سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(432) ہندو مہاجن کا عطیہ مسلمان یتیموں پر خرچ کرنا

  • 23197
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 869

سوال

(432) ہندو مہاجن کا عطیہ مسلمان یتیموں پر خرچ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غازی پورکے مسلمانوں نے ایک یتیم خانہ کھولا ہے جس میں سات یتیم پرورش پاتے ہیں بابو موتی چند رئیس و مہاجن بنارس نے ایک رقم عطیہ کی یتیم خانہ میں بھیجی۔ ایک صاحب نے اس کے لینے میں اس بنا پراعتراض کیا کہ وہ مہاجنی میں سود لیتے ہیں ان کا مال حرام ہے یتیم خانہ میں اس کو قبول کرنا نہیں چاہیے لوگوں کی عموماًیہ رائے ہے کہ اس مال کا قبول کرلینا جائز ہے اس بارے میں صحیح رائے کیا ہے؟از غازیپور۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بارے میں صحیح رائے یہی ہے کہ اس مال کا قبول کر لینا جائز ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے عہد سعادت مہد میں یہود و نصاری و مشرکین سب تھے اور سب سے دادوستد کے معاملات جاری تھے ان کے ہدایا قبول کیے جاتے تھے ان کے پاس ہدایا بھیجے جاتے تھے اور جزیہ و خراج ان سے وصول کیا جا تا تھا ان کے ساتھ بیع و شراء جاری تھا حالانکہ سود بھی وہ کھاتے تھے رشوت بھی لیتے تھے اور جس طرح ہمارے زمانے کے بہتیرےعلماو مشائخ اپنے معتقدین و مریدین کے اموال کو ناجائز طور سے کھاتے اور ان کو گمراہ بھی کرتے ہیں اسی طرح ان کے بہتیرے علما و مشائخ بھی ناجائز طور سے اپنے معتقدین و مرین کے اموال کھاتے اور ان کو گمراہ کرتے تھے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّ كَثيرًا مِنَ الأَحبارِ وَالرُّهبانِ لَيَأكُلونَ أَمو‌ٰلَ النّاسِ بِالبـٰطِلِ وَيَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّهِ...﴿٣٤﴾... سورة التوبة

(اے لوگو!جو ایمان لائے ہو!بے شک بہت سے عالم اور درویش یقیناً لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں)

﴿وَأَخذِهِمُ الرِّبو‌ٰا۟ وَقَد نُهوا عَنهُ وَأَكلِهِم أَمو‌ٰلَ النّاسِ بِالبـٰطِلِ ...﴿١٦١﴾... سور ةالمائدة

(اور ان کے سود لینے کی وجہ سے حالاں کہ یقیناً انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے اموال باطل طریقے کے ساتھ کھانے کی وجہ سے)

﴿سَمّـٰعونَ لِلكَذِبِ أَكّـٰلونَ لِلسُّحتِ... ﴿٤٢﴾... سورة المائدة

(بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو بہت کھانے والے حرام کو)

﴿فَوَيلٌ لِلَّذينَ يَكتُبونَ الكِتـٰبَ بِأَيديهِم ثُمَّ يَقولونَ هـٰذا مِن عِندِ اللَّهِ لِيَشتَروا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا ...﴿٧٩﴾... سورة البقرة

(پس ان لوگوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں)

﴿يَأخُذونَ عَرَضَ هـٰذَا الأَدنىٰ وَيَقولونَ سَيُغفَرُ لَنا وَإِن يَأتِهِم عَرَضٌ مِثلُهُ يَأخُذوهُ أَلَم يُؤخَذ عَلَيهِم ميثـٰقُ الكِتـٰبِ أَن لا يَقولوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ...﴿١٦٩﴾... سورة الاعراف

(وہ اس حقیر دنیا کا سامان لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا اور اگر ان کے پاس اس جیسا اور سامان آجائے تو اسے بھی لے لیں گے کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے)

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبو‌ٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّبو‌ٰا۟ ...﴿٢٧٥﴾... سورة البقرة

(وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جیسے شیطان نے چوکر خبطی بنادیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا بیع تو سود ہی کی طرح ہے)

"عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا قَالَتِ: اشْتَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا بِنَسِيئَةٍ وَرَهَنَهُ دِرْعَهُ"[1](متفق علیه مشکوة ص242)

(عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ  عنہا   بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ لیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی)

" وعن عبدالله ابن عمر رضي الله تعاليٰ عنه قال : جَاءَتْ حُلَلٌ فَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، وَقَالَ أَكَسَوْتَنِيهَا وَقُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ‏"‏‏.‏ فَكَسَا عُمَرُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا[2]

(سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ (رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس) کچھ پوشاکیں آئیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان میں سے ایک پوشاک عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کو عطا کردی عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  نے مکے میں اپنے ایک شریک بھائی کو وہ پوشاک عطیہ کردی)

"وقال ابو هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي  الله عليه وسلم(( هاجر ابراهيم بسارة فدخل قرية فيها ملك او  جبار فقال:اعطوها آجر وقال ابوحميد اهدي ملك ايلة للنبي صلي الله عليه وسلم بغلة بيضاء))[3]

(سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   سے بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم  علیہ السلام   نے (اپنی بیوی) سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک ایسے علاقے میں داخل ہوئے جہاں پر ایک بادشاہ یا جبارتھا اس نے کہا اس (سارہ) کو ایک آجر (خدمت گزار ہاجرہ ) دے دو ابو حمید نے کہا کہ ایلہ کے بادشاہ نے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کو ایک سفید خچر کا عطیہ دیا )

