السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہندہ کا شوہر عرصہ آٹھ برس سے مرض جنون میں مبتلا ہے کبھی کبھی دو ایک روز ہوش میں آجاتا ہے اور اس عرصہ میں علاج بھی بہت ہوا مگر کچھ صورت افاقہ نہیں ہے بلکہ اور ترقی پر ہے ہندہ بہت چاہتی ہے کہ کسی طور سے طلاق دے دے اسی لیے اپنا زیور دیتی ہے اور مہر بھی معاف کرتی ہے مگر وہ طلاق نہیں دیتا اور نہ کسی طور سے نان و نفقہ کا خبر گیراں ہو تا ہے ہندہ اس وقت میں بعمرپچیس سالہ ہے اور اپنے نان ونفقہ سے بہت عاجز و پریشان ہے اور نہ کوئی صورت گزران ہے نیز خوف اس بات کا ہے کہ ہندہ سے اس حالت پریشانی میں امور خلاف شرع صادر ہو جائیں اب ہندہ اپنے گلو خلاصی کے واسطے دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے تو شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں ہندہ کے واسطے دوسرا نکاح کر لینے کے جواز کی یہ صورت ہے کہ ہندہ حاکم شرع کے رو برو اس بات کی درخواست کرے کہ میرا شوہراس قدر مدت سے مرض جنون میں مبتلا ہے کبھی ہو ش میں آجا تا ہے میں اس سے طلاق چاہتی ہوں اسی لیے زیور دیتی ہوں اور مہر بھی معاف کرتی ہوں لیکن وہ نہ مجھے طلاق دیتا ہے نہ کسی طور سے میرے نان و نفقہ کی خبر لیتا ہے اب میری گزران کی کو ئی صورت اس کے نکاح میں رہ کر نہیں ہے لہٰذا درخواست کرتی ہوں کہ میرا نکاح فسخ کر دیا جا ئے کہ عدت کا زمانہ کاٹ کر کسی دوسرے سے اپنا نکاح کر لوں حاکم مذکورہندہ سے اس بات کا ثبوت لے کر کہ اس کا شوہر فی الواقع اس کے نان و نفقہ کی خبر نہیں لیتا نکاح مذکورفسخ کر کے حکم دے دے اور وہ بعد انقضائے عدت کے دوسرے سے اپنا نکاح کر لے۔
شامی(2/712چھاپہ مصر) میں فتاوی "قاری الھدایه" سے منقول ہے۔
"سأل عمن غاب زوجها ولم يترك لها نفقة . فأجاب : إذا أقامت بينة على ذلك وطلبت فسخ النكاح من قاض يراه ففسخ نفذ "
(اس عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا شوہر غائب ہواور اس کے لیے نفقہ نہ چھوڑ کر گیا ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ جب وہ اس پر حجت قائم کردے اور قاضی سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے جو اس معاملے کا بخوبی علم رکھتا ہو تو وہ نکاح فسخ کردے تو اس کا یہ فیصلہ نافذ ہو گا
ہدایہ ص585چھاپہ مصطفائی ) میں ہے۔
"قال عليه السلام : { لا ضرر ولا ضرار في الإسلام } "
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (پہلے پہل ) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا)
"نصب الرایة لا حدیث الھدایہ (383/2)میں ہے۔
"روى من حديث عبادة بن الصامت وابن عباس وأبي سعيد الخدري وأبي هريرة وأبي لبابة وثعلبة بن مالك وجابر بن عبد الله وعائشة "
میں کہتا ہوں کہ اسے عبادہ بن صامت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو لبابہ ثعلبہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا گیا ہے)اور کتاب "ظفر اللاضی بما یجب فی القضاء علی القاضی (ص127) میں ہے۔
"قد أمر الله سبحانه بإحسان عشرة الزوجات، فقال: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [النساء 19] ونهى عن إمساكهن ضرارًا، فقال: وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا [البقرة 231]، وأمر بالإمساك بالمعروف والتسريح بإحسان فقال: فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَـانٍ [البقرة 229]، ونهى عن مضارتهن، فقال: وَلاَ تُضَارُّوهُنَّ [الطلاق 6]. فالغائب إن حصل مع زوجته التضرر بغيبته جاز لها أن ترفع أمرها إلى حكام الشريعة، وعليهم أن يخلصوها من هذا الضرار القالع، هذا على تقدير أن الغائب ترك لها ما يقوم بنفقتها وإنها لم تتضرر من هذه الحيثية بل من حيثية كونها لا مزدوجة ولا أيمة، أما إذا كانت متضررة بعدم وجود ما تستنفقه مما تركه الغائب، فالفسخ لذلك على انفراده جائز ولو كان حاضرًا، فضلاً عن أن يكون غائبًا، وهذه الآيات التي ذكرناها وغيرها تدل على ذلك "
(اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ احسان سے رہنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کا فرمان ہے ’’ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو‘‘ اور انھیں تکلیف دینے کے لیے روکنے سے منع کیا ان کو اچھے طریقے سے رکھ لینے اور نیکی کے ساتھ چھوڑ دینے کا حکم دیا چنانچہ اس نے فرمایا :’’اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ نیز ان کو تکلیف دینے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:’’اور انھیں تکلیف نہ دو ۔اب جو شخص غائب ہے اور اس کے غیب رہنے کی وجہ سے اس کی بیوی کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حکام شریعت کے سامنے اپنا معاملہ پیش کرے اور ان حکام کے لیے جائز ہے کہ وہ اس مسلسل ضرر سے اس کو گلو خلاصی کرائیں۔
یہ اس صورت میں ہے جب غائب خاوند نے بیوی کے لیے وہ کچھ چھوڑا ہو جو اس کے نقطے کے قائم مقام بن سکے اب اس کو اس اعتبار سے تو تکلیف نہیں ہے بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ وہ شادی شدہ تصور ہوتی ہے نہ بے نکاحی لیکن جب عورت کو اس اعتبار سے ضرر پہنچے کہ غائب خاوند نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے وہ بطور نفقہ استعمال کر سکے تو خالی اس وجہ سے عورت کے لیے نکاح فسخ کروانا جائز ہے درآنحالیکہ اس کا خاوند حاضر ہو تو اس کے غائب ہونے کی صورت میں کیوں جائز نہیں ہو گا؟ مذکورہ بالا آیات اس پر دلالت کرتی ہیں ) نیز اسی صفحہ میں ہے۔
"إذا لم يترك لها ما يحتاج إليه فالمسارعة إلى تخليصها وفك أسرها ورفع الضرار عنها واجبة"
(جب شوہر نے اپنی بیوی کے لیے کچھ نہ چھوڑا ہو جس کی وہ محتاج ہے تو اس کی بیوی کی گلو خلاصی کرانے کے لیے جلدی کرنا اور اس کو آزاد کرا کر اس کی تکلیف کو دور کرنا واجب ہے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب