السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان لانے کے علمی اور عقلی دلائل کیا ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلا اصول:… غیر موجو دذات دوسرے کو پیدا نہیں کر سکتی۔
جس چیز کا خود اپنا وجود نہیں ہے وہ کسی دوسری چیز کو پیدا نہیں کر سکتی۔ اس لیے وہ تو خود ہی غیر موجود ہے۔
انسان، حیوان اور نباتات جو روزانہ پیدا ہوتے رہتے ہیں، جب ہم ان پر غور کریں ،ہوائیں ،بارشیں ،دن اور رات ایسے حادثات زمانہ کو سوچیں ،منظم و مرتب شکل میں متحرک سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کی گردش کو سامنے رکھیں، جب ہم ان معاملات پر غور کریں گے اور ہر وقت کائنات میں ہونے والے واقعات پر نظر رکھیں گے تو عقل کا فیصلہ ہو گا کہ اس طرح کا نظام کائنات میں کسی غیر موجود ذات کا نہیں ہو سکتا۔ بلاشبہ یہ تو خالق اور موجود ذات سبحانہ، و تعالیٰ کی کاریگری کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ 0 أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ﴾ [ الطور:۳۵،۳۶]
’’کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟اصل بات یہ ہے کہ یقین نہیں رکھتے۔‘‘
دوسرا اصول :… مخلوق پر غور، خالق کی صفات کا پتہ دیتا ہے۔
مخلوق میں جو خوبیاں پائی جائیں گی ان سے خالق کی قدرت اور صفات کی دلیل ملتی ہے، کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ مخلوق میں تو کوئی خوبی نظر آئے اور خالق اس چیز کی قدرت نہ رکھتا ہو یا اس کے پاس ایسا اختیار نہ ہو جس کے ذریعے اس نے مخلوق کے اندر موجود خوبی پیدا کی ہے۔
ایک مثال پر غور کریں… لکڑی کا ایک دروازہ ہوا وروہ بہت ہی عمدہ بنا ہوا ہو، اسے دیکھتے ہی تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ دروازہ بنانے والے کے پاس لکڑی ہے اور وہ بڑی مہارت کے ساتھ اسے کاٹ بھی سکتا ہے اور وہ لکڑی کو ملائم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، اس کے پاس کیل بھی ہیں اور وہ ان کیلوں سے دروازے کے ٹکڑے جوڑنے کا ملکہ بھی رکھتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اسے دروازے بنانے کافن بھی آتا ہے۔ اسی طرح جب ہم تالا فٹ کرنے کی جگہ پر صحیح سوراخ دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ کاریگر مہارت کے ساتھ دروازے میں تالا لگانے کا سوراخ کر سکتا ہے اور اسے اپنے فن پر عبور حاصل ہے۔ اسی انداز سے ہم ہر بنی ہوئی چیز کو پاتے ہیں جو اپنے بنانے والے کی قدرت اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لیے کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ کسی بنی ہوئی چیز میں تو خوبی موجود ہو اور بنانے والا اس کی قدرت یا صلاحیت نہ رکھتا ہو… اس مثال سے ہمیں معلوم ہوا کسی بنی ہوئی چیز پر غور کرنے سے بنانے والے کی خوبیوں کا علم ہو جاتا ہے۔ اب ہمیں یہ قاعدہ معلوم ہو گیا کہ مخلوقات پر غور سے خالق کی صفات کا پتہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ 0 وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ 0 وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ 0 تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ﴾ [الجاثیۃ:۳ ، ۶]
’’ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے۔ اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور ان حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں ) پھیلا رہا ہے بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں۔ اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرتاہے ، اور ہوائوں کی گردش میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟‘‘
اور جب ہم اللہ کی مخلوق کو ذرا غور سے دیکھیں تو وہ اپنے وجود سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات مقدسہ کی خبر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
﴿قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ﴾ [ یونس: ۱۰۱]
’’( اے نبی ) ان سے کہو: زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ﴾ [ الاعراف: ۱۸۵]
’’ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور اس چیز کو بھی جو اللہ نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کونسی بات ایسی ہو سکتی ہے جس پر ایمان لائیں؟‘‘
جو کھانا ہم کھاتے ہیں وہ سنتا نہیں ہے، نہ دیکھ سکتا ہے، نہ حرکت کر سکتا ہے، نہ بڑا ہو سکتا ہے، نہ سانس لیتا ہے، نہ شادی کرتا ہے اور نہ سوتا ہے نہ جاگتا ہے۔ یہی کھانا جب جسم انسانی میں پہنچتا ہے تو ایک زندہ جسم کی شکل اختیار کر لیتا ہے اورمذکورہ بالا تمام خوبیاں اس میں آ جاتی ہیں۔ حیوانات کی خوراک کا بھی یہی عالم ہے۔ پانی، مٹی اور ہوا، جو نباتات کی خوراک ہے، ان کا بھی یہی حال ہے۔ از خود نہ وہ بڑھتے ہیں ،نہ پھل دے سکتے ہیں اور نہ خوراک لیتے ہیں، لیکن جب نباتات کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں تو یہی زندہ نباتات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور خوب لہلہانے لگتے ہیں۔ یہ زندگی جو نباتات ، حیوانات اور انسان کے جسم میں گردش کر رہی ہے، ہر جسم میں، ہر روز بلکہ ہر لحظہ رواں دواں زندگی، اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ یہ زندگی بخشنے والے کا کمال ہے۔
انسان نے بہت زور لگایا جوہر زندگی پیدا کر لے ، لیکن نتیجہ ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ نہ نکلا ۔ بالآخر مشرق و مغرب کے سائنس دان اور مفکرین اپنی ناکامی کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ﴾ [الحج: ۷۳،۷۴]
’’ لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو۔ جن معبودوں کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو، وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے ، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے کمزور، اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قد رہی نہ پہچانی جیسا کہ اسے پہچاننے کا حق ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘
جی ہاں! واقعہ یہی ہے کہ جو چیز مکھی لے اڑے انسان اسے واپس لانے میں عاجز ہے، اس لیے کہ مکھی جوں ہی کسی چیز کو حاصل کرتی ہے تو اس پر اپنا لعاب دہن ڈال دیتی ہے، چنانچہ وہ چیز فورًا ہی ایک دوسری شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اب اسے واپس لانے کا قطعًا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔
یہ زندگی جو عطا ہوئی ہے اور زندہ کائنات کو مسلسل ملتی رہے گی، یہ ہمیشہ زندہ ہستی سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے۔اسباب و وسائل مہیا ہونے کے ساتھ ہی ہر چیز موت کے خطرے میں ہے۔ البتہ اسباب موت کو پیدا کرنے والے کو کبھی بھی ان اسباب سے اندیشہ نہیں ہے۔ چنانچہ وہ ذات اقدس ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ [الحدید:۲ ]
’’ زمین اور آسمان کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے، موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ ﴾ [الفرقان:۵۸]
’’ اور ( اے نبی !) اس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں……‘‘
حیوان کے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے ذرا اس پر غور کرو۔ تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ آنکھیں تو ماں کے پیٹ میں پیدا کر دی جاتی ہیں حالانکہ وہاں پر شدیدقسم کا اندھیرا ہوتا ہے اور آنکھیں صرف روشنی میں دیکھ سکتی ہیں۔ یہ معاملہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ جس ذات نے آنکھوں کو پیدا کیا اسے خوب معلوم تھا کہ جو بچہ ماں کے رحم میں پرورش پا رہا ہے وہ ایک نہ ایک دن اس جہان میں پہنچے گا جہاں روشنی ہو گی۔ انڈے کے اندر موجود پرندے کے بچے کے پروں کی تخلیق میں بھی یہی ثبوت موجود ہے کہ اس پرندے کے پیدا کرنے والے کو خوب علم ہے کہ یہ پرندہ ایک نہ ایک دن ہوا میں پرواز کرے گا ، پرندے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے پَر پیدا کر دئیے ۔ اسی طرح ساری مخلوق کا معاملہ ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو جس قسم کی زندگی اس نے بسر کرنی ہوتی ہے اور جس قسم کے حالات اس کی زندگی میںآنے والے ہوتے ہیں اس کی مناسبت سے اس کے اندر ساری خاصیتیں رکھ دی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ درخت کے بیج کے اندر اللہ تعالیٰ نے ساری خاصیتیں رکھ دی ہیں کہ اس کا ایک حصہ پتے بنے گا ، ایک حصہ تنا بنے گا اور ایک حصہ جڑوں کی شکل میں زمین میں پھیل کر پانی اور غذا فراہم کرے گا۔ اس طرح کی کاریگری اور فن کا مظاہر ہ وہی ذات کر سکتی ہے جسے پیشگی معلوم ہو کہ یہ نباتات پانی، غذا ، روشنی اور ہوا کی ضرورت مند ہوں گی۔
ایک مذکر کی پیدائش پر غور کر لو تو معلوم ہو گا کہ خالق نے اس کے لیے ضروری اعضاء اور جوہر پیدا کر دیے ہیں۔ اسی طرح مونث کا معاملہ ہے کہ ایک خاندان کی بنیاد ڈالنے کے لیے جن اعضاء اور جواہر کی ضرورت ہو سکتی ہے وہ مونث میں رکھ د ی گئی ہیں۔ ان سب باتوں پر تم غور کرو تو لازماً اس نتیجے پر پہنچو گے کہ یہ کمالات کسی علیم ذات ہی کے ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾ [الذاریات:۴۹]
’’ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔‘‘
میٹھا پانی ایک جگہ کھڑا رہے تو بدبو چھوڑ دیتا ہے، اس لیے علیم ذات نے سمندروں کو نمکین بنایا ہے اور ان کے اندر رواں دواں ہمہ وقت متحرک موجیں پیدا کی ہیں، تا کہ سمندر کی بد بو کی وجہ سے زمین پر زندگی دشوار اور پریشان کن نہ بن جائے۔
مذکورہ بالا امور ہی نہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس کائنات کا خالق اپنی ساری مخلوق کے بارے میں کامل و مکمل علم رکھتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا خود یہی دعوی ہے۔ فرمایا:
﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ [الملک:۱۴]
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟ حالانکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو احاطے میں لیے ہوئے ہے، وہاں کبھی لاعلمی کا گزر بھی نہیں ہوا او راس سے کسی چیز کے بارے میں بھول چوک کا ہو جانا بھی محال ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ [ الطلاق:۱۲]
’’تا کہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اوریہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔‘‘
مخلوقات کی صورتوں پر ذرا غور تو کرو ، تم اس نتیجے پر پہنچو گے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر جنس کو ایک ہی طرح عمدگی سے ساخت کیا ہے۔
انسان کی مثال سامنے رکھو۔ آنکھیں چہرے پر سجائی ہیں، ناک کو ان دونوں کے درمیان میں رکھا ہے،ہاتھوں کو دونوں طرف پہلو میں لگایا ہے، پائوں نیچے ہیں۔ کسی انسان کی آنکھ گھٹنے پر لگی ہو یا کسی کا ہاتھ سر کے اوپر اگا ہوا ہو، ایسا کبھی نہیں دیکھو گے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ سب کچھ کسی داناذات کی کاریگری ہے، جس نے انسان کو بہت عمدہ طریقے سے بنایا ۔ ہر طرح کے حیوانات اور نباتات کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ایک قسم کی مخلوق کو ایک ہی شکل اور ایک ہی انداز میں پیدا فرمایا ہے۔ جس ذات نے اتنی کاریگری سے یہ شکلیں بنائی ہیں، اس کا اپنا دعویٰ ہے:
﴿هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ [آل عمران:۶]
’’وہی تو ہے جو تمہاری مائوں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتا ہے بناتا ہے، اس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی خدا نہیںہے۔‘‘
جس ہوا میں تم سانس لیتے ہو اس پر ذرا غور کرو۔ تم صاف ستھری ہوا ( آکسیجن )اندر لے جاتے ہو اور گندی ہوا ( کاربن ڈائی آکسائیڈ) باہر نکالتے ہو۔ اس کے باوجود صاف ستھری ہوا کی مقدا کم نہیں ہوتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نباتات کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ صاف ستھری ہوا ( آکسیجن) کی کمی پوری کرتے رہیں، تا کہ ایک مقرر مقدار میں صاف ستھری ہوا فراہم ہوتی رہے اور اس نظام میں کمی بیشی نہ ہو۔ یہ اس بات کی شہادت کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ سارا نظام ایک علیم و حکیم ہستی کا ہو سکتا ہے؟
ذرا اپنے ناک پر غور کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اسے کیسی عمدگی کے ساتھ فٹ کیا گیا ہے اور اس کا جو مقصد ہے وہ اسے کس خوبی کے ساتھ پورا کر رہا ہے۔ آنکھوں کے درمیان میں دو سوراخوں سے ہوا داخل ہو رہی ہے۔ البتہ حکیم و علیم ذات نے ان دونوں سوراخوں کو ناک سے ڈھانک دیا ہے اور پھر ناک کے اوپر والے حصے کو ہڈی کا بنایا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہوا کا دبائو اس ڈھکنے ( ناک) پر پڑے اور دونوں سوراخ بند ہو جائیں، نتیجتاً سانس کی آمدورفت رک جائے۔ ناک کی ہڈی کا یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ آنکھوں کی حفاظت کرتی ہے اور ہوا کے گزر کے لیے ناک کو کھلا رکھتی ہے۔ اگر بالفرض، سارا ناک ہڈی کا بنا ہوتا تو ہم بلغم نہ نکال سکتے۔ ادھر خالق کی کاریگری کا کمال دیکھیے کہ اس نے ناک کی دیوار کو ٹیڑھا بنایا ہے تا کہ ہوا پہلے ٹیڑھی دیوار سے ٹکڑائے ،پھر پلٹ کر اندرونی رکاوٹوں کی طرف جائے اور وہاں جا ٹکرائے ۔ اس طرح اندر جانے والی ہوا ناک کے اندرونی حصے میں موجود بلغم سے ٹکراتی ہوئی جائے۔ نتیجتاً جراثیم اور گردو غبار اس بلغم سے چپک کر رہ جائیں اور اندر داخل ہونے سے پہلے ہی ہوا صاف و شفاف ہو جائے۔ سردیوں کے موسم میں ناک میں خون اکٹھا ہو جاتا ہے اور وہ سرخ نظر آتا ہے اور ایسا اندر داخل ہونے والی ہوا کو گرم کرنے کی خاطر ہوتا ہے، اور ادھر گرمیوں میں ناک گرم اور خشک ہوا کو مرطوب بنانے اور ٹھنڈا کرنے میں لگ جاتا ہے۔ کیا یہ انتظام کافی شہادت فراہم نہیں کرتا کہ یہ کسی علیم و حکیم ذات ہی کی کاریگری کا مظہر ہے؟
اسی طریقے سے اگر ہم زمین و آسمان کی تمام چیزوں پر غور کرنا شروع کر دیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہر چیز انتہائی مناسب اور بہترین طریقے سے پیدا کی گئی ہے ۔ اور ہر چیز کے اندر ایسی بے مثال کاریگری ،عقلمند آدمی کے لیے اطمینان بخش گواہی ہے کہ یہ کسی علیم و حکیم ذات ہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ﴾ [الزخرف:۸۴]
’’وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ، اور وہی حکیم و علیم ہے۔‘‘
اپنے کھانے پر ذرا غور تو کرو۔ اگرچہ وہ ایک ہی مٹی اور ایک ہی پانی سے پیدا ہوا ہے لیکن کیسے کیسے مختلف رنگ، مختلف قسمیں اور مختلف شکلیں ہیں۔ یہ سب چیزیں تمہیں گواہی دیں گی کہ یہ کسی خبیر ہستی کی صناعی ہے، جو ایک ہی خام مال سے مختلف چیزیں کیسی عمدگی سے تیار کر دیتی ہے ۔ ذرا خوراک پر غور کرو، کس طرح یہ خبیر ذات اس خوراک سے گوشت ،خون، ہڈی ،چربی ،دودھ، چمڑا، بال، انگلیاں، ناخن، پٹھے اور مختلف سیال مادے تیار کر دیتی ہے۔
اپنے چہرے پر ہی غور کر لو کہ کیا ہی خوب معاملہ ہے؟ لعاب منہ سے نکلتا ہے، بلغم ناک سے بہتی ہے، آنسو آنکھوں سے آتا ہے ، اضافی چکناہٹ کانوں میں ہوتی ہے اور یہ ساری کی ساری چیزیں ایک ہی کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس انداز میں ان چیزوں کی پیدائش خود ایک شہادت ہے کہ یہ کسی خبیر ذات کا کمال ہے۔
اگر لعاب ناک سے نکلنا شروع ہو جاتا ،بلغم منہ سے ،چکناہٹ آنکھوں سے اور آنسو کان سے ،تو کیا حال بنتا ؟ یہ کس کی تقسیم ہے اور کس نے ان جگہوں کا انتخاب کیا ہے؟ کیا یہ سارا علیم و حکیم و خبیر ذات کا کارنامہ نہیں ہے؟
اور منی کے اس قطرے پر ذرا غور کر لیں جس سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے۔ خبیرو علیم و حکیم ذات نے اسی قطرے سے کیسے کیسے خوب صورت اعضاء تخلیق کیے ہیں اور انسان کی خدمت کی خاطر کیسی مفید مشینری اس کے اندر بنائی ہے۔(دل،گردے،پھیپھڑے، معدہ، جگر،آنتیں وغیرہ وغیرہ)
سانس لینے کی خاطر مچھلی کو پانی کے اندر سے ہوا کی ضرورت رہتی ہے۔ خبیرو رحیم ذات نے ہوا کو بارش کے ان قطروں میں گھول دیا جو کہ سمندر پر برستی رہتی ہے اور مچھلی کو ایک قسم کا آلہ دیا جسے ’’گل پھڑے‘‘ کہا جاتا ہے،جن کے ذریعے مچھلی ہوا کو پانی سے علیحدہ کر لیتی ہے۔
جب تم غورو فکر کرو گے تو لازمًا اس نتیجے پر پہنچو گے کہ کائنات کی ہر چیز کمال مہارت کے ساتھ پیدا کی گئی ہے اور یہ چیزیں پکار پکار کر تمہیں گواہی دیں گی کہ یہ خبیرذات سبحانہ و تعالیٰ کی کاریگری کا مظہر اور نمونہ ہے۔
جس وقت انسان ماں کے رحم کی تاریکیوں میں ہوتا ہے تو کوئی انسان اس کی غذا اور پانی کا انتظام نہیں کر سکتا، حتی کہ باپ اور وہ ماں بھی نہیں کر سکتی جس کے پیٹ میں بچہ پرورش پا رہا ہوتا ہے۔ رب رزاق کی رحمت و عنایت کا مظاہرہ دیکھیے، اسے پکا پکایا، تیار رزق فراہم ہوتا ہے، اور یہ رزق رسانی ناف کے ذریعے ہوتی ہے۔ اور جب بچہ اس دنیا میں آ جاتا ہے اور ناف والا راستہ بند ہو جاتا ہے، تو رزاق ہستی اس بچے کا رزق ماں کے سینے سے جاری کر دیتی ہے اور بچے کو غذا حاصل کرنے کا طریقہ بھی سکھلادیتی ہے، چنانچہ وہ ماں کے سینے کو چوسنا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتظام اس مرحلے میں ہوتا ہے جب انسان نہ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے اور نہ ہی کو ئی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بندوں کو کھیتوں اور درختوں سے رزق دیتا ہے، اور یہ چیزیں کھانے کا سامان پانی، مٹی اور ہوا کے ذریعے سے فراہم کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ انسان اور حیوان کی غذا کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ میٹھا پانی رواں نہ کرتا، عمدہ اور زرخیز مٹی نہ بناتا، مناسب حالات اور موسم کا انتظام نہ کرتا، تو اس طریقے سے نباتات کے ذریعے سے غذا کا انتظام کرنا محال اور نا ممکن ہو جاتا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ 0 أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا 0 ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا 0 فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا 0 وَعِنَبًا وَقَضْبًا 0 وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا 0 وَحَدَائِقَ غُلْبًا 0 وَفَاكِهَةً وَأَبًّا 0 مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ﴾ [عَبَسَ:۲۴ تا ۳۲]
’’پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے ،ہم نے خوب پانی لنڈھایا( برسایا) ، پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا، پھر اس کے اندر اگائے غلے، اور انگور اور ترکاریاں، اور زیتون اور کھجور، اور گھنے باغ، اور طرح طرح کے پھل اور چارے، تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طور پر۔‘‘
جب انسان یا حیوان خوراک کھا لیتا ہے اور ہر مخلوق کو جو مشینری اور آلات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں ان کے ذریعے سے اس خوراک کو ہضم کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس خوراک کو زندہ جان کے ایک ایک حصے تک پہنچا دیتا ہے، چاہے وہ دماغ کا بالکل درمیان ہو یا چمڑی کا اوپر والا حصہ یا ہڈیوں کے اندر کا گودا (مخ)۔ اللہ تعالیٰ نے کیا صحیح فرمایا:
﴿أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ ﴾ [الملک:۲۱]
’’یا پھر بتائو، کون ہے جو تمہیںرزق دے سکتا ہے اگر رحمن اپنا رزق روک لے؟ دراصل یہ لوگ سر کشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رزاق ذات نے ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مچھلیوں کو سمندر کی گہرائیوں میں بھی اللہ رزق دے رہا ہے اور پہاڑ کی چٹانوں کے اندر موجود کیڑوں کوبھی اللہ رزق عطا کر رہا ہے او ررحم مادر کی تاریکی میں موجود بچے کو بھی رزق فراہم کر رہا ہے، حتیٰ کہ بیج کے پیٹ میں پرورش پانے والی نباتات کی کونپلوں کو بھی اللہ تعالیٰ رزق دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ [ھود:۶]
’’ اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّـهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴾ [فاطر:۳]
’’ لوگو! تم پر جو اللہ کے احسانات ہیں انہیں یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟‘‘
اور جس آدمی کو یہ یقین ہو جائے کہ اس کا رزق اس کے خالق کی طرف سے عطا ہوا ہے اور کوئی اس کا رزق نہیں چھین سکتا تو وہ آدمی رزق کے بارے میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا ۔
