃ (ایک بستی پر گزرنے والے) کو اللہ تعالیٰ نے سو سال فوت کیے رکھا، بعد میں زندہ فرمادیا۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھ آدمیوں کو لے کر گئے اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت فرمادیا۔ بعد میں زندہ کردیا۔
﴿ثُمَّ بَعَثْنَا کُمْ مِّنْ م بَعْدِمَوْتِکُمْ ﴾الآیہ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فوت کردیا ، پھر زندہ فرمادیا۔
پھر صحیح بخاری میں ہے دجال ایک مؤمن کو قتل کر ڈالے گا، بعد میں زندہ کردے گا وہ مومن کہے گا مجھے پہلے سے بھی زیادہ یقین ہوگیا ہے کہ تو دجال ہے [صحیح البخاری، کتاب الفتن ، باب لا یدخل الدجال المدینۃ]تو اب ان چند جزئیات کو لے کر کوئی شخص قانون ، قاعدہ اور اصول کہ فوت شدہ زندہ ہوکر دنیا میں واپس نہیں آتے ،کا انکار کردے تو اس چیز کا اس کو حق نہیں پہنچتا۔
امید ہے ان دو مثالوں کو سامنے رکھ کر سماع موتی والا مسئلہ آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ اصول ، ضابطہ ، قاعدہ اور قانون یہی ہے کہ موتی فوت شدگان نہیں سنتے، لیکن اس اصول ضابطہ، قاعدہ اور قانون سے کچھ صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً میت کا قرع نعال کو سننا اور قلیب بدر والوں کا اس موقع پر رسول اللہ a کی بات کو سننا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے سنانے سے ہے، إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ (سورۂ فاطر:۲۲)’’للہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے۔‘‘اب ان چند مستثنیٰ جزئیات سے اصول، ضابطہ ، قاعدہ اور قانون کہ موتی فوت شدگان نہیں سنتے ہرگز نہیں بدلتا۔
6۔ آپ لکھتے ہیں: ’’ میں نے (نبیﷺ) نے کہا مجھے چھوڑ دو میں اپنے گھر میں داخل ہوجاؤں ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے۔‘‘ الخ معلوم ہوتا ہے آپ اس سے یہ کشید کرنا چاہتے ہیں کہ آپ ﷺ تکمیل عمر اور وفات کے بعد مدینہ منورہ والی قبر میں زندہ نہیں تو اس پر کلام بعد میں آرہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ البتہ سردست فی الحال اتنی بات تو آپ نے تسلیم فرمالی کہ تکمیل عمر اور وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کا ایک مقام اور ایک گھر ہے تو آپ نے تکمیل عمر اور وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو تسلیم فرمالیا۔ مزید سنیے یہی حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ جس کا آخری حصہ آپ نے نقل فرمایا جس میں رسول اللہ ﷺ کے گھر کا تذکرہ ہے اور باقی ساری حدیث چھوڑ دی ، حالانکہ قبر اور برزخ کے موضوع میں صرف رسول اللہﷺ ہی زیر بحث نہیں آتے، بلکہ تمام قبروں والے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے لے کر ادنی ایمان والے حتی کہ کفار بھی زیر بحث آتے ہیں تو غور فرمائیں۔ اسی صحیح بخاری کی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مندرجہ ذیل رجال و اشخاص کا تذکرہ ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز)
(۱) کذاب… اس کی دونوں شدقوں… وراچھوں… کو گدی تک لوہے کے کلوب کے ساتھ چیرا جارہا ہے اور جبریل و میکائیل علیہما السلام نے فرمایا: ((فَیُصْنَعُ بِه إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَة ))’’ قیامت کے دن تک اس کو یہی سزا دی جائے گی۔‘‘
(۲) رات کے وقت قرآنِ مجید کی تلاوت نہ کرنے والا اور دن کے وقت قرآنِ مجید پر عمل نہ کرنے والا قرآنِ مجید کا عالم … پتھر کے ساتھ اس کا سرکچلا جارہا ہے۔ جبریل و میکائیل علیہما السلام نے فرمایا: (( یُفْعَلُ بِھِمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامة )) ’’قیامت کے دن تک ان کو یہی سزا دی جائے گی۔‘‘
(۳) زنا کرنے والے اور زنا کرنے والیاں… ان کو تنور نما گڑھے میں تیز و تند آگ میں جلایا جارہا ہے۔ جبریل و میکایل علیہما السلام نے فرمایا: (( یُفْعَلُ بِھِمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَة )) ’’قیامت کے دن تک ان کو یہی سزا دی جائے گی۔‘‘
