سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) نصرانیوں کا گمراہ کن پروپیگنڈہ اور اس کا جواب

  • 2303
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2287

سوال

(109) نصرانیوں کا گمراہ کن پروپیگنڈہ اور اس کا جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نصرانیوں کااللہ تعالیٰ کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈہ  کیا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نصرانیوں کا گمراہ کن پروپیگنڈہ اور اس کا جواب:

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا کر دشمنوں کی سازش سے محفوظ فرما دیا تو عیسائی علماء رومن کیتھولک سٹیٹ کی سختیوں کا شکار ہو گئے۔ نتیجتاً ان کی بڑی تعداد روپوش ہو گئی اور جو ہاتھ لگے وہ قتل ہو گئے ، انجام کار عیسائیوں میں جہالت عام ہو گئی ، حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل بھی گم ہو گئی۔ اس کے بعد علماء نصاریٰ نے از خود اناجیل تالیف کیں اور ہر مولف نے انجیل پر اپنا نام لکھا جو کہ دوسری انجیلوں سے مختلف ہوتی تھی۔ اس طرح عیسائیوں کے ہاں متعدد اناجیل تصنیف ہو گئیں ، مثلاً ،انجیل متی، انجیل یوحنا،انجیل مرقص، انجیل لوقا، انجیل برناباس۔ اس طرح تالیف ہوتے ہوتے اناجیل کی تعداد ستر سے زیادہ ہو گئی۔ اس کے بعد ایک عیسائی کنونشن میں چار انجیلوں کو قابل اعتماد قرار دیا گیا، باقی سب کو جلا دیا گیا اور انہوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ تین خداؤں میں سے ایک خدا اللہ تعالیٰ ہے اور حضرت عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے۔( اللہ تعالیٰ ان کی ایسی تمام ہفوات سے بری اور بزرگ و بالا ہے) ایک وقت گزرنے کے بعد عیسائی کہنے لگے کہ بلاشبہ اللہ تو ایک ہی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے عقیدے کی ایسی ایسی تفسیریں کرنے لگے جسے عقل کسی طرح قبول نہیں کر سکتی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تو ایک ہی ہے مگر وہ بیک وقت تین ہستیوں میں سمویا ہوا ہے۔

علامہ البوصیری نے اپنے قیصدے میں عیسائیوں کی کیا خوب خبر لی ہے:

’’انہوں نے تین خداؤں کو ایک بنا ڈالا ،اگر وہ ہدایت یافتہ ہوتے تو زیادہ کو تھوڑا تو نہ بناتے ۔‘‘

عیسائیوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ( عیسیٰ علیہ السلام ) تو سولی پر چڑھ کر مر گیا جب کہ وہ یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ فرشتوں کو موت نہیں آتی، اور یہ کہ یہودیوں نے اور حکومت روم نے مل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالا اور اپنی انجیلوں میں اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ واقعہ صلیب کے بعد کچھ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ دیکھا ہے۔ اور ادھر اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ:

﴿ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (١٥٧) بَل رَّ‌فَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (١٥٨)﴾     (النساء)

’’…حالانکہ فی الوقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا او ر نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کے پیرو ہیں، انہوں نے مسیحg کو یقیناقتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔‘‘

عیسائی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا لہٰذا ( ان کے زعم و خیال کے مطابق) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خود اللہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا باپ ہے۔

قرآن کریم نے اس خیال کی تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (٥٩)﴾ (آل عمران)

’’ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گیا۔‘‘

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک انسان تھے،جو کھانا کھاتے تھے ۔ اور جو کھانا کھاتا ہے اسے بہر حال پیشاب پاخانہ کی حاجت ہوتی ہے۔ جس کو کھانے ، پینے اور قضائے حاجت کی ضرورتیں مجبور کر دیں وہ کس طرح خدا ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْ‌يَمَ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ‌ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ‌ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ (٧٥)﴾ (المائدہ)

’’ مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزر چکے ہیں، اس کی ماں ایک راست باز عورت تھی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ،دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھر جاتے ہیں۔‘‘

 

فتاویٰ علمائے حدیث

 

جلد 09 ص 

تبصرے