سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(336) ناجائز تعلق کو وجہ بنا کر طلاق کا مطالبہ کرنا

  • 23101
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 906

سوال

(336) ناجائز تعلق کو وجہ بنا کر طلاق کا مطالبہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زوجہ نے اپنے شوہر کو یہ دھوکا دیا کہ میرا ناجائز تعلق ایک شخص سے ہو گیا ہے اگر تم مجھے طلاق دے دو تو میں اپنا زر مہر تعدادی پنج صد صمار کا معاف کر دیتی ہوں اس سے پیشتر طرفین کے یعنی زوجہ و شوہر میں دیوانی و فوجداری مقدمات بھی ہو چکے تھے اتفاق سے زوجہ کل مقدمات عدالت سے ہار بھی چکی ہے اور زوجہ کے دو برادر اور ایک ہمشیرہ نہایت بدوضع و کوکین باز بھی ہیں عورت کو ہمیشہ بدوضع خیالات کی ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں اور اس کی کمائی سے اپنے نشہ پانی کا کام چلاتے ہیں دوم یہ کہ عورت کے شوہرکو اس کے برادران نے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی کہ تم کو طلاق دینی ہوگی ورنہ جان نہ ہوگی۔

ایسی حالت میں جان کے خوف سے اور عورت کی قسموں پر اور دیوثی کا خیال کر کے شوہر بیچارہ نے تین مرتبہ کہہ دیا کہ طلاق دی طلاق دی طلاق دی۔نہ تو عورت مرد کے سامنے ہے اور نہ اس میں کوئی خطاب کیا گیا صرف ظلم کے خوف سے یہ لفظ کہہ دیے گئے ہیں ایسی حالت میں قرآن و حدیث کے روسے طلاق واقعی طلاق ہو گئی یا نہیں؟ اگر ہو گئی تو رجعی ہوئی یا بائن ہوئی یا ثلاثہ ہوئی؟ عورت نے شوہر کو زر مہر معاف کر دیا ہے اور ایک اقرارنامہ اسٹامی کاغذ پر بطمانینت شوہر کے لکھ دیا ہے کہ زر مہر معاف کرتی ہوں طلاق لیتی ہوں اور بنائے مخاصمت اپنی طرف سے یہ قائم کی ہے کہ زوجہ اور شوہر کا آپس میں جی نہیں ملتا ہے زوجہ شوہر کے گھر میں سات سال اور چھ ماہ رہی ہے تین بچے شوہر کے صلب سے اور عورت کے بطن سے پیدا ہوئے ایک حمل اسقاط ہوا اور دو بچہ قائم ہیں ایک لڑکا پونے چار سال کا اور ایک لڑکی سات سال کی موجود ہے جن کی پرورش مرد کرتا ہے جو باپ ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں کہ شوہر نے جو الفاظ طلاق دی طلاق دی طلاق دی۔بخوف جان کہے ہیں اس میں نہ تو تصریح اس بات کی ہے کہ کس نے طلاق دی اور نہ اس بات کی کہ کس کو طلاق دی؟ لہٰذا یہ طلاق واقع نہیں ہوئی اس لیے کہ اگر ان الفاظ سے شوہر کی یہ مراد ہے کہ دنیا میں کس نے کس کو طلاق دی تو ظاہر ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر یہ مراد ہے کہ میں نے اپنی زوجہ کو طلاق دی تو اس سے طلاق اس وجہ سے واقع نہیں ہوئی کہ اس نے یہ الفاظ بخوف جان تلفظ کیے ہیں اور ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔"نصب الرایۃ لاحادیث الھدایۃ "(2/30)میں ہے

"اخرج ابوداود وابن ماجه عن صفية بنت شيبة قالت سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول:((لاطلاق ولا عتاق في اغلاق)) قال ابوداود اظنه الغضب يعني الاغلاق قال ابن الجوزي:قال ابن قتيبه الاغلاق الاكراه ورواه الحاكم في المستدرك وقال:علي شرط مسلم قال في التنقيح وقد فسره احمد ايضا بالغضب قال شيخنا:والصواب انه يعم الاكراه والغضب والجنون وكل امر انغلق علي صاحبه علمه وقصده ماخوذ من غلق الباب‘واستدل عليه بحديث((رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه)) وهذا الحديث تقدم في الصلاة بجميع طرقه واصحها حديث ابن عباس رضي الله عنه رواه ابن حبان وابن ماجه والحاكم في المستدرك وقال:علي شرط الشيخين"

(ابو داوداور ابن ماجہ نے صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کیا ہے وہ عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔"زبردستی میں نہ طلاق ہوتی ہے اور غلام آزاد ہوتا ہے۔"امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں"اغلاق "غضب اور غصے کے معنی میں ہے ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا ابن قتیبہ  رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا کہ "اغلاق"کامعنی جبرواکراہ ہے اس کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ   نے مستدرک میں روایت کیا اور فرمایا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے تنقیح میں ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کامطلب غضب و غصہ بیان کیا ہے ہمارے شیخ نے کہا ہے درست یہ ہے کہ یہ لفظ جبرواکراہ غضب و غصہ جنون اور جو معاملہ جس کا علم و قصد اس کے صاحب پر منغلق ہو تمام معنوں میں عام ہے یہ لفظ "غلق الباب"(دورازہ بند کردینا ) سے ماخوذ ہے اس پر درج ذیل حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ’’اس (اللہ تعالیٰ ) نے میری امت سے غلطی بھول اور وہ گناہ معاف کردیے ہیں جن پر انھیں زبردستی مجبور کیا گیا ہو۔‘‘ یہ حدیث نماز کے باب میں اپنی تمام سندوں سے گزر چکی ہے ان میں سے سب سے صحیح حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے جسے ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ   ابن ماجہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ   نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے)

صحیح بخاری169/3مصری) میں ہے:

"وقال ابن عباس رضي الله عنه طلاق السكران والمستكره ليس بجائز"

(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ اس شخص کی دی ہوئی طلاق جائز نہیں ہے جو نشے میں ہو یا اسے مجبور کیا گیا ہو) اگر وہ جوہ مذکورہ بالا سے قطع نظر کر کے کہا جائے کہ ایسی حالت میں طلاق واقع ہو ہی گئی تو صرف ایک طلاق بائن واقع ہوئی جس میں عدت کے اندر یا بعد عدت بتراضی طرفین نکاح جدید جائز ہے طلاق بائن اس لیے کہ صورت مذکورہ سوال خلع کی صورت ہے اور خلع کی صورت میں طلاق باین واقع ہوتی ہے۔

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّتانِ فَإِمساكٌ بِمَعروفٍ أَو تَسريحٌ بِإِحسـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

(یہ طلاق (رجعی) دوبار ہے پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑدینا ہے)

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو سَرِّحوهُنَّ بِمَعروفٍ... ﴿٢٣١﴾... سورة البقرة

 (اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔

"حدثنا عبدالله حدثني ابي  ثنا سعد بن ابراهيم ثنا ابي عن محمد بن اسحاق حدثني داود بن الحصين عن عكرمة مولي ابن عباس  عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال:طلق  ركانة بن عبد يزيد اخو بني مطلب امراته ثلاثا في مجلس واحد فحزن عليها حزنا شديدا قال:فساله رسول الله صلي الله عليه وسلم ((كيف طلقتها؟)) قال:طلقتها ثلاثا قال:فقال(( في مجلس واحد؟)) قال :نعم قال:(( فانما تلك واحدة فارجعها ان شئت)) قال:فرجعها"

(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  میں ہے ہمیں عبد اللہ نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا انھوں نے کہ مجھے داؤد بن حصین نے بیان کیا وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب  کے ایک فردرکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے دریافت کیا کہ " تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟"رکانہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں راوی کہتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پو چھا ’’کیا ایک ہی مجلس میں؟"انھوں نے جواب دیا جی ہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ‘‘یہ صرف ایک طلاق ہی ہے اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کرلو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا


[1] ۔مسند احمد (1/265)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:539

محدث فتویٰ

تبصرے