(۴) سودخور… خون کے دریا میں ہے ، باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے کنارے کے قریب آتا ہے تو اس کے منہ پہ پتھر دے مارا جاتا ہے۔ اور نکلنے نہیں دیا جاتا۔ جبریل و میکائیل علیہما السلام نے فرمایا: (( یُفْعَلُ بِھِمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَة)) ’’قیامت کے دن تک ان کو یہی سزا دی جائے گی۔‘‘ یاد رہے جبریل و میکائیل کے لفظ زانی اور سود خوار کے متعلق (( یُفْعَلُ بِھِمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَة)) صحیح بخاری جلد اول ، ص:۱۸۵ پر نہیں کسی اور مقام پر ہیں۔
(۵) ایک عظیم درخت کے نیچے اس کی اصل میں ابراہیم علیہ السلام اور اس کے آس پاس اردگرد لوگوں کے بچے۔
(۶) اس عظیم درخت کے قریب آگ جلانے والا مالک خازنِ نار۔
(۷) جبریل و میکائیل علیہما السلام رسول اللہ ﷺ کو لے کر اس عظیم درخت پر چڑھ گئے۔ انہوں نے آپ ﷺ کو ایک بہترین اور خوبصورت گھر میں داخل فرمایا۔ اس جیسا خوبصورت گھر آپ ﷺ نے کبھی نہ دیکھا ، اس گھر میں بوڑھے، جوان ، عورتیں اور بچے ہیں۔ یہ گھر عام ایمان والوں کا گھر ہے۔
(۸) پھر رسول اللہ ﷺ کو اس پہلے گھر سے بھی اوپر ایک اور گھر دکھایا اور اس میں داخل فرمایا جو پہلے گھر سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ فضیلت والا ہے۔ یہ شہداء کا گھر ہے۔
اس ساری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نیک ہو، خواہ بد۔ تکمیل عمر اور وفات کے بعد اسے ایک مقام و گھر ملتاہے۔ نیک ہے تو اچھا گھر اور بد ہے تو برا گھر اور واضح رہنے یہ بھی ایک قسم کی زندگی ہے، ورنہ نیک کو ثواب بتفاوت درجات اور بد کو عذاب بااختلاف درکات چہ معنی دارد؟
آپ لکھتے ہیں: ’’ بقول آپ کے نبیﷺ مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں، لیکن بخاری …الخ ‘‘ ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ والے اس واقعہ سے آپ نکال رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں زندہ نہیں۔ حالانکہ اس واقعہ سے یہ بات نہیں نکلتی، کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ، خطبہ کے اندر:
[’’ محمد ٓﷺ صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے ہیں ، کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے؟ ‘‘]اور
[ ’’ یقینا آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ ]کی تلاوت اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمانا: "أَیْقَنْتُ أَنَّہٗ قَدْمَاتَ" مجھے یقین ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے ہیں۔ یہ سب باتیں اس وقت کی ہیں جس وقت رسول اللہ ﷺ فوت تو ہوچکے تھے، مگر ابھی قبر میں دفن نہیں کیے گئے تھے۔ جس کا صاف اور سیدھا مطلب ہے کہ ابوبکر صدیق ، عمر بن خطاب اور دیگر صحابہ e کا اس موقع پر اجماع و اتفاق ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی موت آپ ﷺ کی دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر اجماع و اتفاق تھا، کیونکہ قبر میں تو ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہی نہیں کیے گئے تھے۔ پھر اس واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو آیات تلاوت فرمائیں وہ رسول اللہ ﷺ کی موت اور دنیاوی زندگی کی نفی پر تلاوت فرمائیں تو اس واقعہ سے یا ان آیات سے قبر والی زندگی کی نفی نکالنا درست نہیں۔ پھر سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی درج بالا حدیث سے قبر و برزخ والی زندگی ثابت ہوچکی ہے۔
آپ مزید لکھتے ہیں:’’ جب سارے صحابہe کا اجماع ہوگیا کہ نبی کو موت آچکی ہے اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ بھی نہیں کیے جائیں گے۔ تو نبی کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر قرآن و حدیث کا کفر کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ صحابہ رضی اللہ عنہم پر الزام لگانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے رسول ﷺ کو زندہ درگور کردیا۔‘‘
صاحب تحریر نے صحابہ کرام e کا جہاں کہیں ان کی تحریر میں ذکر آیا انہوں نے (ــؓـ)ہی لکھا ہے۔ رضی اللہ عنہم والے لفظ نہیں لکھے۔ ہم نے ان کی عبارت کو من و عن نقل کیا ہے۔ امید ہے جناب محسوس نہیں فرمائیں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو پہلے لکھی جاچکی ہے کہ اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ ﷺ کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا۔ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثواب و عذاب قبر کے معتقد اور قائل تھے، عذابِ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ رسول اللہ a خود عذابِ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ نیز آپ ﷺ نے عذابِ قبر سے پناہ مانگنے کا حکم دے رکھا ہے تو ثواب و عذاب قبر و برزخ سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر و برزخ میں بھی ایک زندگی ہے چاہے وہ دنیاوی اور قبروں سے اٹھنے کے بعد والی اخروی زندگی کی بنسبت موت ہی ہے۔ لہٰذا آپ کا لکھنا : ’’ کیا آپ صحابہؓ پر الزام لگانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے رسولﷺ کو زندہ درگور کردیا۔‘‘ خواہ مخواہ ہے۔ ہاں قبر میں دنیاوی زندگی کا عقیدہ رکھنے والوں کے بارے میں آپ کی یہ بات کچھ نہ کچھ وزن رکھتی ہے۔
رہا آپ کافرمان: ’’ اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ بھی نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ اگر بایں معنی ہے کہ قیامت سے پہلے دنیا والی زندگی کے ساتھ زندہ نہیں کیے جائیں گے تو درست ہے، اگر بایں معنی ہے کہ قیامت سے پہلے قبر و برزخ والی زندگی کے ساتھ زندہ نہیں تو یہ نہ قرآنِ مجید ہے، نہ ہی رسول اللہ a کی حدیث ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک بھی صحابی b کا عقیدہ ہے۔ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس پر اجماع کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ کا فرمانا: ’’ تو آپﷺ کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر قرآن و حدیث کا کفر کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ صحابہ رضی اللہ عنہم…الخ ‘‘ سراسر زیادتی ہے، جس کا قطعاً آپ کو حق نہیں پہنچتا۔
ہاں! اگر آپ قرآنِ مجید کی کوئی آیت ، رسول اللہ a کی کوئی صحیح حدیث اور کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا کوئی ایک ہی قول پیش فرماتے۔ جس میں یہ چیز ہوتی کہ اصحابِ قبور یا اصحابِ برزخ قبر و برزخ میں قبر و برزخ والی زندگی کے ساتھ بھی زندہ نہیں تو پھر آپ اپنی اوپر والی بات میں کسی حد تک حق پر تصور کیے جاسکتے تھے۔ جبکہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی سابقہ حدیث میں برزخ و قبر کی زندگی ثابت ہوچکی ہے، ورنہ اس میں مذکور ثواب و عذاب بے معنی ہوکر رہ جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ (٩٣)﴾ (الانعام)
[ ’’ اگر آپ اس وقت دیکھیں جبکہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی۔‘‘ ]الآیۃ۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[’’ آگ ہے جس پر ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘ ]اس آیت کریمہ میں الفاظ ﴿ وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَة﴾الخ دلالت کررہے ہیں کہ فرعونیوں کا صبح و شام آگ پر پیش کیا جانا قیام قیامت سے پہلے ہے اور واضح ہے وہ پہلے والاعالم عالمِ قبر و برزخ ہی ہے۔ عالمِ دنیا نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
’’ ایمان والوں کو اللہ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔‘‘ ]قبر کے بارے میں ہے۔ (جلد اول ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی عذاب القبر الخ ، ص:۱۸۳) امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس باب میں ثواب و عذاب قبر و برزخ کے بارے میں اور بھی احادیث ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ ہیں: (( فَقَالَ: نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ )) پھر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (( فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ بَعْدُ صَلّٰی صَلاَة إِلاَّ تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ )) اب مقام غور ہے کہ قبر و برزخ والی زندگی کا انکار کرکے قرآن و حدیث کے ساتھ کفر کون کر رہا ہے؟
7۔ آپ نے لکھا: ’’ آپ کے پاس تیسری زندگی کا کیا ثبوت ہے؟ ‘‘ تو محترم یہ تیسری کا لفظ بول کر آپ رنگ بھر رہے ہیں۔ یہ بندۂ فقیر إلی اللہ الغنی ثواب و عذابِ قبر و برزخ والی آیات و احادیث ذکر کرکے ثابت کرچکا ہے کہ قبر و برزخ میں قبر و برزخ والی زندگی ہے، ورنہ ثواب و عذاب قبر و برزخ بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ باقی آیات کریمہ میں ایک موت انسان کے پیدا ہونے سے پہلے اور دوسری موت دنیاوی زندگی کے اختتام پر۔ ایک زندگی دنیا والی اور دوسری زندگی قبروں سے اٹھنے کے بعد والی کا تذکرہ ہے۔ ان میں قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں ہے۔ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ قبر و برزخ والی زندگی دنیاوی زندگی اور قبروں سے اٹھنے کے بعد والی اخروی زندگی کی بنسبت موت ہی ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ ’’ اور دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے۔ البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔‘‘ ] اور یقینا دارِ آخرت ہی زندگی ہے، اب اس میں حیاتِ دنیا کے زندگی ہونے کی نفی کردی گئی ہے ، مگر بنسبتِ حیات آخرت ورنہ حیات دنیا زندگی ہے جیسا کہ وَمَا ھٰذِہِ الْحَیَاة الدُّنْیَا الخ سے ثابت ہورہا ہے۔
رہی سورۂ نحل والی آیت ’’ أَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَآئٍ ‘‘الخ میں بھی دنیاوی زندگی کی نفی ہے۔ قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں۔ یہ نہیں فرمایا:
﴿أَمْواتٌ فِی الْقُبُورِ غَیْرُ أَحْیَاء فِیْھَا ﴾اور مَا یُفِیْدُ مَفَادَُھَا باقی رہا اللہ تعالیٰ کا فرمان:﴿ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ﴾خاص شعور و قت بعث کی نفی ہے ہمہ قسم کے شعور کی نفی نہیں۔ اگر اس سے قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نکالی جائے تو لازم آئے گا دنیا والی زندگی کی بالکلیہ نفی ہوجائے، کیونکہ دنیاوی زندگی رکھنے والوں کو بھی کوئی شعور نہیں۔ وہ کب اٹھائے جائیں گے تو دنیاوی زندگی والے دنیاوی موت سے پہلے ہی دنیاوی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ظاہر ہے کہ یہ لازم تو محال ہے تو ثابت ہوا:﴿ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ﴾سے قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں نکلتی۔
8۔ آپ لکھتے ہیں: ’’ حدیث کے مطابق شہداء کی روحوں کو قبض ہونے کے بعد شہداء کی فرمائش کے باوجود دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔‘‘ تو محترم دنیا میں لوٹانے کی بات اس مقام پر نہیں ہورہی۔ بات یہ ہورہی ہے کہ اصحابِ قبور کی قبر و برزخ میں دنیا والی زندگی ہے تو اس حدیث سے شہداء کو دنیا والی زندگی ملنے کی نفی نکلتی ہے۔ جس کے ہم بھی بفضل اللہ تعالیٰ و توفیقہ قائل و معتقد ہیں اور اس حدیث سے شہداء کی قبر و برزخ والی زندگی کی نفی نہیں نکلتی جو آپ اس سے خواہ مخواہ کشید کررہے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔‘‘ جبکہ آپ قبر و برزخ والی زندگی پر کلام فرمارہے ہیں۔ چنانچہ آپ پہلے لکھ چکے ہیں: بقول آپ کے’’ نبیؐ مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں۔‘‘ نیز لکھ چکے ہیں: ’’ آپ نبیؐ کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر …الخ۔‘‘ تو برائے مہربانی آپ کوئی ایسی آیت یا حدیث پیش فرمائیں جس میں یہ ہو کہ قبروں والے قبروں میں قبر والی زندگی کے ساتھ بھی زندہ نہیں دنیا میں کسی کے نہ لوٹانے والی احادیث یا آیات سے یہ بات نہیں نکلتی۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی حدیث میں قیامت کے دن سے پہلے عمر کی تکمیل اور وفات کے بعد نبی کریمﷺ کے گھر کا تذکرہ نیز شہداء اور عام مومنین کے گھروں کا تذکرہ گزرچکا ہے۔ پھر قیامت کے دن سے پہلے کذاب، زانی ، سود خور اور عالم بے عمل کی سزاؤں کا تذکرہ بھی ہوچکا ہے۔ تو ثابت ہوا دنیاوی زندگی ختم ہوجانے کے بعد قیامت کو مردوں کے قبروں سے اٹھنے سے پہلے بھی ایک زندگی ہے ، جس میں ثواب و عذاب ہے۔
پھرشہداء کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید اور فرقانِ حمید میں فرماتے ہیں:
[’’ اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔‘‘ ] نیز فرماتے ہیں:
[’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس، روزیاں دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں۔ اور خوشیاں منارہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ غمگین ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور بے شک اللہ مؤمنوں کے اجر برباد نہیں کرتا۔‘‘ ]۔ تو یہ آیات شہداء کے قتل و شہید ہوجانے کے بعد ان کے زندہ ہونے میں صریح نص ہیں۔ ’’ بَلْ أَحْیَاءٌ ‘‘اور﴿ بَلْ أَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ﴾کے الفاظ واضح طور پر ان کی اس زندگی پر دلالت کررہے ہیں، جس کے انکار کی کوئی مجال نہیں۔
نیز صحیح مسلم جلد دوم کی جس حدیث کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ، اس کا ابتدائی حصہ اس طرح ہے مسروق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "سَأَلْنَا عَبْدَ اللّٰہِ عَنْ ھٰذِه الْآیَة: ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ﴾ قَالَ أَمَا اِنَّا سَأَلْنَا عَنْ ذٰلِك "
(مسلم ؍ کتاب الإمارۃ ؍ باب بیان أن أرواح الشہداء فی الجنۃ)
[’’ ہم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو عبداللہ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہﷺ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا توآپﷺ نے فرمایا ’’ان کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں۔ عرش کی قندیلیں ان کے لیے ہیں۔ ساری جنت میں جہاں چاہیں چریں چگیں اور ان قندیلوں میں آرام کریں۔ ان کی طرف ، ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ اور چاہتے ہو کہنے لگے۔ اے اللہ! اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں سے چاہیں کھائیں پئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی پوچھا۔ تیسری مرتبہ یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ ہی نہیں تو کہنے لگے: اے رب! ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کوجسموں کی طرف لوٹادے۔ ہم پھر دنیا میں جاکر تیری راہ میں جہاد کریں اور مارے جائیں۔ اب معلوم ہوگیا کہ انہیں کسی اور چیز کی حاجت نہیں تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا کہ کیا چاہتے ہو؟ ( مسلم ، کتاب الإمارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو لوگ فوت ہوجاتے ہیں اور اللہ کے ہاں بہتری پاتے ہیں وہ ہرگز دنیا میں آنا پسند نہیں کرتے، مگر شہید کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا جائے اور دوبارہ اللہ کی راہ میں شہید ہو ، کیونکہ شہادت کے درجات کو وہ دیکھ رہا ہے۔‘‘1 الخ پھر شہداء کی فرمائش بھی اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ ان میں زندگی ہے، جس کی بنیاد پر وہ فرمائش کررہے ہیں۔ نیز ان میں شعور بھی ہے، جبکہ آپ انہیں بھی بے شعور بنارہے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں: ’’ اسی طرح قرآن میں بھی موت کے بعد روح لوٹائے جانے کا کوئی تصور نہیں۔‘‘ تو محترم عرض کروں گا تصور میں تو قرآنِ مجید نے تین واقعات بیان فرمادیئے ہیں، جن میں موت کے بعد روح ان میں لوٹائی گئی اور فوت ہونے والے زندہ ہوکر دنیا میں بھی آئے۔ (۱) ایک بستی بے آباد پر گزرنے والے جنہیں اللہ تعالیٰ نے سو سال فوت رکھنے کے بعد زندہ فرمایا۔ (۲) موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی جن کو مار ڈالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا اور اٹھایا۔ (۳) ہزاروں کی تعداد موت کے ڈر سے بستی چھوڑ گئے انہیں اللہ تعالیٰ نے مارنے کے بعد زندہ فرمادیا۔ اب غور فرمائیں قرآنِ مجید میں موت کے بعد روح لوٹانے کا تصور ہے یا نہیں؟ پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ اصول، ضابطہ، قاعدہ اور قانون یہی ہے کہ موت اور دنیاوی زندگی ختم ہونے کے بعد دنیاوی زندگی کسی کو نہیں ملتی، مگر اس اصول، ضابطہ ، قاعدہ اور قانون سے چند صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا تین صورتیں۔