"عن انس رضي الله تعاليٰ عنه  ان اكيدر دومة اهدي الي النبي صلي الله عليه وسلم"[4]

(انس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سےمروی ہے کہ اکید ردومہ نے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی کی خدمت میں ایک ہدایہ ارسال کیا)

وعن انس ايضا ان يهودية اتت النبي صلي الله عليه وسلم بشاة مسمومة فآكل منها"[5]

(انس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  ہی سےمروی ہے کہ ایک یہود یہ نےنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں ایک زہر آلود بکری (کا گوشت ) پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس سے (گوشت ) کھایا)

"وعن عبدالرحمان بن ابي بكر رضي الله تعاليٰ عنه قال:كنا مع النبي صلي الله عليه وسلم ثلاثين ومائة   ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي صلي الله عليه وسلم((بيعاام عطية؟) او قال:(( ام هبة)) قال:لابل بيع فاشتري منه شاة فصنعت"[6](بخاری شریف کتاب الهیه مصر 6029/2)

(عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سوتیس (130)آدمی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ساتھ (ایک سفر پر) تھے پھر ایک لمبا دھڑنگامشرک شخص اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا آیا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے پوچھا:"بیچ رہے ہو یا عطیہ دے رہے ہو؟یا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ’’ہبہ دے رہے ہو؟‘‘اس نے کہا نہیں بلکہ یہ فروخت کے لیے ہیں پس آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس سے ایک بکری خریدی جو بنائی گئی)

فتح الباری(پارہ2/2/50مطبوعہ دہلی ) میں ہے۔

"وجاءرسول ابن العلماء صاحب ايلة الي رسول الله صلي الله عليه وسلم بكتاب واهدي بغلة بيضاء ولما انتهي  رسول الله صلي الله عليه وسلم تبوك اتاه يوحنا بن روبة صاحب ايلة فصالح رسول الله صلي الله عليه وسلم واعطاة الجزية "انتهي

(صاحب ایلہ ابن العلماء کا ایلچی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس ایک خط لایا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو ایک سفید رنگ کا خچر بھی ہدیہ دیا(محمد بن اسحاق کی مغازی میں ہے) جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   تبوک پہنچے تو صاحب ایلہ یوحنا بن روبہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا پھر اس نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے صلح کر لی اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو جزیہ عطا کیا) نیز فتح الباری 545/2مطبوعہ دہلی) میں ہے

"وفي حديث علي عند مسلم ان اكيدر دومة اهدي للنبي صلي الله عليه وسلم  ثوب حرير فاعطاه عليا فقال:شققه خمرا بين الفواطم"[7]

(صحیح مسلم میں علی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مروی حدیث میں ہے کہ اکید دومہ نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں ریشمی کپڑا بطور ہدیہ بھیجا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ کپڑا علی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کو عنایت فرمادیا اور فرمایا : اس کو پھاڑ کر فاطموں (فاطمہ بنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم رضی اللہ تعالیٰ  عنہا  ام علی فاطمہ اور فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  بن عبد المطب ) کو اوڑھنیاں بنادو)

اس مذکورہ بالا بیان سے یہ ہر گز نہ سمجھنا چاہیے کہ سودی مال حرام نہیں ہے سوداور سودی مال دونوں قطعی حرام ہیں ہاں یہ سمجھنا بھی چاہیے کہ سودی مال جو حرام ہے سود لینے والے کے حق میں حرام ہے اور اس کی جواب دہی آخرت میں اسی کے ذمہ ہے اور اس شخص کے حق میں حرام نہیں ہے جو اس سودلینے والے سے جائز وجہ سے حاصل کرے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے عہد میں اس قسم کے موال ویسے لوگوں سے جائز وجہوں سے حاصل کیے جاتے تھے

جیسا کہ آیات و احادیث مذکورہ بالا سے واضح ہے اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ غیر اہل ملت سے جو استعانت واستمدادناجائز ہے تو وہ امور مذہبی میں ناجائز ہے جن میں اشتراک نہیں ہے نہ کہ ہر قسم کے امور میں ترمذی (ص201) میں ہے۔

"عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ:

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ بَدْرٍ فَلَمَّا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ يُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَنَجْدَةٌ فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَوْهُ فَلَمَّا أَدْرَكَهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ وَأُصِيبَ مَعَكَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ لَا قَالَ فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ"[8]

(سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   بدر کی طرف نکلے تو جب وہ وبرہ کی پتھریلی زمین میں پہنچے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو ایک مشرک آدمی ملا جو اپنی بہادری اور جرات میں مشہور تھا (اس نے لڑائی میں شرکت کی اجازت طلب کی) تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے فرمایا :’’تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟‘‘وہ کہنے لگا نہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: لوٹ جا میں کسی مشرک سے مدد نہیں لیتا )


[1] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث (1962)صحیح مسلم رقم الحدیث (1603)

[2] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث (846)صحیح مسلم رقم الحدیث (2068)

[3] ۔ صحیح البخاري (922/2)

[4] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث (2473)صحیح مسلم رقم الحدیث2469)

[5] صحیح البخاري رقم الحدیث (2474)صحیح مسلم رقم الحدیث (2190)

[6] صحیح البخاري رقم الحدیث (2475)صحیح مسلم رقم الحدیث (2056)

[7] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث (2116)

[8] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1817)سنن الترمذی رقم الحدیث (1558)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:661

محدث فتویٰ

تبصرے