السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید اپنا روپیہ عمرو کو واسطے تجارت کے اس شرط پر دے کر سفر حج کو چلا گیا کہ اس روپے سے اسی شہر میں خریدو فروخت کرنا دوسرے شہر میں ہرگز نہ کرنا اس میں جو نفع ہوگا نصف تمھارا اور نصف ہمارا ہو گا لیکن عمرو نے زید کے کہنے کے خلاف دوسرے شہر میں تجارت کیا جب زید سفر حج سے واپس آیا عمرو نے زید سے کہا کہ تمھارا کل روپیہ نقصان ہوگیا چونکہ عمرو اس وقت محض مفلس شخص تھا زید اس سے کیا لیتا مگر اب زمانہ بتیس سال پر عمرو بہت مالدار ہوگیا ہے اس صورت میں زید عمرو سے اپنا وہ روپیہ لینے کا مستحق ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
س صورت میں زید عمرو سے اپنا وہ روپیہ لینے کا مستحق ہے:
’’وإن خص له رب المال التصرف في بلد بعینه أو في سلعة بعینھا لم یجزله أن یتجاوزھا (إلی قوله) فإن خرج إلی غیر تلک البلدة فاشتری ضمن۔۔ الخ‘‘[1]کذا في الھدایة
[اگر مال والا کسی خاص شہر اور خاص قسم کے سامان میں تجارت کرنے کی قید لگائے تو (تاجر کو) اس سے تجاوز کرنا جائز نہ ہوگا۔۔۔ پس اگر وہ اس شہر سے کسی اور شہر میں (بغرض تجارت) جائے اور من جملہ سامان کے خریداری کرے تو ضامن ہو گا]
وفي المنتقیٰ: ’’وعن حکیم بن حزام صاحب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أنه کان یشترط علی الرجل إذا أعطاہ مالا مقارضة، یضرب له به أن لا تجعل مالي في کبد رطبة، ولا تحمله في بحر، ولا تنزل به بطن سیل، فإن فعلت شیئا من ذلک فقد ضمنت مالي۔ رواہ الدارقطني‘‘ انتھی وفي نیل الأوطار: ’’الأثر أخرجه أیضاً البیھقي، وقویٰ الحافظ إسنادہ‘‘[2]
[منتقیٰ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ کسی آدمی کو تجارت کے لیے مال دیتے تو اس پر یہ شرط عائد کرتے کہ تم میرے مال سے جاندار چیزوں کی تجارت نہیں کرو گے، نہ تم اسے سمندری سفر پر لے جاؤ گے نہ سیلابی زمین میں جاؤ گے۔ اگر تم نے ان کاموں میں سے کوئی کام کیا تو تم میرے مال کے ضامن ہوگے۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور نیل الاوطار میں ہے کہ اس اثر کو بیہقی نے بھی بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے]
[1] الھدایة (۳/ ۲۰۴)
[2] نیل الأوطار (۵/ ۳۱۸) نیز دیکھیں: نیل الأوطار (۳/ ۶۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب