سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(258) ولایت نکاح کے حقدار اور ولی کے بغیر نکاح کا حکم

  • 23023
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1169

سوال

(258) ولایت نکاح کے حقدار اور ولی کے بغیر نکاح کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی نابالغہ ہے اور اس کی ماں حقیقی اور ماموں حقیقی اور نانا حقیقی نے اس کا نکاح کردیا اور اس کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے کہ وہ بوقت نکاح موجود نہ تھا اور وہ اس نکاح سے بالکل ناخوش وناراض ہے اور کہتا ہے کہ ہم کو ہرگز یہ نکاح منظور نہیں،تو ایسی حالت میں نکاح شرعاً درست  ہوا یا نہیں اور ولی اس نابالغہ کا کون شخص شرعاً قرار پائے  گا؟جواب مدلل بدلیل شرعیہ ارقام فرمایا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں نکاح شرعاً درست نہیں ہوا۔"منتقی الاخبار"میں ہے:

أبي مُوسَى قالَ: "قالَ رسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: لاَ نِكاحَ إلاّ بِوَلِي"[1]

"ابو موسیٰ بیان کر تے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:سرپرست(ولی کی اجازت) کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا"

"وعن سليمان بن موسيٰ عن الزهري عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل ، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها ، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له ".[2]الحديث (رواهما الخمسة الاالنسائي)

"سلیمان بن موسیٰ  رحمۃ اللہ علیہ  زہری رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کرتے ہیں ،وہ عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے ،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔۔۔)

"وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها فإن الزانية هي التي تزوج نفسها"[3](رواہ  ابن ماجه والدارقطنی)

"ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے،نہ عورت خود اپنا نکاح کرے،پس بلاشبہ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے"

"نیل الاوطار" میں ہے:

"قوله ((لانكاح الا بولي)) هذا النفي يتوجه اما الي الذات الشر عية لان الذات الموجودة اعني صورة العقد بدون ولي ليست بشرعية او يتوجه الي الصحة التي هي اقرب المجازين الي الذات فيكون النكاح بغير  ولي باطلا كما هو مصرح بذلك في حديث عائشه رضي الله عنها المذكور وكما يدل حديث ابي هريرة رضي الله عنه المذكور لان النهي يدل علي الفساد المرادف للبطلان وقد ذهب الي هذا علي رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه وابن عباس رضي الله عنه وابن عمر رضي الله عنه وابن مسعود رضي الله عنه وابو هريرة رضي الله عنه وعائشه رضي الله عنها والحسن البصري رحمةالله عليه وابن المسيب رحمةالله عليه وابن شبرمة وابن ابي ليليٰ رحمةالله عليه والعترة واحمد رحمةالله عليه واسحاق رحمةالله عليه والشافعي رحمةالله عليه وجمهور اهل العلم فقالوا: لا يصح العقد بدون ولي وقال  ابن المنذر:انه لا يعرف عن احد من الصحابة خلاف ذلك [4]

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان: "ولی(کی اجازت) کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا،اس فرمان میں موجود نفی یاتو ذات شرعیہ کی نفی ہے کیوں کہ ذات موجودہ یعنی عقد کی صورت ولی کے بغیر شرعی نص ہے،یا اس نفی کا تعلق صحت کےساتھ ہے۔جو ذات کی طرف اقرب المجازین ہے،تو اس بنا پر ولی کے بغیر نکاح باطل ہوگا،جیسا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی مذکورہ بالا روایت میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔اور جس طرح ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی مذکورہ حدیث دلالت کرتی ہے،کیوں کہ نہی فساد پر دلالت کرتی ہے اور فساد بطلان کے مترادف ہے۔چنانچہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،ابن المسیب رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ  ،عترہ،احمد رحمۃ اللہ علیہ : ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اور جمہور اہل علم  رحمۃ اللہ علیہ  اسی طرف گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ولی کے بغیر عقد (نکاح) صحیح اور درست نہیں ہے۔ابن المنذر  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی سے اس کے خلاف معروف ومعلوم نہیں ہے۔

ولی اس نابالغہ کا اس کا سوتیلا بھائی ہے۔نیل الاوطار میں ہے:

"والمراد بالولي هو الاقرب من العصبة من النسب ثم من السبب ثم من عصبة"

"ولی سے مراد وہ قریبی رشتہ دار جو عصبہ نسبی میں سے ہو،پھر عصبہ سببی میں سے اور پھر اس کے عصبہ میں سے"


[1] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(2085)

[2] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(2083) سنن الترمذی  رقم الحدیث(1102)  سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1879)

[3] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1882)

[4] ۔نیل الاوطار(6/178)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:457

محدث فتویٰ

تبصرے