سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(428) لے پالک کی وراثت

  • 23193
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 715

سوال

(428) لے پالک کی وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ معین الحق نامی ایک شخص خوشحال منڈل نامی شخص کا پوتا ہے مدت ہوئی ہے کہ معین الحق کا والدبیان الحق منڈل اس کی صغر سنی میں اس کے دادے خوشحال منڈل نے کے سامنے فوت ہوگیا پس معین الحق کے دادے خوشحال منڈل نے اس کی پرورش کی اور اس کے تعلیم و تعلم کا بندوبست کیا حتی کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ گیا خوشحال منڈل نے منقولہ اور غیر منقولہ تمام اشیا معین الدین اور معین الحق کے چچا اپنے دوسرے بیٹے عبد الغفور منڈل کے درمیان برابر برابرنصف تقسیم کر کے ان کو ان اشیاء کا مالک بنادیا وہ اس واقعے کے تقریباً سولہ سال  بعد تک زندہ رہا۔اس دوران میں خوردو نوش اور نشست برخاست کے اکثر اوقات میں معین الدین ہی اپنے دادے ،کی خدمت بجالا تا رہا حتی کہ خوشحال منڈل نے اپنی موت سے قبل اپنے ہوش و حواس کی سلامتی کے ساتھ اپنے علاقے کے تمام چھوٹے بڑوں کو جمع کیا اور حاضرین مجلس سے کہا تم لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے اپنے پوتے معین الحق اور اپنے دوسرے بیٹے عبدالغفور کو اپنی منقولہ اور غیر منقولہ تمام اشیا نصف نصف برابر تقسیم کرکے دے دی ہیں لہٰذاتم اس پر آئندہ کے لیے گواہ رہنا کہ میں نے معین الحق کو اپنی خدمت کے باعث اور میری تنگی و آسانی کا ساتھی ہونے کے عوض اپنی منقولہ اور غیر منقولہ اشیا میں نصف اس کو دے دی ہیں اور باقی نصف عبد الغفور کو۔ پس اس صورت میں یہ ہبہ ہبہ بلا عوض ہو گا یا ہبہ بالعوض ۔ اگر یہ ہبہ بالعوض ہے تو کیا معین الحق مذکورنصف کا مستحق بن سکتا ہے یا نہیں؟اگر یہ وصیت ہے تو وہ کتنے حصے کا مستحق ہو گا؟یہ بھی مخفی نہ رہے کہ دونوں فریق اپنے باپ اور دادے کی تمام اشیامیں تصرف و قابض ہیں)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(یہ ہبہ بلا عوض ہو یا بالعوض دونوں صورتوں میں ہبہ لازم ہے اور اس سے رجوع کا حق ساقط پو چکا ہے لہٰذا معین الحق اس نصف کا مستحق ہے جو اس کے دادے خوشحال منڈل نے اس کو عطا کیا ہے اور اس پر اسے قابض بنا کر دنیا سے رخصت ہوا ہے یہ کچھ کہا گیا ہے یہ حدیث کے موافق ہے اور فقہ حنفی کے بھی موافق ہے جہاں تک حدیث کی موافقت کا تعلق ہے تو وہ اس لحاظ سے کہ ہبہ میں رجوع کرنا صرف باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دیے ہوئے ہبے میں رجوع کر لے چنانچہ خوشحال منڈل کو اپنی زندگی میں اس ہبے سے رجوع کرنے کی اجازت تھی کہ وہ معین الحق کو دیے ہوئے ہبے کو واپس لے لیتا پس جب اس نے اپنی زندگی میں اس سے رجوع نہ کیا تو کسی اور کو یہ ہبہ واپس کرنے کا حق نہیں رہا مشکوۃ شریف (ص206مطبوعہ مجتبائی دہلی) پر ہے)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرجع احد في هبته الا والد من ولده[1](رواه النسائی وابن ماجه)

(عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :کوئی شخص اپنے ہبے سے رجوع نہ کرے مگر والد اپنی اولاد سے(واپس لے سکتا ہے)

"عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً أَوْ يَهَبَ هِبَةً فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَأْكُلُ فَإِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ"[2](رواہ ابو دادوالترمذی والنسائی وابن ماجہ و صحیحہ الترمذی )

(عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے روایت ہے کہ بلا شبہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا : آدمی کے لیے جائز نہیں ہے کہ (کسی کو) کوئی چیز دے کر واپس لے لے سوائے والد کے جو کچھ وہ اپنی اولاد کو دیتا ہے( اسے واپس لے سکتا ہے) اور جو شخص تحفہ دے کر واپس لیتا ہے وہ کتے کی طرح ہے جو کھا تا ہے حتی کہ جب ضرورت سے زیادہ سیر ہو جاتا ہے تو قے کرتا ہے پھر اپنی قے کو چاٹنے لگتا ہے)

واما موافقت فقہ حنفیہ پس بدو جہت یکی آنکہ ایں ہبہ بذی رحم محرم خوشحال منڈل است و ہبہ بذی رحم محرم بر و فق فقہ حنفیہ لازم میگر دو وحق رجوع ازاں ساقط میثود دوم آنکہ واہب یعنی خوشحال منڈل بعد ہبہ بمردو چوں واہب بعد ہبہ بمیر و ہبہ اولازم میگر دو و حق رجوع ازاں سقوط می پذیرد۔

(رہی فقہ حنفی کے ساتھ اس کی موافقت تو وہ دو طرح ہے ایک تو ایسے کہ یہ ذی رحم رشتے دار خوشحال منڈل کا ہبہ ہے اور ذی رحم رشتے کا ہبہ فقہ حنفی کے مطابق لازم ہو جاتا ہے اس سے رجوع کرنے کا حق ساقط ہو جا تا ہے اور دوسرا اس لحاظ سے کہ ہبہ کرنے والا خوشحال منڈل ہبہ کرنے کے بعد فوت ہو گیا اور جب ہبہ کرنے والا ہبہ کرنے کے بعد فوت ہوا تو اس کا ہبہ لازم ہو جا تا ہے اور اس سے رجوع کا حق ختم ہو جا تا ہے)درہدایہ مع الکفایہ (174/3مطبوعہ دہلی) میگوید۔

"وان وهب هبة لذي رحم محرم منه لم يرجع  فيها لقوله عليه السلام اذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها ولآن المقصود صلة الرحم وقد حصل"

(ہدایہ میں ہے اگر وہ (واہب ) کسی محرم رشتے دار کے لیے ہبہ کرے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتا کیوں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے کہ جب ہبہ محرم رشتے دار کے لیے ہو تو وہ اس میں رجوع نہیں کر سکتا کیوں کہ اس ہبہ کا مقصود صلہ رحمی ہے تو وہ اس ہبے کے ساتھ حاصل ہو چکا ہے)ونیز دراں میگوید۔

"واذ وهب هبة لآجنبي فله الرجوع فيها(الي قوله) الا ان يعوضه عنها...الي قوله ...يموت احد المتعاقدين لآن بموت الموهوب له ينتقل الملك الي الورثة فصار كما اذا انتقل في حال حياته واذا مات الواهب  فوارثه اجنبي عن العقد اذ هو ما اوجبه"انتهي

(نیز ہدایہ کے مولف کہتے ہیں جب وہ کسی اجنبی (غیر محرم رشتے دار)کو ہبہ کرے تو اسے واپس لینا جائز ہے۔ الایہ کہ وہ اس کا عوض دے۔ متعاقدین (واہب و مواہب وموہوب لہ) میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے ۔کیوں کہ موہوب لہ کی موت کے ساتھ وارثوں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے تو وہ ایسے ہی ہو جا تا ہے جیسے اس (موہوب لہ)کی حیات میں یہ انتقال ملکیت ہوا ہے اور اگر واہب مر گیا تو اس کے وارث کو عقد ہبہ سے کچھ تعلق نہیں ہے کیوں کہ اس نے عقد ہبہ نہیں کیا تھا)

وایں ہبہ ہبہ حقیقتاً است نہ درحکم وصیت کہ نفاذش درثلث ترکہ (بعد تقدیم ماتقدم علی الوصیۃ )میشودزیرا کہ ہبہ درحکم وصیت در آنوقت میشود کہ واہب درمرض الموت خود ہبہ کردہ باشدنہ اینچنیں ہبہ کہ واہب بعد ہبہ تامدت شانزدہ سال زندہ ماندہ وفات یا فتہ باشد ۔

(نیز یہ ہبہ حقیقی ہے نہ کہ وصیت کے حکم میں جس کو (بعد تقدیم ماتقدم علی الوصیۃ ) ترکے کے تہائی میں نافذ کیا جائے کیوں کہ ہبہ اس وقت وصیت کے حکم میں ہو تا ہے جب ہبہ کرنے والے نے اپنی مرض الموت  میں ہبہ کیا ہو نہ کہ سوال میں مذکور ہبہ میں اس لیے کہ اس صورت میں تو واہب ہبے کے بعد سولہ سال تک زندہ رہا اور پھر اس نے وفات پائی)

درمشکوۃ شریف (ص334) است۔

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حَصِينٍ ، أَنَّ رَجُلًا ، مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ عِنْدَ مَوْتِهِ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ فِيهِ : قَوْلًا شَدِيدًا ثُمَّ دَعَاهُمْ ، فَجَزَّأَهُمْ ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً [3](روامسلم )

(عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی موت کے قریب اپنے چھے غلام آزاد کردیے اور اس کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے غلاموں کو بلایا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا پھر ان کے مابین قرعہ اندازی کی تو دو کو آزاد کردیا اور چار کو غلام رکھا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کے متعلق سخت الفاظ فرمائے)

ودرہدایہ مع الکفایہ(138/4)مرقوم است۔

"والمقعد والمفلوج والآشل والمسلول اذا تطاول ذلك فلم يخف منه الموت فهبته من جميع المال لانه اذا تقادم العهد صار طبعا من طباعه ولهذا لا يشتغل بالتداوي ولو صار صاحب فراش بعد ذلك فهو كمرض حادث وان وهب عند ما اصابه ذلك ومات من ايامه فهو من الثلث اذا صار صاحب فراش لانه يخاف مه الموت ولهذا يتداوي فيكون مرض الموت"

(نیز ہدایہ میں ہے مقعد (جو اٹھ نہیں سکتا ) مفلوج(جو فالج زدہ ہو)اشل( جواشل ہو گیا ) اور مسلول (جو سل کے مریض میں مبتلا ہو) کو جب ان امراض میں ایک لمبی مدت ہو چکی ہو اور فی الحال اس کے  مرجانے کا خوف نہ ہو تو اس کا ہبہ پورے مال سے معتبر ہے کیوں کہ جب زمانہ دراز ہوا تو یہ مرض من جملہ اس کی طبائع کے ایک طبیعت  بن گیا اسی وجہ سے وہ اس کے دواو علاج میں مشغول نہیں ہو تا ہے اور اگر وہ اس ہبے کے بعد صاحب فراش بن گیا تو وہ مرض حادث کے مانند سمجھا جائے گا اور اگر اس نے اس مرض (گھٹیااور فالج وغیرہ) کے لاحق ہونے کے وقت ہبہ کیا اور انھیں ایام میں مر گیا (یعنی مرض میں زمانہ دراز نہیں ہوا) تو تہائی سے اس کا اعتبار ہو گا بشرطیکہ وہ صاحب فراش بن چکا ہو کیوں کہ یہ ایسا مرض ہوا جس سے موت کا خوف ہے اسی وجہ سے وہ دوا کرنے میں مشغول ہوتا ہے تو یہ مرض الموت کے افراد میں سے ہے)


[1] ۔سنن النسائي رقم الحدیث (3689)سنن ابن ماجه رقم الحدیث (2378)

[2] ۔ سنن ابي داؤد (3539)سنن الترمذي (2132)سنن النسائي رقم الحدیث (3690)سنن ابن ماجه رقم الحدیث (2377)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1668)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:654

محدث فتویٰ

تبصرے