سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(303) طلاق کا اعلان کرنا لازم نہیں

  • 23068
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 660

سوال

(303) طلاق کا اعلان کرنا لازم نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔ ایک شخص مسمی عمرو نے اپنی زوجہ مسماۃ رفیعہ سے کہا کہ میں نے تجھ کو طلاق دیا۔ ایک جلسہ میں دو دفعہ کہا اور اس کا اعلان نہیں کیا ۔ بعد ازاں دوتین ہفتہ تک ان دونوں میں ملاقات نہیں ہوئی اس کے بعد آپس میں پھر اختلاف ہوگیا اور عمرو کے والدین نے رفیعہ کو میکہ پہنچا دیا رفیعہ کے میکے جانے کے چار پانچ مہینے کے بعد اس کو ایک لڑکی پیدا ہوئی اور بعد ازاں انتقال کر گئی رفیعہ کے میکہ رہنے کی حالت میں عمرو نے ماقبل و مابعد پیدا ہونے والی لڑکی کے اپنے احباب سے تذکرہ کیا کہ اس نے اپنی بیوی رفیعہ کو طلاق دے دیا ہے اور آئندہ ہر گز اس سے تعلق نہیں رکھے گا۔اور یہ کہا کہ اس بات کی خبر رفیعہ کو اور اس کے والدین کو اور اقارب کو نہ ملے۔

بعد ازاں رفیعہ کے اپنے میکے جانے کے ایک یا ڈیڑھ سال کے اپنے والدین و دیگر اقارب سے کہا کہ اس نے اپنی بی بی رفیعہ کو طلاق دے دیا ہے اور ہرگز ہرگز اس سے تعلق نہیں رکھے گا اور یہ کہا کہ اس کلام کی خبر رفیعہ کو اور اس کے والدین کو کر دی جائے تاکہ اس کے والدین رفیعہ کا عقد ثانی کردیں اور اس طلاق کا پورا اعلان اپنے کل اہل برادری میں کردیا جائے چنانچہ

اس کے والدین نے ویسا ہی کیا۔

یعنی عمرو رفیعہ کی شادی کو عرصہ آٹھ دس برس گزر چکا ہے اور ثانی عقد سے رفیعہ کے میکہ جانے کی تاریخ تک درمیان زن و شو کے برابر اختلاف رہا کیا پس ایسی حالت میں عمرو کا طلاق رفیعہ پر پوارا ہو چکا یا نہیں اور عمر و پھر رجعت یا حلالہ کر سکتا ہے یا نہیں ؟

2۔ رفیعہ کے پاس اب تک ایک دختر چار سال کی عمرو سے موجود ہے اس دختر کا اور رفیعہ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا نفقہ عمرو پر واجب ہے یا نہیں ؟

3۔ رفیعہ کا نکاح عمرو کے ساتھ بعوض چالیس ہزار روپیہ اور کسی قدر اشرفیوں کے مہر کے ہوا تھا اس وقت میں عمرو طالب العلم تھا مگر بالغ تھا اس کو یا اس کے والدین کو استطاعت اس قدر کثیر مہر کے ادا کرنے کی نہ تھی مگر عمرو نے حسب الحکم والدین مہر کو منظورکرلیاتھا اور عمرو شادی کے دوہی چار سال کے بعد ملازم گورنمنٹ انگریزی ہے اور بالفعل قریب سوروپیہ ماہوارکے مشاہرہ پاتا ہے اور عمرو کہتا ہے کہ اداکاری اس مہر کی اس پر کچھ بھی واجب  نہیں ہے معلوم ہوتا ہے کہ عمرو شاید اس خیال سے اپنے کو اداکاری مہر سے بری سمجھتا ہے کہ نکاح کے وقت اس کو کچھ بھی حیثیت اداکاری کی نہ تھی اور اس نے اطاعت والدین میں آکر مہر کثیر کو قبول کرلیا تھا پس ایسی حالت میں عمرو عند اللہ مہر کے لیے ماخوذ ہو گا یا نہیں اور اگر ہو گا تو کس قدر مقدار کے لیے اور حاکم شرع عمرو سے رفیعہ کو کس قدر مہر دلوائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ ایسی حالت میں عمرو پھر رجعت نہیں کر سکتا کیونکہ جب عمرو نے اپنے احباب سے و نیز اپنے دوسرے لوگوں سے کہا کہ میں نے رفیعہ کو طلاق دے دیا ہے اور آیندہ سروکار نہیں رکھیں گے تو دوسرا طلاق بھی ہو چکا اس دوسرے طلاق کی عدت بھی گزر چکی اور ایک طلاق پہلے ہو چکا ہے جس سے عمرو نے رجعت کر لیا تھا تو اب دو طلاقیں ہوچکیں اب اگر عمرو و رفیعہ راضی ہو تو اس وجہ سے کہ ابھی دوطلاق ہوئی ہیں دوسرا نکاح بلا حلالہ کے کر سکتے ہیں ۔

2۔ایسی حالت میں عمرو پر رفیعہ کا نفقہ واجب نہیں ہے لیکن اس لڑکی کا جواس کے نطفہ سے ہے واجب ہے ۔

3۔اگر عمرو نکاح کے وقت قابلیت اداکاری چالیس ہزار روپیہ اور اشرفیوں کے مہر کا نہیں رکھتا تھا اور اگر اس نے اپنے والدین کے ااطاعت میں آکر اس مہر کو قبول کر لیا تھا لیکن وہ جب بالغ تھا اور اس نے اپنے زبان سے اتنا مہر قبول کر لیا تھا تو وہ عنداللہ کل دین مہر کے لیے ماخوذ ہوگا اور بروقت دعویٰ حاکم شرع اس سے دین مہر دلوائیں گے واللہ اعلم بالصواب ۔کتبہ: محمد عبد اللہ (مہر مدرسہ)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:504

محدث فتویٰ

تبصرے