السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ایک شخص نے مرض الموت میں اپنے و ثیقہ ہبہ بالعوض اپنی بعض اولاد کے نام سے لکھا اور بعض اولاد کو بالکل محروم کیا پس یہ ہبہ بالعوض بنام بعض اولاد کے صحیح ہوا یا نہیں؟
2۔اگر کسی شخص نے حالت مرض الموت میں بعض اولاد اپنی یا کسی غیر کو ہبہ بالعوض کیا تو یہ ہبہ اس واہب کے کل مال میں جاری ہو گا یا واہب کے ثلث مال ہے؟ واہب نے اپنے کل مال کو بعض ورثا کو اپنے ہبہ کردیا اور بعض کو بالکل محروم کیا ہے۔
3۔ہبہ بالعوض میں قرآن مجید کا ہبہ کرنا صحیح ہو گا یا نہیں؟
جواب ان تینوں سوالوں کا کتب فقہ حنفیہ سے بقید مطبع و صفحہ کتاب کے دیا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔اگر یہ ہبہ باجازت باقی ورثہ کے ہوا ہے تو صحیح ہوا ورنہ صحیح نہیں ہوا اس لیے کہ ہبہ بالعوض ایک فرد ہبہ ہے جو مرض الموت میں واقع ہوا ہے اور ہبہ جو مرض الموت میں واقع ہو حکماً وصیت ہے بس ہبہ مذکورہ حکماً وصیت ہے اور وصیت وارث کے لیے بلا اجازت ورثہ صحیح نہیں ہے اور اولاد وارث ہے پس ہبہ مذکور بغیر اجازت باقی اولاد کے (اور اگر واہب کا کوئی اور بھی وارث ہو تو بغیر اجازت اس وارث کے بھی) صحیح نہیں ہے فتاوی قاضی خاں (506/4مطبوعہ کلکتہ ) میں ہے ۔
"لا يجوز الوصية للوارث عندنا الا ان يجيزها الورثة"
"لو وهب شئيا لوارثه في مرضه او اوصيٰ له بشئي وامر بتنفيذه قال الشيخ الامام ابو بكر محمد بن الفضل رحمة الله عليه كلاهما باطلان فان اجاز بقية الورثة مافعل وقالوا:اجزنا ما امر به الميت ينصرف ‘ينصرف الاجازة الي الوصية لانها مامورة لا الي الهبة ولو قال الورثة:اجزنا ما فعله الميت صحت الاجازة في الهبة والوصية جميعا"(ایضاًص513)
(ہمارے نزدیک وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں ہے الایہ کہ دوسرے وارث اس کی اجازت دیں اگر وہ اپنے مرض میں وارث کو کوئی چیز ہبہ کرے یا اس کے حق میں کسی چیز کی وصیت کرے اور اس کے نفاذ کا حکم دے تو شیخ امام ابو بکر محمد بن الفضل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں (ہبہ و وصیت ) باطل ہوں گی پھر اگر باقی وارث اس کے فعل کی اجازت دے دیں اور کہیں کہ میت نے جو حکم دیا ہے ہم نے اس کی اجازت دے دی تو یہ اجازت وصیت کی طرف لوٹے گی کیوں کہ وہی مامور ہے نہ کہ ہبہ کی طرف اور اگر وارث کہیں کہ میت نے جو کہا ہے ہم نے اس کی اجازت دے دی تو پھر یہ ہبہ اور وصیت دونوں میں اجازت صحیح ہوگی)
ایضاً فتاوی عالمگیری (168/6مطبوعہ کلکتہ ) میں ہے
"اذا اقر مريض لامراة بدين او اصيٰ لها بوصية او وهب لها هبة ثم تزوجها ثم مات جاز الاقرار عندنا وبطلت الوصية والهبة"
(جب کو ئی مریض کسی عورت کے لیے قرض کا اقرار کرے یا اس کے حق میں کوئی وصیت کرے یا اسے کوئی ہبہ دے پھر وہ اس عورت سے شادی کرے اور پھر فوت ہو جائے تو ہمارے نزدیک اس کا (قرض کا) اقرارتو درست ہو گا جب کہ ہبہ اور وصیت باطل ہوگی)
"الدرالمختار "برحاشیہ طحطاوی (218/4مطبوعہ مصر) میں ہے۔
وتبطل هبة المريض ووصيته لمن نكحها بعدهما اي بعد الهب
(ایسے مریض کا ہبہ اور وصیت اس عورت کے حق میں باطل ہوں گے جس سے اس نے ہبہ اور وصیت کے بعد شادی کر لی ہو۔کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ وصیت کے جواز کے لیے موصی لہ کا وارث ہو نا یا وارث نہ ہونا موت کے وقت معتبر ہے نہ کہ وصیت کے وقت کیوں کہ وہ ایک ایسی چیز کو واجب کرتا ہے جس کی نسبت موت کے بعد کی طرف ہے اور اس وقت وہ وارث ہو گی وارث کے حق میں وصیت بغیر (دیگر وارثوں کی) اجازت کے باطل ہے رہا ہبہ تو اگر چہ بظاہر اس کی اجازت ہے لیکن حکماً وہ اس چیز کی طرح ہے جس کی نسبت موت کے بعد کی طرف ہے کیوں کہ وہ وصیتوں کے قائم مقام ہے اس لیے کہ وہ ایسا تبرع ہے جس کا حکم موت کے وقت لاگو ہو تا ہے)
2۔اگر واہب نے یہ ہبہ اپنی بعض اولاد کو یا کسی دیگر وارث کو کیا ہے تو ہبہ مذکوربغیر اجازت بقیہ ورثہ باطل و ناجائز ہے نہ یہ واہب کے کل مال میں جاری ہو گا اورنہ ثلث مال میں جیسا کہ جواب اول سے ظاہر ہوا اور اگر واہب نے یہ ہبہ کسی غیر وارث کو کیا ہے تو درصورت عدم اجازت ورثہ کے اس ہبہ کو یہ ہبہ واہب کے صرف ثلث مال میں جاری ہو گا نہ کہ کل مال میں اس لیے کہ ہبہ مذکورحکماً وصیت ہے جیسا کہ جواب سوال اول میں مذکورہوا وصیت بلا اجازت ورثہ صرف ثلث مال میں جاری ہوتی ہے نہ کہ کل مال میں اور نہ زائد از ثلث مال میں فتاوی عالمگیری (139/6مطبوعہ کلکتہ ) میں ہے۔
"تصيح الوصية لاجنبي من غير اجازة الورثة كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد علي الثلث الا ان يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار.....كذا في الهداية"[1]
(وارثوں کی اجازت کے بغیر اجنبی کے لیے وصیت کرنا صحیح ہے تبیین میں ایسے ہی ہے یہ وصیت ایک تہائی مال سے زیادہ کی جائز نہیں الایہ کہ اس کے وارث اس کی موت کے بعد اجازت دیں اس حال میں کہ وہ بڑے ہوں الخ ہدایہ میں ایسے ہی ہے) "الدرالمختار "برحاشیہ طحطاوی (315/4مطبوعہ مصر) میں ہے۔
"وتجوز بالثلث للاجنبي عند عدم المانع وان لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه الا ان يجيز ورثته بعد موته"
(مانع نہ ہونے کی صورت میں اجنبی کے لیے تہائی مال کی وصیت کرنا جائز ہے اس سے زیادہ کی نہیں اگر چہ وارث اس کی اجازت نہ دیں ہاں اگر وارث اس کی موت کے بعد اس(تہائی سے زیادہ وصیت)کی اجازت دے دیں۔(تو جائز ہے)
3۔ہبہ بالعوض میں بالخصوص قرآن مجید کو عوض میں دینا تو کتب فقہ حنفیہ میں میری نظر سے نہیں گزرا ہے لیکن کتب فقہ حنفیہ میں یہ امر مصرح ہے کہ ہبہ بالعوض میں عوض شے یسیر بھی کافی ہے اور شے یسیر میں قرآن مجید بھی داخل ہے فتاوی قاضی خاں (187/4مطبوعہ کلکتہ ) میں ہے۔ "یصح التویض بشیء یسیر اوکثیر"(عوض میں تھوڑی یا زیادہ شے درست ہے فتاوی عالمگیری (551/6مطبوعہ کلکتہ ) میں ہے۔
"ولو عوض عن جميع الهبة قليلا كان العوض او كثيرا فانه يمنع الرجوع"
(اگر وہ تمام ہبہ کے عوض دے دے وہ عوض تھوڑا ہو یا زیادہ تو وہ رجوع کو روک دیتا ہے)
[1] ۔الھدایة (232/4)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب