السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔کیا ایک ہی شخص مضارب اور رب المال بھی ہو سکتا ہے؟
2۔کیا مضارب کو اختیار ہے کہ خود تجارت میں محنت نہ کرے اور کسی نوکر پر کارخانہ کو چھوڑ دے اور جو شرط یا سمجھوتہ پہلے تھا اسی کے موافق منافع لینے کا بھی مستحق ہو گا؟
3۔کیا مضارب پر واجب ہے کہ مال ادھار بیچا ہے اس کو وصول کرے اور وصول نہ کرسکے یا نہ کرائے تو اپنے پاس سے ادا کرے یا اس کو ادھار کا صرف حساب بتا دینا کافی ہے اور رب المال کو واجب ہو گا کہ دام وصول کرتا پھرے؟
4۔اگر امضارب نے سارا مال فروخت کر ڈالا اس طور پر کہ جو رقم نقد آتی رہی اس کو کھالیا کرتا تھا اور جو ادھار بیچتا تھا اس کو وصول نہیں کرتا تھا یہاں تک کہ ساراراس المال غائب ہو گیا تو ایسی صورت میں رب المال اپنی رقم کس سے وصول کرے گا؟
5۔اگر مضارب نے بجائے اس کے کہ خود دیکھ بھال کیا کرتا اور تجارت میں کوشش کرتا کسی آدمی کو مقرر کردیا جس نے سارا مال بیع کر کے کھالیا یا ادھار پر فروخت کر ڈالا تو ایسی صورت میں تاوان شرع شریف دلواتی ہے یا نہیں؟
6۔کیامضارب کایہ کہہ دینا کہ کچھ نفع نہیں ہو تا ہے اور لہنا یعنی بقایا بہت پڑگیا ہے رب المال اگر چاہے تو مال موجود اور لہنا وغیرہ کا حساب لے لے ۔ اس کی براءت کے لیے کافی ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہو سکتی؟
7۔کیا اگر مضارب کبھی نفع نہ دے اور خود برابر لیتا رہے اور بعد چند سال کے جب مالک اپنے مال اور منافع کا مطالبہ کرے تو یہ کہہ دے کہ دکان میں مال بہت کم اور بے میل رہ گیا ہے اور بہت لہنا پڑگیا ہے تو اس سے اس کی براءت ہو سکتی ہے یا شرع شریف اس سے اصل منافع دلوائے گی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ایک ہی شخص مضارب اور رب المال نہیں ہو سکتا۔
"لان المضاربة تنعقد شركة علي مال رب المال وعمل المضارب ولا مال ههنا للمضارب فلو جوزنا يؤدي الي قلب الموضوع"(ھدایة 266/3مطبع یوسفی)
(کیوں کہ مضاربت میں شرکت اسی وقت منعقد ہوتی ہے جب مال والے کی طرف سے مال ہو اور مضارب کی طرف سے کام ہو اور یہاں مضارب کی طرف سے کچھ مال نہیں ہے پس اگر ہم اس کو جائز قراردیں تو لازم آئے گا کہ مضاربت جس معنی کے لیے موضوع ہے وہ الٹ گیا)
2۔مضارب کو اختیار ہے کہ خود تجارت میں محنت نہ کرے اور کسی نوکر پر کارخانہ کو چھوڑدے اور جوشرط اور سمجھوتہ پہلے تھا اسی کے موافق منافع لینے کا بھی مستحق ہو گا بشرطیکہ عقد مضاربت میں یہ قید نہ ہو کہ مضاربت خود تجارت میں محنت کرے اور کسی نوکر پر کارخانہ کو نہ چھوڑ دے۔
"واذا صحت المضاربة مطلقة جاز للمضارب ان يبيع ويشتري ويوكل ويسافر ويودع لاطلاق العقد المقصود منه الاسترباح ولا يتحصل الا بالتجارة فينتظم صنوف التجار وما هو من صنيع التجار والتوكيل من صنيعهم"(۔هدایة (257/3)
(جب مضاربت مطلقہ صحیح ہے تو مضارب کے لیے جائز ہے کہ وہ فروخت کرے یاخریدے کسی کو اس کام کا وکیل بنائے مال ساتھ لے کر سفر کرے اور مال کسی کے پاس ودیعت رکھے کیوں کہ عقد مضاربت تو مطلق ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ نفع حاصل کیا جائے اور نفع تو تجارت ہی سے حاصل ہوتا ہے لہٰذا یہ عقد تجارت کی تمام اقسام کو شامل ہے اور تجارت جو کچھ کیا کرتے ہیں یہ ان کی تجارت ہو گی اور حال یہ ہے کہ خریدوفروخت کے لیے وکیل کرنا بھی تاجروں کے کاموں سے ہے)
"ويملك المضارب في المطلقة البيع(الي قوله) والايداع والرهن والارتهان والاجارة والاستيجار"[1](تنویرالابصار)
(اور مضارب مضاربت مطلقہ میں بیع کرنے ایداع رہن دینے لینے اجارۃ اور استیجارکامالک ہے)
والا صل ان التصرفات في المضاربة ثلاثه اقسام:قسم هو من باب المضاربة وتوابعها فيملكه من غير ان يقول له:اعمل ما بدالك كالتوكيل بالبيع والشراء والرهن والارتهان والاستيجار"(ردالمختار485/4)
(اصل یہ ہے کہ مضاربت میں تصرفات کی تین قسمیں ہیں جن میں سے ایک قسم مضاربت اور اس کے توابع کے باب سے ہے لہٰذا وہ مال والے کے یہ کہے بغیر(اس مال کے ساتھ) جو مرضی کرو"اس میں تجارت کرنے کا مالک ہو گا جیسے تو وکیل بیع و شراءرہن ارتہان اور استیجار ہے)
اس مسئلے کی ایک نظیر اجارہ کایہ مسئلہ ہے۔
"واذا شرط علي الصانع ان يعمل بنفسه فليس له ان يستعمل غيره(الي) وان اطلق له العمل فله ان يستاجر من يعمل لان لان المستحق عمل في ذمته ويمكن استيفاءه بنفسه وبالا استعانة بغيره بمنزلة ايفاء الدين"(۔هدایة (294/3)
(اگر مستاجر نے کاری گرکے ذمے یہ شرط عائد کی ہو کہ وہ بذات خود کام کرے تو کاریگر کو یہ اختیار نہیں ہو گاکہ وہ دوسرے سے یہ کام لے اگر مستاجر نے اس کو کام کے لیے مطلقاً اجارہ دیا تو اسے اختیار ہے کہ وہ کسی اور سے کام کروادے کیونکہ اس کے ذمے کام کا استحقاق ہے اور اس کو پورا کرنا اس طرح بھی ممکن ہے کہ وہ بذات خود یہ کام کرے اور اس طرح بھی کہ وہ کسی دوسرے کے ذریعے سے کرے اور یہ قرض ادا کرنے کی طرح ہے)
3۔اگر مضارب اور رب المال عقد مضاربت فسخ کردیں اور مضارب اس مضاربت میں (ربح ) نفع حاصل کر چکا ہو تو اس صورت میں مضارب پر واجب ہے کہ جو مال ادھاربیچا ہے اسکا دام وصول کرے اور اگر وصول نہ کرے تو حاکم اس کو وصول کرنے پر مجبور کرے اور اگر مضارب نے اس مضاربت میں ہنوز ربح حاصل نہیں کیا ہےتو اس پر وصول کرنا واجب نہیں ہے۔ہاں اس پر واجب ہے کہ رب المال کو دام وصول کرنے میں اپنا وکیل کردے کہ رب المال خود وصول کر لے۔
"واذا افترقا وفي المال ديون وقد ربح الضارب فيه اجبره الحاكم علي اقتضاء الديون لانه بمنزلة الاجير والربح كالاجر له وان لم يكن له ربح لم يلزمه الاقتضاء لانه وكيل محض والمتبرع لا يجبر علي ايفاء ما يتبرع به ويقال له: وكل رب المال في الاقتضاء لان حقوق العقد ترجع الي العاقد فلا بد من توكيله وتوكله كيلا يضيع حقه"۔هدایة (294/3)
(اگر وہ جداہوئے حالانکہ مضاربت میں لوگوں پر قرضے ہیں اور مضارب نے اس میں نفع بھی کمایا ہے تو حاکم اس کو ان قرضوں کے تقاضے پر مجبور کرے گا کیوں کہ وہ (مضارب) بمنزلہ اجیر کے ہے اور نفع اس کی اجرت کے مثل ہے اگر مضارب کے لیے نفع نہ ہو تو لوگوں سے قرضے کا تقاضا کرنا اس پر لازم نہیں ہے اس لیے کہ وہ تو محض وکیل بلا اجرت ہے اور جس نے بطور احسان کوئی کام کیا اس پر اس کے پورا کرنے کے لیے جبرنہیں ہو سکتا ہے لیکن مضارب کو یہ حکم دیا جائے گا کہ وہ مال والے کو تقاضے کے لیے وکیل کر دے کیوں کہ جو شخص جس معاملے کا عقد کرے تو اس معاملے کے حقوق اسی عاقد کی طرف لوٹتے ہیں تو اس کا وکیل کرنا یا وکالت قبول کرنا لازم ہے تاکہ مالک کا حق ضائع نہ ہو)