پھر غورفرمائیں فوت شدگان جب قبروں سے اٹھیں گے، اس وقت تو روحیں ان میں لوٹائی جائیں گی۔ جس میں کسی بھی مسلم کو کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں، جبکہ آپ کے الفاظ: ’’ اسی طرح قرآن میں بھی موت کے بعد روح لوٹائے جانے کا کوئی تصور نہیں۔‘‘ اپنے عموم و اطلاق کے لحاظ سے حشر و نشر کے موقع پر روحیں لوٹانے کی بھی نفی فرمارہے ہیں۔
بہر حال جنابِ محترم سے بڑی ہی مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ قرآنِ مجید کی وہ آیت کریمہ درج فرمائیں جس میں ہو: ’’ موت کے بعد روح لوٹائے جانے کاتصور نہیں۔‘‘ یا ’’ موت کے بعد روح نہیں لوٹائی جاتی۔ ‘‘ یا ’’موت کے بعد روح نہیں لوٹائی جائے گی۔‘‘ بہر کیف ایسی کوئی ایک آیت درج فرمادیں، جس میں موت کے بعد روح لوٹائے جانے کی نفی ہو۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
نیز آپ لکھتے ہیں: ’’ قرآن ہر انسان کو مردہ ہونے کے بعد بے شعور ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ ‘‘ تو محترم پہلے لکھ چکا ہوں کہ: ﴿وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ﴾ (النحل:۲۱)[ ’’ اور انہیں شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ ]خاص شعور کی نفی ہے کہ انہیں اپنے اٹھائے جانے کے وقت کا شعور نہیں۔ اس سے ’’ مردہ ہونے کے بعد شعور ہونے ‘‘ کو اخذ کرنا درست نہیں۔ کیونکہ خاص کی نفی سے عام کی نفی نہیں نکلتی۔ پھر پہلے کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت کیا گیا کہ موت کے بعد قبر و برزخ میں ثواب و عذاب ہے، زندگی ہے ، علم و شعور ہے، بلکہ بعض مواقع پر بعض چیزوں کا سماع بھی ہے۔ جیسے قرع نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں گزرا۔ پھر قلیب بدر والی حدیث میں ہے: "اِنَّھُمْ لَیَعْلَمُوْنَ " پھر سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی قبر و برزخ کی زندگی اور وہاں والوں کے شعور پر دلالت کررہی ہے۔ پھر آیت:
[’’ کہتا ہے: اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹادے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعما ل کروں۔ ہرگز ایسانہیں ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے ، جس کا یہ قائل ہے ان کے پیچھے ایک پردہ ہے ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک۔‘‘ ]
بہر کیف آپ کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ آیت ضرور پیش فرمائیں، جس میں: ’’ ہر انسان کو مردہ ہونے کے بعد بے شعور قرار دیا گیا ہے۔‘‘ بڑی مہربانی ہوگی۔ یہ کام پہلی فرصت میں کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
9۔آپ لکھتے ہیں: ’’ کسی تعویذ پہننے والے سے پوچھیں کہ اسے آپ نے کیوں پہناہے؟ تو وہ بتاتا ہے کہ اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف دور ہوگی، اس کا پور اایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ تعویذ غائبانہ طور پر میری مدد کرے گا۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔‘‘ جنابِ محترم غور فرمائیں کسی نے کسی عورت سے شادی کرلی اور کسی بیماری و تکلیف کے لیے کسی ڈاکٹر یا طبیب سے کوئی دوائی لے لی۔ اب اس سے پوچھیں آپ نے شادی کیوں کی؟ دوائی کیوں لی؟ تو وہ جواب دے گا اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف و بیماری دور ہوگی۔ مجھے شفاء ملے گی اس کا پورا ایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ شادی اور دوائی غائبانہ طور پر میری مدد کرے گی۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اپنے گھر میں رکھے اور ہاتھ میںلیے پھرتا ہے؟ آپ جناب کا کیا خیال ہے ایسے انسان نے شرک کیا یا نہ؟ جبکہ یہ الٰہ والی بات آپ یاہم اس کے سر تھونپ رہے ہیں ہمیں اس کے اس سلسلہ میں عقیدے کا کچھ علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[’’ اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو۔ یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔‘‘ ] پھر اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے:
[’’ اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہوکہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو ، پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘ ]
پھر کسی نے کسی سے دم کروایا یا دم کرنے والے نے قرآنِ مجید کی کوئی سورت یا آیت یا رسول اللہ ﷺ کی سکھائی ہوئی دعاء پڑھ کر دم کیا ، اب دم کروانے والے سے پوچھیں آپ نے دم کیوں کروایا؟ تو وہ یہی کہے گا اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف دور ہوگی، ا س کاپورا ایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ دم غائبانہ طور پر میری مدد کرے گا۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اس دم کو سمجھے پھرتا ہے۔ آپ جناب کا کیا خیال ہے ایسے انسان نے شرک کیا یا نہ؟ جبکہ یہ الٰہ والی بات آپ یا ہم اس کے سر تھوپ رہے ہیں۔ ہمیں اس کے اس سلسلہ میں عقیدے کا کچھ علم نہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے ایک انسان شہد کو شفاء سمجھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ فِیْه شِفَآء لِلنَّاسِ ﴾ [النحل:۶۹][’’ اس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔‘‘ ] اسی طرح قرآنِ مجید کو شفاء سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآء وَّرَحْمة لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [بنی اسرائیل:۸۲] [’’یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لیے تو شفاء اور رحمت ہے۔‘‘ ] ﴿قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ھُدًی وَّ شِفَآءٌ﴾ [حٰمٓ السجدۃ:۴۴][’’ آپ کہہ دیجئے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفاء ہے۔‘‘ ]آپ اسے الٰہ بنانے والا گرداننا شروع کردیتے ہیں۔ یہ کہا ںکا انصاف ہے؟ قرآنِ مجید اور حدیث دم کی صورت میں الٰہ نہیں بنتے۔ تو کاغذ میں لکھنے سے کیونکر الٰہ بن گئے؟ شہد اور دیگر ادویہ میں کوئی شفاء سمجھے تو وہ الٰہ نہیں بنتے تو کاغذ میں لکھے ہوئے قرآنِ مجید میں شفاء سمجھے تو وہ کیسے الٰہ بن گیا؟
پھر کتاب و سنت کا تعویذ کرنے والے اور کروانے والے سبھی تعویذ میں لکھے ہوئے کلمات و کلام کو شفاء دینے والا سمجھتے ہیں ان میں سے کوئی بھی کاغذ یا چمڑے کو شفاء دینے والا بھی نہیں سمجھتا چہ جائیکہ وہ اس کو الٰہ سمجھے یا گردانے لہٰذا کتاب و سنت کے تعویذ باندھنے یا لٹکانے کے متعلق آپ کا لکھنا: ’’ اس طرح اپنا الٰہ اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔‘‘ سراسر بے بنیاد ہے۔
رہی مسند امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ والی حدیث جس کا ایک ٹکڑا آپ نے نقل فرمایا تو وہ پوری کی پوری مندرجہ ذیل ہے:
قال الإمام أحمد: ’’ ثنا عبدالصمد بن عبد الوارث ثنا عبدالعزیز بن مسلم ثنا یزید بن أبی منصور عن دخین الحجری عن عقبة بن عامر الجهنی أن رسول اللّٰہ ﷺ أقبل إلیہ رھط ، فبایع تسعة وأمسك عن واحد ، فقالوا: یا رسول اللّٰہ بایعت تسعة وترکت ھذا. قال: إن علیہ تمیمة. فأدخل یدہ ، فقطعھا ، فبایعه ، وقال: من علق تمیمة فقد أشرك" (مسند أحمد:۴؍۱۵۶)
[’’ بے شک رسول اللہ ﷺ کے پاس (۱۰ ) دس آدمی آئے آپ نے (۹) نو کی بیعت کی اور ایک کی بیعت نہ کی۔ تو انہوں نے کہا: آپؐ نے (۹) سے بیعت لی اور اس کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس پر تمیمہ ہے۔ ‘‘ آپﷺ نے اپنا ہاتھ داخل کیا اور اس کو کاٹ دیا۔ پھر اس سے بیعت لی۔ اور فرمایا: ’’جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘ ]
پوری حدیث پڑھ جائیے آپ کو اس میں کہیں بھی لفظ تعویذ نظر نہیں آئے گا۔ ہاں! رسول اللہ ﷺ کا فرمان: «مَنْ عَلَّقَ تَمِیْمَة فَقَدْ أَشْرَك»جس نے تمیمہ لٹکایا بلاشبہ اس نے شرک کیا۔ ‘‘ اس میں موجود ہے۔ اب قابل غور چیز یہ ہے کہ تمیمہ کیا ہے؟ جس کے لٹکانے کو رسول اللہ ﷺ نے شرک قرار دیا تو محترم سنیں مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں: "والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق" تو جناب من! تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔
شاید آپ میری اس ساری بات چیت سے نتیجہ اخذ کرلیں یہ تو تعویذ کا قائل ہوگیا ہے تو محترم دو ٹوک الفاظ میں اپنا عقیدہ لکھ دیتا ہوں تاکہ آپ میرے متعلق کسی بدگمانی میں مبتلا نہ ہوجائیں تو سنیں: ’’ تعویذ کرنا کروانا یا لٹکانا لٹکوانا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔‘‘ یہ ہے میرا عقیدہ اور وہ تھا آپ کی باتوں کا جواب۔ غفرلنا اللہ العزیز الوہاب۔
10۔ آپ لکھتے ہیں: ’’ اے نبیؐ! اعلان فرمادیجئے کہ اگر میں نے تم لوگوں سے اس دین پر معاوضہ مانگا تو وہ تمہارا ہی رہا میرا صلہ اور مزدوری تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔‘‘ آیت نمبر: ۴۷ سورۂ السبا کا ترجمہ۔ آپ کا کلام ختم ہوا۔
سورۂ سبا کی محولہ بالا آیت کریمہ نقل کیے دیتا ہوں تاکہ آپ اس کے الفاظ کو سامنے رکھ کر اپنے ترجمہ کا جائزہ لے سکیں تو یہ آیت کریمہ اس طرح ہے:
پھر اس آیت کریمہ کے لوگوں سے اور بالخصوص ایمان والوں سے اجرت صلہ، مزدوری اور معاوضہ لینے کی نفی نہیں صرف اس کے طلب کرنے کی نفی ہے۔ دیکھئے سورہ فرقان میں ہے:
[’’ کہہ دیجئے کہ میں قرآن کے پہنچانے پرتم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا، مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راہ پکڑنا چاہے۔‘‘ ]پھر مالِ فے میں رسول اللہ a کاحصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[’’ بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا قرابت والوں کا اور یتیموں ، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے ، تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو جو کچھ رسول دے اسے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقینا اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘ ]۔ نیز مالِ غنیمت کے خمس سے پانچواں حصہ رسول اللہ a کے لیے مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[’’ جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اوررسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا۔‘‘ ]۔ وفد عبدالقیس والی حدیث میں ہے: " وأَنْ تُعْطُوْا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ " [’’ وفد عبدالقیس کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں۔ ‘‘] میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو اللہ پر ایمان لانا کیسا ہے؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا ، زکوٰۃ دینا اور غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا، پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے۔
اور چار برتنوں سے منع کیا۔ سبز مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے اور روغنی برتن سے اور لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے۔ (ان برتنوں کا استعمال شراب میں ہوتا تھا، جب شراب حرام ہوئی تو چند روز تک آپؐ نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرمادی۔) (بخاری ؍ کتاب فضائل أصحاب النبی ﷺ ؍ باب قول النبی ﷺ سدوا الابواب الاباب أبی بکر، مسلم ؍ کتاب فضائل الصحابۃ ؍ باب من فضائل أبی بکر الصدیق)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: «وَإِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ مَالِه وَصُحْبَتِه أَبَا بَکْرٍ » ( بخاری ؍ کتاب الإیمان ؍ باب أداء الخمس من الإیمان ، مسلم ؍ کتاب الإیمان ؍ باب الامر بالإیمان باللّٰہ) [’’ بلاشبہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر اپنی صحبت اور مال میں احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔‘‘]تو قرآنِ مجید میں رسول اللہ a کے سوال، مطالبہ کرنے اور مانگنے کی نفی ہے۔ کما تقدم واللہ اعلم۔ آپ سے مؤدبانہ اور مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ میری سابقہ معروضات کو تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غور سے پڑھیں اور بہ انصاف سوچیں ان شاء اللہ الحنان بہت فائدہ ہوگا۔