سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(430) اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کرنا ضروری ہے

  • 23195
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 895

سوال

(430) اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کرنا ضروری ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کی چند اولاد ہیں اور سب کو اس نے زیورات و جہیز وغیرہ دے کر شادی کردی ایک لڑکی باقی ہے اور اب زید کی ملک میں بجز ایک مکان کے جو تخمینا قیمت میں اول اولاد کے زیورات اور جہیز کے برابر بھی نہ ہو گا کچھ نہیں ہے اس صورت میں زید اگر اس مکان کو اس لڑکی کو ہبہ کرنا چاہے جو اب تک ناکدخدا (کنواری) ہے تو اور اولاد کو روکنے کا حق ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی صورت میں کہ وہ مکان اس سے کم قیمت ہے جو زیور کسی اولاد کو دے چکا ہے تو یہ چاہیے کہ وہ مکان اسی ناکد خدا لڑکی کو دے اس لیے کہ ازروئے شرع شریف کے اولاد کو دینے میں تسویہ(برابری) کا لحاظ رکھنا چاہیے تو اگر یہ مکان اس کے برابر ہوتا جو کچھ اور اولاد کو دے چکا ہے تب بھی زید کو اس ناکد خدا لڑکی کو یہ مکان دینا تھا اور درحالیکہ کم ہے تو بدرجہ اولیٰ دے سکتا ہے علاوہ اور کچھ بھی اگر اس کے پاس ہواور دے تاکہ برابر ہوجائے تو بہتر ہے اس سے روکنے والا "مناع للخیر"ہے۔

"عن النعمان بن بشير ان اباه اتيٰ به الي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال:اني نحلت ابني هذا غلاما فقال:(( اكل ولدك نحلت مثله؟)) قال:لا‘قال:((فارجعه))[1](رواه البخاري فی صحیحه)

(نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ان کا باپ انھیں اپنے ہمراہ لے کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو (برابر) اس طرح کا ہبہ دیا ہے؟انھوں نے عرض کی نہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :اسے واپس لے لو)

"وعن عامر قال:سمعت النعمان بن بشير وهو علي المنبر يقول: اعطاني ابي عطية فقالت عمرة بنت رواحة :لا ارضيٰ حتي تشهد رسول الله صلي الله عليه وسلم فاتيٰ رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال:اني اعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فآمرتني ان اشهدك يا رسول الله! صلي الله عليه وسلم قال:((اعطيت سائر ولدك مثل هذا؟))قال:لا قال:فاتقوا الله واعد لوا بين اولادكم )) قال:فرجع فرد عطيته"[2](رواه البخاري فی صحیحه )

(عامر رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کو منبر پر کھڑے ہو کر یہ کہتے ہوئے سنا۔ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا   (میری والدہ ) نے کہا میں راضی نہیں حتی کہ تم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو گواہ بنالو ۔ انھوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی میں نے عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا   سے اپنے بیٹے کو ایک عطیہ دیا ہے اور اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   ! اس نے کہا ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:’’کیا تم نے اپنی باقی اولادکو بھی اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟‘‘انھوں نے عرض کی نہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :’’اللہ سے ڈرواور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔راوی بیان کرتے ہیں وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا)

"وعن ابن عباس رضي الله عنه رفعه:(( سووا بين اولادكم في العطية فلو كنت مفضلا احدا لفضلت النساء"[3](اخرجہ سعید بن منصور والبیہقی من طریقہ حسن فتح الباری536/10مطبوعہ انصاری)

(سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مرفوعاً مروی ہے عطیہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو اگر میں کسی کو فضیلت و ترجیح دینے والا ہوتا تو عورتوں کو ترجیح دیتا)


[1] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث(2446)صحیح مسلم رقم الحدیث (1623)

[2] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(2447)

[3] ۔المعجم الکبیرللطبرانی (354/11)سنن البیہقی (177/6)اس کی سند میں "سعید بن یوسف الرحي "ضعیف ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:658

محدث فتویٰ

تبصرے