سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(340) طلاق معلق کا حکم

  • 23105
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2283

سوال

(340) طلاق معلق کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنی بی بی ہندہ کو طلاق صریح دیا پھر کچھ روز بعد رجعت کرلیا پھر مدت کے بعد طلاق کسی شرط پر موقوف کیا اور وہ شرط بھی وقوع میں آگئی اس کے بعد بھی رجعت کر لیا پھر مدت کے بعد ایک اور طلاق صریح واقع کیا۔ اب حاصل سوال یہ ہے کہ شرط والی طلاق اہل حدیث کے یہاں معتبر ہے یا نہیں؟ اگر معتبر نہیں ہے تو رجعت صحیح ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرط والی طلاق معتبر ہے یعنی اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو کسی شرط پر طلاق دے اور وہ شرط وقوع میں آجائے تو وہ طلاق اس کی زوجہ پر پڑجائے گی اس مسئلے میں اہل حدیث اور غیر اہل حدیث میں اختلاف نہیں ہے ہاں اختلاف ایک دوسرے مسئلے میں ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی اجتبیہ کو جو اس کی زوجہ نہیں ہے یوں کہے کہ اگر میں اس عورت سے نکاح کروں تو یہ طالق ہے یا عام طور پر یوں کہے کہ" میں جس عورت سے نکاح کروں وہ طالق ہے"اس مسئلے میں اہلحدیث اور غیر اہلحدیث میں اختلاف ہے اس مسئلے کے متعلق فتح الباری(ص339مصری) میں یہ عبارت ہے۔

"وهذه المسالة من الخلا فيات الشهيرة وللعلماء فيه مذاهب الوقوع مطلقا وعدم الوقوع مطلقا والتفصيل بين مااذا عين او عمم ومنهم من توقف فقال بعدم الوقوع  الجمهور وهو قول الشافعي وابن مهدي واحمد و اسحاق وداود واتباعهم"

نکلتی ہے اور یہ جانتا بھی ہوتا ہے کہ کیا بول رہا ہوں۔

اب جاننا چاہیے کہ اعلیٰ اور اوسط درجے کے غصے میں طلاق نہیں پڑتی اور ادنی درجے کے غصے میں پڑجاتی ہے جو شخص مذکورجس کی نسبت سوال ہے اپنے غصے کی حالت کو خیال کرے کہ جس وقت اس نے اپنی زوجہ کو طلاق دیا تھا اس وقت اس کا غصہ کس درجے کا تھا؟اگر اعلیٰ یا اوسط درجہ کا تھا تو طلاق نہیں پڑی اور اگر ادنیٰ درجہ کا تھا تو پڑگئی لیکن اگر عورت مدخولہ ہے تو بائن نہیں صرف رجعی طلاق پڑی جس میں عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے یعنی اگر اس قدر دو معتبر آدمیوں کت روبرو کہہ دے کہ میں نے اپنی زوجہ کو جو طلاق دیا تھا اسے میں نے واپس لے لیا تو اس کی زوجہ بدستور زوجہ باقی رہے گی اور اگر عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین بلا حلالہ پھر نکاح ہو سکتا ہے اگر عورت غیر مدخولہ ہے تو ایک طلاق بائن پڑگئی لیکن عدت کے اندر خواہ عدت کے بعد بتراضی طرفین بلا حلالہ پھر نکاح جائز ہے زادالمعاد(2044/2)میں ہے۔

"والغضب علي ثلاثة اقسام احدها ما يزيل العقل فلا يشعر صاحبه بماقال وهذا لا يقع طلاقه بلا نزاع والثاني ما يكون في مباديه بحيث لا يمنع صاحبه بما قال وهذا لا يقع طلاقه بلا نزاع والثاني ما يكون في مباديه بحيث لا يمنع صاحبه من تصور ما يقول وقصده فهذا يقع طلاقه الثالث ان يستحكم ويشتد به فلا يزيل عقله بالكلية ولكن يحول بينه وبين نيته بحيث يندم علي ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر وعدم الوقوع في هذه الحالة  قوي متج

(غصے کی تین قسمیں ہیں۔

 1۔ایک قسم وہ ہے جس میں عقل بالکل زائل ہو جاتی ہے اور اس وقت جو بات غضبناک آدمی کے منہ سے نکلتی ہے اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا بول رہا ہے اس میں تو بلا نزاع طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2۔دوسری قسم یہ ہے کہ اس قسم کے غصے کے دوران میں اس کو یہ خبر رہتی ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے اور کیا ارادہ رکھتا ہے؟اس صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔

3۔تیسری قسم یہ ہے کہ اس کا غصہ تو مستحکم اور شدید ہوتا ہے لیکن اس کی عقل بالکل زائل ہوتی البتہ وہ اس کے اور اس کی نیت کے درمیان اس طرح حائل ہو جاتی ہے کہ اسے غصے کے دور ہونے پر وہ اپنے کیے پر نادم ہو تا ہے۔یہ قسم محل نظر ہے اس حالت میں طلاق کا عدم وقوع قوی اور مناسب ہے)صحیح مسلم (4771چھاپہ دہلی ) میں ہے۔

"وَعَنِ ابْنِ عَبّاسٍ رَضىَ اللَّهُ عَنْهُمَا قالَ: "كان الطّلاقُ عَلى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلّى الله عَلَيْهِ وَسَلّم وأَبي بَكْرٍ وَسَنَتَينِ مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ طَلاقُ الثلاثِ واحِدةٌ،[1]الحدیث        

(طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ   سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بیان کیا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی)

صفحہ (478)میں ہے۔

"عن طاوس ان ابا الصهباء قال لابن عباس رضي الله عنه:اتعلم انماكانت الثلاث تجعل واحدة علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم وابي بكر وثلاثا من امارة عمر؟ فقال ابن عباس رضي الله عنه نعم"[2]

(طاؤس رحمۃ اللہ علیہ   سے مروی ہے بلا شبہ ابو الصہبا رحمۃ اللہ علیہ   نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے عرض کی کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی امارت کے تین سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمارہوتی تھی؟تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا: جی ہاں)

سورۃ بقرہ میں ہے

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

(اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں)


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1472)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1472)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:546

محدث فتویٰ

تبصرے