سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(312) بدچلنی پر طلاق دینا

  • 23077
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 857

سوال

(312) بدچلنی پر طلاق دینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کی ہندہ سے شادی ہوئی اور ایک لڑکا ہوا۔بعد زید کو ہندہ کی بد وضعی ثابت ہوئی اوردو ایک مرتبہ زید نے خوداپنی آنکھ سے اس کی بدچلنی دیکھ لی اور تمام برادری میں بھی اس کی بد وضعی مشہور ہوگئی تو زید نے ہندہ کو اس کے مکان پر چھوڑ کر بہت دور کسی ملک میں بودوباش اختیار کی،یہاں تک کہ عرصہ چودہ پندرہ برس کا ہوگیا اور اس کا لڑکا جوان ہوگیا۔اب اس کے ملک کے لوگ جب وہاں گئے تو اس سے کہا کہ اپنی عورت کے نان ونفقہ کی خبر کیوں نہیں لیتا؟تو اس نے جواب دیا کہ مجھے عورت سے کوئی واسطہ نہیں۔ایک گواہ نے تو یہ کہا اور دوسرے گواہ نے یہ کہا کہ میں نےجب اس عورت کو نان  ونفقہ کے بارے میں کہاتو اس نے کہا کہ مجھے عورت سے کیاکام ہے اور اس کے گاؤں کی عورتوں نے کہا وہ کہتا ہے کہ مجھے اس عورت سے کوئی واسطہ نہیں اور اب عرصہ پندرہ برس کے بعد وہ عورت اپنے گاؤں سے پھر شہر میں آئی تو اور ایک دوسرے شخص سے واسطہ ہوگیا اور حاملہ بھی ہوگئی،اس صورت میں اب اس شخص سے جس کا حمل ہے ،اس عورت کا اس سے نکاح درست ہے یا نہیں اور طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر زید نے فی الواقع اپنی عورت ہندہ کی نسبت یہ الفاظ"مجھے عورت سے کوئی واسطہ نہیں"مجھے عورت سے کیاکام؟"کہے ہیں اور زید کی نیت ان الفاظ کے کہنے سے ہندہ کو طلاق دینے کی تھی تو اس صورت میں ہندہ پر  طلاق واقع ہوگئی اور انقضائے عدت کے بعد ہندہ کا نکاح اس شخص سے درست ہے،جس کا حمل کہا جاتا ہے مگر اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں ،مذکوروہندہ،نکاح کے قبل ایسے فعل بد سے سچی توبہ کرڈالیں ۔

"واما الضرب الثاني وهو الكنايات  فلايقع بها الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال لانها غير موضوعة للطلاق بل  تحتمله وغيره فلا فد من التعيين اودلالته " [1]

رہی(طلاق کی) دوسری قسم تو وہ کنایات ہے،ان کنایات کے ساتھ تب ہی طلاق ہوئی ہے،جب نیت طلاق دینے کی ہو یا صورت حال کی دلالت کے ساتھ،کیوں کہ یہ الفاظ(کنایات) طلاق(دینے) کے لیے وضع نہیں ہوئے ہیں،بلکہ وہ طلاق کا بھی اور کسی اور مفہوم کا بھی احتمال رکھتے ہیں،لہذا ان سے(طلاق کی) تعین یا اس کی دلالت ضروری ہے۔

"وقال ابراهيم:ان قال:لاحاجة لي فيك نيته"

(صیح بخاری مصری 4/169)

"ابراہیم  رحمۃ  اللہ علیہ  نے کہا! کہ اگر وہ کہے کہ مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ،تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا"

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

"اورجب تم عورتوں کو طلاق دو،پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں ،جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہوجائیں"

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَراءَ ذ‌ٰلِكُم أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ...﴿٢٤﴾... سورة النساء

"اور تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو ،اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو،نہ کہ بدکاری کرنے والے"

﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ وَحُرِّمَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور

"زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے،یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت،اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔


[1] ۔الھدایۃ(1/141)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:513

محدث فتویٰ

تبصرے