سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(339) غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

  • 23104
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1321

سوال

(339) غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنی زوجہ کو ایک جلسے میں غصے کی حالت میں یہ کہا کہ تم ہماری ماں ہواور ہم نے تم کو طلاق دیا طلاق دیا طلاق دیا لیکن یہ نہیں کہا کہ تین طلاق دیا اور اس کے دل میں بھی نہ تھا کہ طلاق بائن دیتے ہیں صرف غصے کی حالت میں زبان سے نکل گیا تھوڑی دیر بعد کے جب اس کے شوہر کا غصہ فروہوگیا تو اپنی زوجہ سے بات کرنا چاہا تب اس کی زوجہ نے یہ کہا کہ تم نے مجھ کو طلاق دیا ہے۔اب میں تمھاری بی بی نہیں ہوں اس کے شوہر نے کہا کہ میں غصے کی حالت میں تم کو طلاق دیا مگر فی الواقع میں نے طلاق نہیں دیا ہے شوہر اس کا ہمیشہ جاتا ہے مگر عورت قبول نہیں کرتی ہے اور کہتی ہے کہ بغیر فتوی کے میں تم سے مل نہیں سکتی اس صورت میں اس کی زوجہ پر طلاق بائن واقع ہو گا یا نہیں ؟اگر طلاق بائن واقع نہیں ہوا اور درمیان عدت کے طلاق دینے والا نے اس عورت کو زبان سے کہہ دیا کہ میں نے تم کو بی بی بنالیا تو ایسی حالت میں پھر دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے یا نہیں اور اب کونسی صورت ہے کہ زن و شو میں نکاح قائم رہے؟بینواتؤجروا!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے یہ جاننا چاہیے کہ غصے کے تین درجے ہیں۔

1۔اعلیٰ جس میں عقل بالکل زائل ہوجاتی ہے اور اس وقت جو بات آدمی کے منہ سے نکلتی ہے نہ اس کی اس کو خبر ہوتی کہ کیا کیا بول گیا اور نہ قصد وارادہ سے بولتا ہے۔

2۔اوسط : جس میں عقل تو بالکل زائل نہیں ہوجاتی لیکن قصد وارادہ نہیں رہتا اس وقت جو بات اس کے منہ سے نکلتی ہے بلا قصد وارادہ نکلتی ہے لیکن اس قدر اس کو خبر رہتی ہے کیا کہ بول گیا۔

3۔ادنی: جس میں نہ عقل زائل ہوتی ہے نہ قصد وارادہ اور اس وقت جو بات اس کے منہ سے نکلتی ہے بقصد وارادہ نکلتی ہے اور یہ جانتا بھی ہوتا ہے کہ کیا بول رہا ہوں۔

اب جاننا چاہیے کہ اعلیٰ اور اوسط درجے کے غصے میں طلاق نہیں پڑتی اور ادنی درجے کے غصے میں پڑجاتی ہے تو شخص مذکور جس کی نسبت سوال ہے اپنے غصے کی حالت کو خیال کرے کہ جس وقت اس نے اپنی زوجہ کو طلاق دیا تھا اس وقت اس کا غصہ کس درجے کا تھا؟اگر اعلیٰ یا اوسط درجہ کا تھا تو طلاق نہیں پڑی اور اگر ادنیٰ درجہ کا تھا تو پڑگئی لیکن اگر عورت مدخولہ ہے تو بائن نہیں صرف رجعی طلاق پڑی جس میں عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے یعنی اگر اس قدر دو معتبر آدمیوں کے رو برو کہہ دے کہ میں نے اپنی زوجہ کو جو طلاق دیا تھا اسے میں نے واپس لے لیا تو اس کی زوجہ بدستور زوجہ باقی رہے گی اور اگر گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین بلاحلالہ پھر نکاح ہو سکتا ہے اگر عورت غیر مدخولہ ہے تو ایک طلاق بائن پڑگئی لیکن عدت کے اندر خواہ عدت کے بعد بتراضی طرفین بلا حلالہ پھر نکاح جائز ہے۔زاد المعاد (2/2044)میں ہے۔

"الغضب علي ثلاثة اقسام:احدها :ما يزيل العقل فلا يشعر صاحبه بما قال وهذا لا يقع طلاقه بلانزاع والثاني مايكون في مباديه بحيث لا يمنع صاحبه من  تصور ما يقول وقصده فهذا يقع طلاقه الثالت" ان يستحكم ويشتد به فلا يزيل عقله الكلية ولكن   يحول بينه وبين نيته بحيث يندم علي ما فرط منه اذازال فهذا محل نظر وعدم الوقوع في هذه الحالة قعي متجه"

(غصے کی تین قسمیں ہیں۔

 1۔ایک قسم وہ ہے جس میں عقل بالکل زائل ہو جاتی ہے اور اس وقت جو بات غضبناک آدمی کے منہ سے نکلتی ہے اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا بول رہا ہے اس میں تو بلا نزاع طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2۔دوسری قسم یہ ہے کہ اس قسم کے غصے کے دوران میں اس کو یہ خبر رہتی ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے اور کیا ارادہ رکھتا ہے؟اس صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔

3۔تیسری قسم یہ ہے کہ اس کا غصہ تو مستحکم اور شدید ہوتا ہے لیکن اس کی عقل بالکل زائل ہوتی البتہ وہ اس کے اور اس کی نیت کے درمیان اس طرح حائل ہو جاتی ہے کہ اسے غصے کے دور ہونے پر وہ اپنے کیے پر نادم ہو تا ہے۔یہ قسم محل نظر ہے اس حالت میں طلاق کا عدم وقوع قوی اور مناسب ہے)صحیح مسلم (4771چھاپہ دہلی ) میں ہے۔

"وَعَنِ ابْنِ عَبّاسٍ رَضىَ اللَّهُ عَنْهُمَا قالَ: "كان الطّلاقُ عَلى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلّى الله عَلَيْهِ وَسَلّم وأَبي بَكْرٍ وَسَنَتَينِ مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ طَلاقُ الثلاثِ واحِدةٌ،[1]الحدیث        

(طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بیان کیا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی)

صفحہ (478)میں ہے۔

"عن طاوس ان ابا الصهباء قال لابن عباس رضي الله عنه:اتعلم انماكانت الثلاث تجعل واحدة علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم وابي بكر وثلاثا من امارة عمر؟ فقال ابن عباس رضي الله عنه نعم"[2]

(طاؤس رحمۃ اللہ علیہ   سے مروی ہے بلا شبہ ابو الصہبا رحمۃ اللہ علیہ   نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے عرض کی کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی امارت کے تین سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمارہوتی۔

تھی؟تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا: جی ہاں)

سورۃ بقرہ میں ہے۔

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

واللہ اعلم بالصواب۔

(اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں۔ جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہوجائیں )


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1472)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1472)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:544

محدث فتویٰ

تبصرے