سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(337) نشے کی حالت میں طلاق کا حکم

  • 23102
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1515

سوال

(337) نشے کی حالت میں طلاق کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے حالت نشہ میں اپنے باپ سے یہ کہا کہ آپ گواہ رہیے کہ ہم نے اپنی بی بی کو طلاق دیا طلاق دیا طلاق دیا۔طلاق دیا چار یا پانچ دفعہ جلسہ واحد میں اور بی بی اس کی اس وقت حاضر نہیں ہے طلاق مسنون واقع ہوئی یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص اپنی عورت کو حالت نشہ یا سخت غصہ میں طلاق دے وہ طلاق نہیں واقع ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقرَبُوا الصَّلو‌ٰةَ وَأَنتُم سُكـٰرىٰ حَتّىٰ تَعلَموا ما تَقولونَ...﴿٤٣﴾... سورة النساء

(نماز کے قریب نہ جاؤ اس حال میں کے تم نشے میں ہو۔یہاں تک کہ تم جانور جو کچھ کہتے ہو)

اس سے معلوم ہوا کہ حالت نشہ کا قول معتبر نہیں کیونکہ اس کو اپنے قول کا علم نہیں بخاری شریف میں مروی ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حالت نشہ میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں اہا نت کے الفاظ استعمال کیے حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے قول کا اعتبار نہ کیا حالانکہ نبی کی اہانت کفر ہے ایک شخص نے زنا کا اقرارکیا۔ [1] حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اس کا منہ تو سونگھو کہیں نشہ میں تو نہیں اقرارکرتا ہے؟ [2]معلوم ہوا کہ اگر نشہ میں ہوتا تو یہ اقرارمعتبر نہ ہوتا اور مثل اس کے بہت سے دلائل ہیں جن سے حالت نشہ میں طلاق کا غیر معتبر ہونا ثابت ہوتا ہے غصہ کی طلاق کا غیر معتبر ہونا بھی حدیث سے ثابت ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کیا ہے

عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : (لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ[3]

غصہ میں طلاق اور عتاق کا اعتبار نہیں ہے۔"درمختار میں ہے

"لايقع طلاق المولي علي امراة عبده(الي ان قال) والمدهوش"[4]

(آقا کی اپنے غلام کی بیوی کو طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی (یہاں تک کہ انھوں نے کہا) اور مدہوش( کی دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی) مدہوش کے معنی میں مغلوب الغیظ بھی داخل ہے پس مغلوب الغیظ کا طلاق نہیں۔الجواب صحیح کتبہ محمد عبد اللہ ۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2246)صحیح مسلم رقم الحدیث (1979)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1695)

[3] ۔مسند احمد(6/276)

[4] ۔الدرامختارمع ردالمختار(3/203)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:542

محدث فتویٰ

تبصرے