1۔عمرو نے نکاح اپنی دختر ہندہ کا بشراکت مرضی دختر خود زید کے ساتھ مشروط بشرائط ذیل کیا ادائے دین مہر 500و نان و نفقہ سہ روپیہ ماہانہ و اصلاح حال و مآل و عدم تصرف بمال زوجہ و تراضی اور دررخصتی اور نکاح مبنی انھیں شرائط پر ہے زید نے بعد نکاح ایفائے شرط نہیں کیا اس کی نسبت کیا حکم ہے؟
2۔مسماۃ ہندہ اپنے شوہر زید سے ناراض ہے اور وہ ناراضٰ ترقی پا کر عدادت ہوگئی ہے اور عدادت ایسی کہ تمام عمر دور ہونی غیر ممکن بموجب شریعت ایسی صورت میں کیا کیا جا ئے ؟
3۔مسماۃ ہندہ اپنے شوہر سے کئی وجہ سے قطع تعلق چاہتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دیتا پس ازروئے قرآن و حدیث ان کے مابین کس طرح فیصلہ کرنا چاہیے؟
1۔ایفا ان شرطوں کا زید پر واجب ہے مشکوۃ المصابیح (ص263)مطبوعہ انصاری ) میں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جن شروط کے ساتھ تم نے شرم گاہ کو حلال بنایا ہے وہ(شرط ) زیادہ حق رکھتی ہیں کہ انھیں پورا کیا جائے۔
اگر اپنی بی بی کو نان و نفقہ نہیں دے سکتا ہو اور عورت بے چاری تکلیف میں ہو تو تفریق جائز ہے۔
دليل الطالب علي ارجح المطالب(ص:470)طلب کر کے دیکھئے ۔
(عدم نفقہ کی وجہ سے نکاح کے فسخ کیے جانے کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے جسے امام دارقطنی اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے متعلق فرمایا جس کے پا س اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے ان دونوں کے درمیان جدائی کردی جائے"اس حدیث کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے کسی آدمی نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ سنت ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں یہ سنت ہے) ۔
بلوغ المرام(ص137)میں بھی ہے مثل اس کے ان کے علاوہ اور بھی اولہ ہیں جن کی تفصیل مخافت تطویل سے نہیں کی گئی ۔ واللہ المستعان۔
2۔3۔ایسی صورت میں ہندہ اپنے نفس کا فدیہ دے کر زوج سے خلع کرالے اور بعد خلع کے ایک حیض عدت میں رہ کر جی چاہے تو دوسرا نکاح کر لے ۔اللہ سبحانہ فرماتا ہے۔
(پھر اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں دے دے)
(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس (اپنے خاوند ) کے دین اور اخلاق (کی کسی خرابی) کی وجہ سے ناراض نہیں لیکن مجھے مسلمان ہوتے ہوئے (خاوند کی) ناشکری کرنا اچھا نہیں لگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اسے اس کا باغ واپس دے دو گی؟"اس نے کہا جی ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ثابت کو) حکم دیا کہ اس (اپنی بیوی) سے باغ واپس لے لیں اور اسے طلاق دے دیں۔
وفي رواية عند ابن ماجه ""فامره رسول الله صلي الله عليه وسلم ان ياخذ منها حديقته ولا يزداد"" [4](ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو حکم دیا کہ وہ اس (اپنی بیوی ) سے باغ واپس لے لیں اور زائد کچھ نہ لیں )
"وفي رواية النسائي والترمذي:""فامرها رسول الله صلي الله عليه وسلم ان تربص حيضة واحدة"[5](سنن النسائی اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ثابت بن قیس کی بیوی کو) حکم دیا کہ وہ ایک حیض اپنے آپ کو انتظار میں رکھے) اگر اس طرح پر شوہر نہ راضی ہو تو زن و شوہر کے آدمی مل کر اس بارے میں حکم دیں اللہ سبحانہ فرماتا ہے۔سورۃ نساء رکوع (5)پارہ والمحصنت" میں :
(اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک مصنف مرد کے گھروالوں سے اور ایک مصنف عورت کے گھروالوں سے مقرر کرو اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا؟
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2572)صحیح مسلم رقم الحدیث (148)
[2] ۔مسند الشافعی(1273)
[3] صحیح البخاری رقم الحدیث(1/97)(؟)رقم الحدیث (3463)
[4] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (2056)
[5] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (1185)سنن النسائی رقم الحدیث(3497)