سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(379) کیا وقف علی الاولاد جائز ہے؟

  • 23144
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1909

سوال

(379) کیا وقف علی الاولاد جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وقف علی الاولاد مذہب اہل حدیث میں جائز ہے یا نہیں ؟زمانہ مبارک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں وقف وقف علی الاولاد وقوع میں آیا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔جائز ہے اس واسطے کہ حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اراضی بنی النضیر کو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بالخصوص عطا فرمایا تھا اپنے اہل پر وقف فرمایا تھا جس میں آپ کی اولاد طاہرہ بھی داخل ہیں اور آپ ان کو اراضی مذکورہ کے غلہ (محاصل و پیداوار ) میں سے ہمیشہ دیا کیے۔پھر حضرت رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد آپ کے جانشین حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی عہد میں یہی کرتے رہے پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد میں بھی ایسا ہی کرتے رہے اور باوجود دعوی وارثین کے مدعیان وراثت کو ان دونوں صاحبوں نے وراثت کی ڈگری نہیں دی اور عذر یہی پیش کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اراضی مذکورہ کو مع دیگر اراضی فدک و خیبر کے وقف فرمایا ہے چنانچہ فرمایا:

"لا نورث ما تركنا صدقة"[1]

(ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے)

پھر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے عہد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی درخواست پر ان دونوں صاحبوں کو اراضی مذکورہ موقوفہ کا متولی مقرر کردیا پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تنہا متولی رہے پھر حضرت زید بن حسن پھر حضرت عبد اللہ بن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یکے بعد دیگر اراضی مذکورہ کے متولی رہے یہاں تک کہ بنی العباس نے اپنے عہد میں خود اس کی تولیت لی صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے۔

"حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أخبرته أن فاطمة عليها السلام ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم سألت أبا بكر الصديق بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله عليه فقال لها أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا نورث ما تركنا صدقة فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرت أبا بكر فلم تزل مهاجرته حتى توفيت وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر قالت وكانت فاطمة تسأل أبا بكر نصيبها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر وفدك وصدقته بالمدينة فأبى أبو بكر عليها ذلك وقال لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به فإني أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلى علي وعباس وأما خيبر وفدك فأمسكها عمر وقال هما صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم كانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه وأمرهما إلى من ولي الأمر قال فهما على ذلك إلى اليوم قال أبو عبد الله اعتراك افتعلت من عروته فأصبته ومنه يعروه واعتراني" [2] 

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مطالبہ کیا تھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ترکے سے ان کو ان میراث کا حصہ دلایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فے کی صورت میں دیا تھا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے انھیں کہا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا "ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے۔"(عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے) کہا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خیبر فدک اور مدینے کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے کیا تھا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان اس سے انکار کیا تھا انھوں نے کہا میں کسی بھی ایسے عمل کو نہیں چھوڑسکتا جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی زندگی میں کرتے رہے ہوں میں ایسے ہر عمل کو ضرورکروں گا ۔مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کوئی بھی عمل چھوڑا تو میں حق سے منحرف ہو جاؤں گا ۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مدینے کا صدقہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو دے دیا)

قال عباس: يا أمير المؤمنين! اقض بيني وبين هذا الكاذب الآثم الغادر الخائن. فقال القوم: أجل. يا أمير المؤمنين! فاقض بينهم وارحهم): فقال مالك بن أوس: يخيل إلي أنهم قد كانوا قدموهم لذلك (فقال عمر: اتئدا. أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض! أتعلمون أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال) لا نورث. ما تركنا صدقة (قالوا: نعم. ثم أقبل على العباس وعلي فقال: أنشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض! أتعلمان أن رسول الله  صلي الله عليه وسلم قال لا نورث. ما تركناه صدقة (قالا: نعم). فقال عمر: إن الله عز وجل كان خص رسوله  صلي الله عليه وسلم بخاصة لم يخصص بها أحدا غيره. قال: ﴿ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ [59 /الحشر/7] (ما أدري هل قرأ الآية التي قبلها أم لا) قال: فقسم رسول الله  صلي الله عليه وسلم بينكم أموال بني النضير. فوالله! ما استأثر عليكم. ولا أخذها دونكم. حتى بقي هذا المال. فكان رسول الله  صلي الله عليه وسلم يأخذ منه نفقة سنة. ثم يجعل ما بقي أسوة المال. ثم قال: أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض! أتعلمون ذلك؟ قالوا: نعم. ثم نشد عباسا وعليا بمثل ما نشد به القوم: أتعلمان ذلك؟ قالا: نعم. قال: فلما توفي رسول الله صلي الله عليه وسلم قـال أبو بكر: أنا ولي رسول الله صلي الله عليه وسلم. فجئتما، تطلب ميراثك من ابن أخيك، ويطلب هذا ميراث امرأته من أبيها. فقال أبو بكر قال: رسول الله صلي الله عليه وسلم ( ما نورث. ما تركنا صدقة (فرأيتماه كاذبا آثما غادرا خائنا، والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق. ثم توفي أبو بكر. وأنا ولي رسول الله صلي الله عليه وسلم وولي أبا بكر فرأيتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني بار راشد تابع للحق فوليتها ثم جئتني أنت وهذا. وأنتما جميع وأمركما واحد. فقلتما: ادفعها إلينا. فقلت: إن شئتم دفعتها إليكما على أن عليكما عهد الله أن تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلي الله عليه وسلم. فأخذتماها بذلك. قال: أكذلك؟ قالا: نعم. قال: ثم جئتماني لأقضي بينكما. ولا ، والله! لا أقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة. فإن عجزتما عنها فرداها إلي» (رواه مسلم1757)[3]

(عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا اے امیر المومنین !میرے اور ان (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ) درمیان فیصلہ کر دیجیے ان دونوں کا جھگڑا اس جائیداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بنو نضیر کے اموال میں سے (خمس کے طور پر) عنایت فرمائی تھی۔ اس پر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے کہنے لگے۔اے میرے المومنین !ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمادیجیے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے آرام دیجیے ۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا : میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے اس سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی؟ان لوگوں نے کہا (جی ہاں !)آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ فرمایا تھا اب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم دونوں کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں ؟ ان دونوں نے بھی کہا (جی ہاں!)آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بے شک ایسا فرمایا ہے۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا اب میں آپ لوگوں کو اس معاملے کی تفصیل سے آگاہ کرتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت (فے)کا ایک مخصوص حصہ مقرر کردیا ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیاتھا پھر انھوں نے اس آیت کی تلاوت کی۔

﴿وَما أَفاءَ اللَّهُ عَلىٰ رَسولِهِ مِنهُم فَما أَوجَفتُم عَلَيهِ مِن خَيلٍ وَلا رِكابٍ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلىٰ مَن يَشاءُ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٦﴾... سورة الحشر

(اور جو (مال ) اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایا تو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اورنہ اونٹ اور لیکن اللہ اپنے رسولوں کو مسلط کر دیتا ہے جس پر چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے)

تو یہ حصہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے خاص رہا۔ اللہ کی قسم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تم کو چھوڑ کر یہ(جائیداد ) اپنے لیے جمع کر کے نہ رکھی اور نہ اسے خاص اپنے خرچ میں لائے بلکہ تم ہی لوگوں کو دے دی اور تمھارے ہی کاموں میں خرچ کی۔ یہ جو جائدادبچ گئی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس میں سے اپنی بیویوں کا سال بھر کاخرچ لیا کرتے پھر اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے (یعنی سامان حرب و ضرب میں) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم یہ جانتےہو؟انھوں نے کہا جی ہاں۔ پھر انھوں نے علی و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو مخاطب کر کے کہا:میں تم دونوں کو بھی اللہ کی قسم دے کر لو پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو بھی اس کاعلم ہے؟

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا: میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خلیفہ ہوں لہٰذا انھوں نے اس(جائیداد ) کو لیا اور جس طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس میں مصارف کیا کرتے تھے وہ کرتے رہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بھی اپنے پاس بلالیا۔اب میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا نائب مقرر ہوں ۔ میری خلافت کو دوسال ہوگئے ہیں اور میں نے بھی اس (جائیداد ) کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس میں جو مصارف کیا کرتے تھے ویسے ہی میں بھی کرتا رہا ۔اللہ جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔

پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے کے لیے آئے اور بالا تفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا جناب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : آپ (اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ) کا دعویٰ پیش کرناتھا کہ انھیں والد کی میراث ملنی چاہیے میں نے تم دونوں سے عرض کردی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  خود فرما گئے کہ" ہم(رسولوں ) کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے۔" پھر مجھے مناسب لگا کہ میں ان (جائیدادوں) کو تمھارے  قبضے میں دے دوں تو میں نے تم دونوں سے کہا دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ تمھارے سپرد کردیتا ہوں لیکن اس عہد اور اس اقرارپر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی  حکومت کے شروع میں کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ یہ ہم کو دےدو۔ میں نے اس شرط پر دے دی۔(اے حاضرین عثمان اور ان کے ساتھی وغیرہ !)کہو میں نے یہ اس شرط پر ان کے حوالے کی یا نہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں پھر انھوں نے علی و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے کہا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں میں نے اس شرط پر یہ آپ کے حوالے کی ہیں یا نہیں ؟ انھوں نے کہا: ہاں (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے) فرمایا پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ کرنے والا نہیں ۔ ہاں !یہ اور بات ہے کہ اگرتم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر وہ میرے سپرد کردو میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا)

فتح الباری(144/2مطبوعہ انصاری ) پر ہے

"وكانت هذه الصداقة بيد علي منعها عباسا فغلبه عليها، ثم كانت بيد الحسن ثم بيد الحسين ثم بيد علي بن الحسين والحسن بن الحسن ثم بيد زيد بن الحسن وهي صدقة رسول صلي الله عليه وسلم حقا‘ وقال معمر:ثم كانت بيدعبدالله بن الحسن حتي ولي هؤلاء يعني بني العباس فقبضوها"انتهي

(یہ صدقہ (رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وقف شدہ جائیداد) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیرتولیت تھا انھوں نے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اسے روکا اور وہ تنہا اس متولی رہے پھر حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پھر حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پھر حسن بن حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پھر زید بن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یکے بعد دیگر ے اس کے متولی رہے یہ جائیدادرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے برحق صدقہ تھا معمر کا بیان ہے کہ پھر یہ جائیداد عبداللہ بن حسن کی زیر تولیت رہی حتی کہ بنو عباس نے اپنے عہد حکومت میں اس پر قبضہ کر لیا)

2۔زمانہ مبارک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں وقف علی الاولاد وقوع میں آیا ۔"نصاب الرایة فی تخریج احادیث الھدایة"(168/2) میں ہے۔

"وفي الخلافيات للبيهقي قال ابو بكر عبدالله بن الزبير الحميدي تصدق ابو بكر بداره بمكة علي ولده فهي الي اليوم وتصدق عمر بربعه عندالمروة وبالثنية علي ولده فهي الي اليوم وتصدق علي بارضه وداره بمصر وبامواله بالمدينة علي ولده فذلك الي اليوم وتصدق سعد بن ابي وقاص بداره بالمدينة وبداره بمصر علي ولده فذلك الي اليوم وعثمان برومة فهي الي اليوم وعمرو بن العاص بالوهط من الطائف وداره بمكة والمدينة علي ولده فذلك الي اليوم قال:ولا لا يحضرني كثير انتهي"

(امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ   کی خلافیات میں ہے کہ ابو بکرعبد اللہ بن زبیر الحمیدی نے کہا ہے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مکے میں اپنا گھر اپنی اولاد پر صدقہ (وقف) کیا لہٰذا وہ آج تک (وقف ) چلا آتا ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مردہ کے پاس اور ثنیہ میں واقع اپنا گھراپنی اولاد پر صدقہ کیا پس وہ آج تک چلا آتا ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مصر میں اپنی زمین اور اور گھر اورمدینے میں اپنے اموال اپنی اولاد پر صدقہ کردیے جو آج چلے آتے ہیں ۔سعد بن ابی وقاص نے مدینہ اور مصر میں واقع اپنے گھر اپنی اولاد پر صدقہ کردیے جو آج چلے آتے ہیں عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے رومہ(نامی کنواں وقف کیا) جو آج چلا آتا ہےعمرو بن عاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے طائف میں اپنی زمین اور مکہ و مدینہ میں اپنے گھر اپنی اولاد پر صدقہ کردیے جو آج یوں ہی چلے آتے ہیں

فتح الباری(41/11)میں ہے۔

"روي الدرامي في مسنده من طريق هشام بن عروة عن ابيه ان الزبير جعل دوره صدقه علي بنيه لا تباع ولا توهب ولا تورث"[4](انتھی)

(امام دارمی  رحمۃ اللہ علیہ   نے اپنی مسند میں ہشام بن عروہ کے واسطے سے روایت کیا ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ بلا شبہ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے گھر اپنی اولاد پر صدقہ (وقف) کردیے اس شرط پر کہ ان کو بیچا جائے گا ہبہ کیا جائے گا اور نہ بطوروراثت تقسیم کیا جائے گا)


[1] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث (2927)صحیح مسلم رقم الحدیث (1759)

[2] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (2926)صحیح مسلم رقم الحدیث (1759)

[3] صحیح البخاري رقم الحدیث (2927)

[4] ۔سنن الدارمي (518/2)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الوقف،صفحہ:594

محدث فتویٰ

تبصرے