سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(259) ماں کا ولی بننا

  • 23024
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-22
  • مشاہدات : 1341

سوال

(259) ماں کا ولی بننا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک زن بیوہ نے ا پنی نابالغہ لڑکی کا نکاح بحیثیت ولایت ایک نابالغ لڑکے کے ساتھ برضا مندی والدین اس لڑکے کے پڑھا دیا اور لڑکی کو اس کے سسرال بھیج دیا۔کچھ دنوں بعد وہ نابالغہ لڑکی اپنی ماں کے پاس چلی آئی،تو اس ماں نے بغیر ہونے طلاق کے اس نابالغہ لڑکی کا نکاح دوسرے بالغ آدمی سے  پڑھوادیا۔دریافت طلب یہ امر ہے کہ پہلا نکاح ازروئے شرع شریف جائز ہوا یا  نہیں اور یہ دوسرا نکاح باوجود طلاق نہ ہونے کے جائز ہوا یانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دونوں نکاحوں  میں سے کوئی بھی ازروئے شرع شریف کے بوجوہات ذیل جائز نہیں ہوا:

1۔یہ دونوں نکاح بولایت عورت ہوئے ہیں اور نکاح بولایت عورت جائز نہیں ہے کیونکہ عورت کو نکاح میں ولایت حاصل نہیں ہے۔مشکوۃشریف(ص:263 چھاپہ مطبع احمدیہ دہلی) میں مرقوم ہے:

"وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها"[1](رواہ ابن ماجه)

"ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے،نہ عورت خود اپنا نکاح کرے"

2۔ولی باب نکاح میں صرف عصبہ ہے ۔ہدایہ(ص:204 چھاپہ علوی) میں مرقوم ہے:

"والولی هو العصبة"یعنی ولایت باب نکاح میں صرف عصبہ کو حاصل ہے اور اس کے ثبوت میں ہدایہ جلد مذکور(ص:205) میں یہ حدیث مرقوم ہے:

"النكاح الي العصبات"[2]  يعنی نکاح کی ولایت صرف عصبات کو ہے۔

یہ حدیث حنفی مذہب میں تسلیم کرلی گئی ہے اور ماں عصبات میں سے نہیں ہے تو اس کو ولایت باب نکاح میں حاصل نہیں ہے۔

3۔نکاح بغیر ولی کے باجماع صحابہ باطل ہے۔نیل الاوطار(6/26 چھاپہ مصر) میں مرقوم ہے:

"وقد ذهب الي هذا علي رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه وابن عباس رضي الله عنه وابن عمر رضي الله عنه وابن مسعود رضي الله عنه وابو هريرة رضي الله عنه وعائشه رضي الله عنها والحسن البصري رحمةالله عليه وابن المسيب رحمةالله عليه وابن شبرمة وابن ابي ليليٰ رحمةالله عليه والعترة واحمد رحمةالله عليه واسحاق رحمةالله عليه والشافعي رحمةالله عليه وجمهور اهل العلم فقالوا: لا يصح العقد بدون ولي وقال  ابن المنذر:انه لا يعرف عن احد من الصحابة خلاف ذلك"

چنانچہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،ابن المسیب رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ  ،عترہ،احمد رحمۃ اللہ علیہ : ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اور جمہور اہل علم  رحمۃ اللہ علیہ  اسی طرف گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ولی کے بغیر عقد (نکاح) صحیح اور درست نہیں ہے۔ابن المنذر  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی سے اس کے خلاف معروف ومعلوم نہیں ہے۔

بعض لوگ جو نکاح بولایت عورت کے جواز پر اس سے استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھانجے سے کردیا تھا،یہ استدلال صحیح نہیں ہے ، کیونکہ اس میں جو"زوجت"كا لفظ مذکور ہے،اس سے نکاح کردینا مراد نہیں ہے ،بلکہ اسباب نکاح کا مہیا کردینا مراد ہے۔دلیل اس پر یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا عام دستور تھا کہ جب اپنی قرابت کی کسی عورت کے نکاح کا پورا سامان کر چکتیں اور صرف نکاح کردینا باقی رہ جاتا تو اس عورت کے ولی سے فرمادیتیں کہ تو اس کا نکاح کردے،کیونکہ عورت ولایت نکاح کی نہیں رکھتی،چنانچہ بیہقی نے کتاب"المعرفۃ" میں اس بات کو بصراحت بیان کردیا ہے اور شیخ السلام حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے تخریج ہدایہ میں اس کو نقل فرمادیا ہے۔تخریج ہدایہ کی عبارت یہ ہے :

"واجاب البيهقي عن ذلك بان قوله في هذا الاثر:زوجت اي مهدت اسباب التزويج لا انهاوليت عقدة النكاح واستدل لتاويل هذا بما اسنده عن عبدالرحمان بن القاسم قال:كانت عائشة تخطب اليها المراة من اهلها فتشد فاذا بقيت عقدة النكاح قالت لبعض اهلها زوج فان المراة لا تلي عقده النكاح"[3]

"امام  بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نےاس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس اثر میں جو"زوجت" کا لفظ مذکور ہے ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں(عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے اسباب نکاح مہیا کردیے نہ کہ انھوں نے عقد نکاح کی ولایت اختیار کی۔چنانچہ انھوں نے اس تاویل کی دلیل اس روایت کو بنایا ہے جو انھوں نے عبدالرحمان بن القاسم سے روایت کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے گھرانے میں سے کوئی عورت ان کو نکاح  کرنے کا کہتیں تاعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اس کے نکاح کی پوری  تیاری کردیتیں اور جب صرف نکاح کردینا باقی رہ جاتا تو اس عورت کے ولی سے کہتیں کہ اس کانکاح کردے،کیوں کہ عورت ولایت نکاح کا حق نہیں رکھتی۔

نیز نیل الاوطار میں سے اوپر منقول ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا     کا مذہب یہ ہے  کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہے ،بلکہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں کسی سے اس کا اختلاف صحیح نہیں اور عورت باب نکاح میں ولی نہیں ہے تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اپنی ولایت سے کسی کو نکاح کردیں،یہ نہایت بعید ہے ۔علاوہ اس کے جب خود حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے  ثابت ہوچکا کہ نکاح بولایت عورت جائز نہیں ہے تو بمقابلہ قول آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مل جائے تو اس کے مقابلے میں کسی کی بات نہ مانو اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے صاف فرمادیا کہ جب تک کسی کو ہمارے قول کی سند معلوم نہ ہو،ہمارے قول پر فتویٰ دینا اس کو حلال نہیں ہے۔(دیکھو:حجۃ اللہ البالغہ چھاپہ صدیقی بریلی،ص:162۔123 وغیرہ)

4۔یتیمہ نابالغہ کا نکاح قبل بلوغ حضرت سفیان ثوری اور امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  ودیگر اہل علم رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک جائز نہیں ہے۔

ترمذی شریف(1/141 چھاپہ مطبع احمدی میرٹھ) میں لکھا ہے:

"واختلف اهل العلم في تزويج اليتيمة فراي بعض اهل العلم ان اليتيمة اذا زوجت فالنكاح موقوف حتي تبلغ فاذا بلغت فلها الخيار في اجازة النكاح وفسخه وهو قول بعض التابعين وغيرهم وقال بعضهم لا يجوز نكاح اليتيمة حتي تبلغ ولا يجوز الخيار في النكاح وهو قول سفيان الثوري والشافعي وغيرهما من اهل العلم والله اعلم بالصواب"

 "یتیمہ (نابالغہ) کا نکاح کرانے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ جب یتیمہ  (نابالغہ) کا نکاح کردیا جائے تو اس کے بالغ ہونے تک اس کا نکاح موقوف رہے گا۔پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اپنے نکاح کی اجازت اور اس کے فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔بعض تابعین وغیرہ کا یہ موقف ہے۔بعض اھل علم نے کہا ہے کہ یتیمہ(نابالغہ) کے بالغ ہونے تک اس کا نکاح جائز نہیں ہے اور نکاح میں اختیار دینا بھی جائز نہیں ہے،چنانچہ امام سفیان ثوری اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ اہل علم کا یہی موقف ہے۔"


[1] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1882)

[2] ۔حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث نہیں ملی۔(الدرایۃ:2/62)

[3] ۔الدرایۃ لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (2/60) نیز دیکھیں معرفۃ السنن والاثار   للبیھقی(10/33)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:458

محدث فتویٰ

تبصرے