سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(335) کسی خوق کی وجہ سے طلاق دینا

  • 23100
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 886

سوال

(335) کسی خوق کی وجہ سے طلاق دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص جبراً بخوف جان یا بخوف زد کوب طلاق دے دے تو وہ طلاق ازروئے شرع شریف کے جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو طلاق اکراہاً یعنی جبراًدی جائے وہ شرعاً نامعتبر ہے یعنی نہیں پڑتی سنن ابو داؤد (ص:199چھاپہ دہلی) میں حضرت  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

"عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : (لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ)"  [1]

یعنی جو طلاق حالت اغلاق میں دی جائے وہ نامعتبر ہے۔

اسی طرح عتاق میں بھی یعنی غلام لونڈیاں آزاد کرنا حالت اغلاق میں نامعتبرہے اغلاق کی تفسیر میں علماء کی عبارات مختلف ہیں خود ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ   ہیں"اظنه الغضب " یعنی میں گمان کرتا ہوں کہ اخلاق کے معنی غصہ کے ہیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی معنی منقول ہیں چنانچہ امام زیلعی  رحمۃ اللہ علیہ   "نصب الرایة فی تخریج احادیث الھدایة (2/30) میں فرماتے ہیں:

"قال في التنقيح وقد فسره احمد ايضا بالغضب"

یعنی تنقیح میں کہا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اغلاق کے معنی غصہ کے کیے ہیں اور صاحب قاموس رحمۃ اللہ علیہ   اغلاق کے معنی اکراہ کے لکھتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں کہ"الاغلاق الاکراہ [2] یعنی اغلاق کےمعنی اکراہ کے ہیں یہ معنی امام ابن قتیبہ سے بھی منقول ہے چنانچہ امام زیلعی  رحمۃ اللہ علیہ "نصب الرایة " میں فرماتے ہیں قال ابن الجوزی قتیبہ الاغلاق الاکراہ [3]یعنی ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا کہ ابن قتیبہ  رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا کہ اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں۔

صاحب مجمع البحار بھی اغلاق کے معنی اکراہ کے لکھتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے تحت میں ہیں۔

( لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ ) أي :  في اكراه لان المكره مغلق عليه في في امره ومضيق عليه في تصرفه  كما يغلق الباب علي احد انتهى. [4]

یعنی اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں اس لیے کہ مکرہ پر اس کا معاملہ بند کر دیا جا تا ہے اور اس کے تصرف میں تنگی ڈال دی جاتی ہے جس طرح کسی پر دروازہ بند کر دیا جا تا ہے۔"نیل الاوطار"(160/6)میں ہے۔

"فسره علماء الغريب بالاكراه روي ذلك في التخليص عن ابن قتيبة والخطابي وابن رشيد وغيرهم"

یعنی علمائے غریب نے اغلاق کی تفسیر اکراہ ہی سے کی ہے چنانچہ تلخیص میں اس کو ابن قتیبہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور خطابی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن رشید رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم سے روایت کیا ہے۔

امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ   کے استاد فرماتے ہیں کہ اغلاق اکراہ اور غصہ اور جنون اور بہت سی چیزوں کو شامل ہے۔چنانچہ امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ   "نصب الرایه" میں فرماتے ہیں۔

قال الشيخنا والصواب انه يعم الاكراه والغضب والجنون وكل امر النغلق علي صاحبه علمه وقصده ماخوذ من غلق الباب[5]

یعنی ہمارے شیخ نے فرمایا کہ صواب یعنی ٹھیک بات یہ ہے کہ اغلاق اکراہ کو اور غصہ کو اور جنون کو اور ہر ایسے امر کو شامل ہے جس کا علم و قصد اس امر والے پر بند ہوجائے اور یہ لفظ غلق الباب سے جس کے معنی دروازہ بند کر دینے کے ہیں ماخوذ ہے۔

یہی تحقیق حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ہے کہ اغلاق کا لفظ ان سب مذکورہ بالا معنوں کو شامل ہے میرے نزدیک بھی یہی بات صحیح ہے کہ لفظ اغلاق ایک عام لفظ ہے جو ان سب معانی کو شامل ہے پس جب آدمی کسی کام کے کرنے یا کسی بات کے بولے پر ایسا مجبور کیا جائے کہ اگر اس کام کو نہ کرے یا اس بات کو نہ بولے تو اس کی جان جانے یا ضرب شدید پڑنے کا خوف ہو تو ایسی حالت اغلاق کی حد میں داخل ہے اگر ایسی حالت میں طلاق دے تو وہ طلاق شرعاً نامعتبر ہے نیل الاوطار (ص161) میں ہے۔

"احتج عطاء بقوله تعاليٰ:إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وقال الشرك اعظم من الطلاق اخرجه سعيد بن منصور عنه باسناد صحيح"

یعنی عطا نے اس مسئلہ کو (کہ اکراہ کی حالت کی طلاق نہیں پڑتی ہے) آیت کریمہ:

﴿إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ...﴿١٠٦﴾... سورة النحل

سے ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ شرک طلاق سے بڑھ کر ہے اور جب اکراہ کی حالت میں کلمہ شرک منہ سے نکالنا شرعاً نامعتبر ہے یعنی اس سے وہ شخص مشرک نہیں ہوجا تا جیسا کہ آیت کریمہ سے ثابت ہے تو اکراہ کی حالت کا کلمہ طلاق منہ سے نکالنا بطریق اولیٰ نامعتبر ہو گا یعنی اس سے بطریق اولیٰ طلاق نہیں پڑے گی عطاء کے اس قول کو سعید بن منصور نے اسناد صحیح سے روایت کیا ہے-


[1] ۔سنن ابی داؤدرقم الحدیث (2193)

[2] ۔القاموس المحیط (ص915)

[3] ۔نصب الرایة(2/30)

[4] ۔مجموع بحار الانوار(2/32)

[5] ۔نصب الرایة (2/30)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:537

محدث فتویٰ

تبصرے