4۔ ایسی صورت میں رب المال اپنی اس رقم کو جو مضارب کھا لیا کرتا تھا بقدر اصل و نفع رسدی کے بطور تاوان مضارب سے وصول کرے کیونکہ مضارب اس صورت میں غاصب پر تاوان واجب ہے۔
"واذا خالف(المضارب) كان غاصبا لوجود التعدي منه علي مال غيره"(هدایة (255/3)
(اگر اس(مضاربب) نے مال والے کے حکم کی مخالفت کی تو وہ غاصب شمار ہو گا کیوں کہ اس کی طرف سے غیر کے مال پر تعدی پائی گئی ہے)
"ثم ان كان(الغصب) مع العلم فحكمه الماثم والمغرم وان كان بدونه فالضمان لانه حق العبد فلا يتوقف علي قصده ولا اثم لان الخطاء موضوع"(هدایة (370/3)
(پھر اگر اس نے جان بوجھ کر یہ (غصب ) کیا ہوتو اس کا حکم یہ ہے کہ غاصب گناہ گار اور ضامن ہوگا اور اگر بغیر جانے ہوتو حکم یہ ہے کہ ضامن ہوگا کیوں کہ یہ بندے کا حق ہے تو اس کے قصد پر موقوف نہیں ہے اور اس پر گناہ نہیں ہو گا اس لیے غلطی سے جو فعل سرزد ہو اس کا گناہ اٹھادیا گیا ہے)
اگر مضاربت فسخ ہو چکی ہے اور مضارب اس مضارب میں ربح حاصل کر چکاتھا تو مضارب پر واجب ہے کہ جو مال ادھار بیچا ہے اس کا دام وصول کردے اور اگر وصول نہ کرے تو حاکم اس کو وصول کردینے پر مجبور کرے۔ اگر مضارب نے اس مضاربت میں ہنوز ربح حاصل نہیں کیا ہے تو اس پر واجب ہے کہ رب المال کو وصول کرنے میں اپنا وکیل کردے کہ رب المال خود وصول کرلے ۔جیسا کہ جواب نمبر(3)میں گزراہے واللہ تعالیٰ اعلم۔
5۔ایسی صورت میں مضارب سے تاوان شرع شریف دلواتی ہے بشرطیکہ مضاربت میں قید ہو کہ مضارب اس صورت میں غاصب ہے اور غاصب پر تاوان واجب ہے جیسا کہ جواب (4)میں گزراہے۔
اگر عقد مضاربت میں قید مذکورنہ ہو تو ایسی صورت میں مضارب سے تاوان شرع شریف دلواتی ہے کیونکہ مضارب اس صورت میں امین ہے اور امین پر ضمان (تاوان) نہیں ہے۔
"الوديعة امانته في يد المودع اذا هلكت لم يضمنها"(هدایة 271/3)
(ودیعت مستودع کے پاس ایک امانت ہوتی ہے کہ اگر وہ تلف ہوجائے تو مستودع اس کا ضامن نہیں ہوتا ہے۔
6۔ اگراور رب المال عقد مضاربت فسخ کردیں اور مضارب اس مضاربت میں ربح حاصل کر چکا ہو تو اس صورت میں مضارب کا صرف اس قدر کہہ دینا جو مندرجہ سوال ہے اس براءت کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس پر ذمہ داری عائد ہوگی وہ وہ یہ کہ لہنا پڑگیا ہے تو اور اگر وصول نہ کرے تو حاکم اس کو وصول کرنے پر مجبور کرے اور اگر مضارب نے اس مضاربت میں ربح حاصل نہیں کیا ہےتو اس پر وصول کردینا واجب نہیں ہے۔ہاں اس پر واجب ہے کہ رب المال کولہنا وصول کرنے میں اپنا وکیل کردے کہ رب المال خود وصول کر لے۔جیسا کہ جواب (3)میں گزرا ہے۔
7۔اس نمبر کا جواب (4)کے جواب میں ادا ہو چکا ہے ملاحظہ ہو۔
[1] ۔الدرالمختار(649/5)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب