سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(369) ایلا کے بعد رجوع کا طریقہ کار

  • 23134
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1585

سوال

(369) ایلا کے بعد رجوع کا طریقہ کار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص حالت غصہ میں اپنی بیوی کو کہے کہ اگر ہم تم سے نزدیکی کریں،یعنی تم سے مجامعت کریں تو ہم تمھارے جنے ہوئے ہوں،یا اگر کہے کہ تم ہماری ماں ہو۔ان دونوں صورتوں میں طلاق ہوگی یا نہیں اور کفارہ لازم ہوگا یا نہیں اور تاادائے کفارہ مجامعت کرسکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ ان دونوں صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی،بلکہ صورت ایلا کی یہاں قائم ہوگی،اس لیے کہ اس شخص نے اس کلام سے اپنی بیوی سے جماع کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے،اسی کا نام شریعت میں ایلاہے اور اس کا حکم یہ  ہے کہ اگر چار ماہ کے اندر قسم توڑدے،یعنی وطی کرلے تو کفارہ قسم لازم ہوگا،جس کی تفصیل سورۃ مائدہ رکوع(12) میں ہے اور اگر چار ماہ تک اس قسم کو نہیں توڑا اور نہ طلاق دیا تو عورت بذریعہ حاکم مطالبہ کرسکتی ہے،پس حاکم جبراً ر جوع کرائے گا یا طلاق دلائے گا۔

﴿لِلَّذينَ يُؤلونَ مِن نِسائِهِم تَرَبُّصُ أَربَعَةِ أَشهُرٍ فَإِن فاءو فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٢٢٦ وَإِن عَزَمُوا الطَّلـٰقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٢٧﴾... سورة البقرة

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبتَغى مَرضاتَ أَزو‌ٰجِكَ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١ قَد فَرَضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمـٰنِكُم...﴿٢﴾... سورة التحريم

"عن ابن عمررضي الله تعاليٰ عنه اذا مضت اربعة اشهر يوقف حتي يطلق ولا يقع عليه الطلاق حتي يطلق ويذكرذلك عن عثمان وعلي وابي الدرداء وعائشة واثني عشر من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم ذكره البخاري في كتاب الطلاق"[1]

’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ جب چار مہینے گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے پیش کیا جائےگا،یہاں تک کہ وہ طلاق دےدے اور اس وقت تک طلاق واقع نہ ہوگی جب طلاق نہ دی جائے۔عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بارہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہی منقول ہے۔اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الطلاق میں  ذکر کیا ہے۔‘‘


[1] ۔صحیح بخاری رقم الحدیث(4985)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:579

محدث فتویٰ

تبصرے