سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(368) کیا بیوی کو مائی کہنے پر کفارہ لازم آتاہے؟

  • 23133
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 635

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مائی کہہ بیٹھے تو کفارہ دینا لازم آئےگا یا نہیں؟در صورت اول کیا دینا ہوگا اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہوتو کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں کفارہ دینا قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے نہ کسی امام یا اور اکابر دین کے قول سے،کیونکہ کفارہ دینا ظہار کی حالت میں فرض ہے ،جیسا کہ باری تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالَّذينَ يُظـٰهِرونَ مِن نِسائِهِم ثُمَّ يَعودونَ لِما قالوا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مِن قَبلِ أَن يَتَماسّا ذ‌ٰلِكُم توعَظونَ بِهِ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ ﴿٣ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَينِ مُتَتابِعَينِ مِن قَبلِ أَن يَتَماسّا فَمَن لَم يَستَطِع فَإِطعامُ سِتّينَ مِسكينًا ...﴿٤﴾... سور ةالمجادلة

’’جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعہ تم نصیحت کیے جاتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے (3) ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمہ دو مہینوں کے لگاتار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔‘‘

ظہار کہتے ہیں اپنی بیوی کو کسی محرمات کے ایسے عضو سے تشبیہ دینے کہ جس کا دیکھنا اس مرد پر ہمیشہ حرام ہو،چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں مرقوم ہے:

"الظهار تشبيه الزوجة او جزء منها شائع او معبر به عن الكل بمالا يحل النظر اليه من المحرمة علي التابيد"[1]

’’ظہار کا لغوی معنی یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کوکہے:تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔فقہاء کی اصطلاح میں منکوحہ بیوی کو ہمیشہ کے لیے حرام رشتوں سے تشبیہ دینا ہے‘‘

تو کسی شخص کا اپنی بیوی کو ماں کہنا ظہار نہ ہوا،بلکہ قول لغو ہوا،اس سے کفارہ دینا نہیں لازم آئے گا ،ہاں بات مکروہ  البتہ ہے،جیسا کہ فتاویٰ عالم گیریہ میں ہے:

"لو قال لها: انت امي لا يكون مظاهرا وينبغي ان يكون مكروها"[2]

’’اگر وہ اس (اپنی بیوی) کوکہے کہ تو میری ماں ہے تو وہ ظہار کرنے والا شمار نہ ہوگا۔ہاں ایسا کرنا مکروہ ہے۔‘‘


[1] ۔الفتاویٰ الھندیة(505/1)

[2] ۔الفتاویٰ الھندیة(507/1)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:577

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