سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) بیٹے کی موجودگی میں دادا ولی نہیں بن سکتا

  • 23041
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 859

سوال

(276) بیٹے کی موجودگی میں دادا ولی نہیں بن سکتا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر باپ بیٹے میں نااتفاقی ہو اور باپ اپنے بیٹے کی لڑکی،یعنی اپنی پوتی کا عقد اپنے بیٹے کے ہوتےہوئے یعنی بغیر بیٹے کی رضا مندی کے کسی سے نکاح کردے تو یہ نکاح جائز ہوا یا ناجائز؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ نکاح ناجائز ہوا،اس لیے کہ باپ کے رہتے ہوئے دادا ولی نہیں ہے۔پس یہ نکاح بلا اجازت ولی کے ہوا اور جوبلا اجازت ولی کے ہو باطل اور ناجائز ہے صحیح بخاری(3/154مصری) میں ہے:

باب من قال:لا نكاح الا بولي لقول الله  تعاليٰ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ (البقرہ:232) فدخل فيه الشيب‘وكذلك البكر‘وقال: وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وقال: وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ اخبرني عروة بن الزبير ان عائشة زوج النبي صلي الله عليه وسلم اخبرته ان النكاح في الجاهلية كان علي اربعة انحاء فنكاح منها نكاح الناس اليوم يخطب الرجل الي الرجل وليته او ابنته فيسبقها ثم ينكحها...فلما بعث محمد صلي الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله الانكاح الناس اليوم....الي آخر الباب والله تعاليٰ اعلم بالصواب[1]

(باب جس نے کہا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو تا ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"پس تم ان کو مت روکو ۔"اس میں ثیبہ اور باکرہ سب داخل ہیں نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"اور (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔"نیز اس کا فرمان ہے۔"اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عوتوں کا نکاح کردو۔ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ بلا شبہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کو خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔ پھر جب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قراردیے صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4834)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:481

محدث فتویٰ

تبصرے