آنکھوں کی پلکوں پر ذرا غور کر کے دیکھو۔ اوپرکی پلکیں اوپر کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور نیچے کی پلکیں نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہیں۔ اگر یہ معاملہ الٹ ہوجائے تو دیکھنا دشوارہو جائے ۔ کون ذات ہے جس نے یہ راہنمائی کی؟ آنکھ انسان کی ہو یا حیوان کی ، اس کے ہر بال کو کون یہ راہنمائی دے رہا ہے؟ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟
کون ہے نچلے جبڑے کے دانتوں کو بتلاتا ہے کہ اوپر کی طرف جائو اور اوپر والے جبڑے کے دانتو ں کو سکھاتا ہے کہ نیچے کی طرف جائو؟ اور کس نے کچلیوں سے کہا کہ تم ٹھیک دوسری طرف کی کچلیوں کے بالمقابل نکلو اورد انت، دانتوں کے اوپر بیٹھیں اور ڈاڑھیں ڈاڑھوں پر آ لگیں۔ وہ ذات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کون ہو سکتی ہے؟ اسی لیے تو فرمایا:
﴿الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ 0 وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ﴾ [الأعلی:۲،۳]
’’جس نے پیدا کیا او رتناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی، پھر راہ دکھائی۔‘‘
کون ذات ہے جو نباتات ،حیوانات اور انسان کے ایک ایک عضو کو اپنی صحیح جگہ پر لگنے کی راہ دکھاتا ہے اور پھر دوسرے اعضاء کی مناسبت سے ایک مقرر مقدار تک چھوٹا بڑا ہونے کی تعلیم دیتا ہے؟
اور وہ کون ذات ہے کہ ہر ایک بیج کو بتلائے کہ اپنی جڑوں کو زمین کے نیچے بھیج دو، تنے اور پتوں کو اوپر اٹھادو؟ آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کسی ایک بیج کے معاملے میں ہی طریق کا رپلٹ دیا گیا ہو۔
ایک عقل مند آدمی کے لیے کیا یہ سارا نظام اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ’’ الہادی سبحانہ و تعالیٰ‘‘ کی کاری گری اور صفات کا کرشمہ ہے؟ کون ہے جو درخت کے پتوں کو آ کر کہتا ہے کہ تم تنے یا شاخ پر آپس میں ایک دوسرے سے دور دور ہو کر نکلو؟ ہوتا یوں ہے کہ جب پہلا پتا ایک طرف نکلتا ہے تو دوسرا پتا ٹہنی کی دوسری طرف جا نکلتا ہے۔
اور کون ذات ہے جو سورج ،چاند ،ستاروں کو راہنمائی دیتی ہے؟ اور دور دور تک سفر کرنے والے پرندوں کو ان کے اصل وطن تک راستہ دکھاتی ہے؟ توجہ سے سن لو ، اس ذات کا نام ’’الہادی سبحانہ و تعالیٰ‘‘ ہے۔
﴿الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ 0 وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ﴾ [الاعلی:۲،۳]
’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔‘‘
جس نے بالی ، بیج اور پتے کو راہ دکھائی ہے اسی ذات نے انسان کو کامل و مکمل ہدایت سے سرفراز کیا ہے۔ چنانچہ اس نے انسان کی ہدایت کی خاطر رسولوں کو مبعوث فرمایا اور ہدایت کے راستے شاہراہ عام کی طرح اس کے سامنے کھول کر رکھ دئیے۔
جس آدمی نے دل کی گہرائیوں سے مان لیا کہ اللہ ہی ہادی و حکیم ہے، وہ آدمی ایسے نظرئیے کو قطعاً قبول نہیں کر سکتا جو اللہ کی ہدایت سے ٹکراتا ہو۔ وہ تو نعرہ لگائے گا:
﴿قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ﴾ [الأنعام:۷۱]
’’ببانگ دہل کہہ دو : حقیقت میں صحیح راہنمائی تو صرف اللہ ہی کی راہنمائی ہے۔‘‘
جب تم ماں کے پیٹ میں پرورش پا رہے تھے،جس ذات نے اس وقت تمہاری حفاظت کی ، وہی ذات سر کی مضبوط ہڈیوں کے خول میں نازک و لطیف دماغ کی حفاظت کرتی ہے۔ وہی ذات ابرو،ناک اور رخسار کی ہڈیوں کے درمیان آنکھ کی حفاظت کرتی ہے اور سینے کی ہڈیوں کے جال میں دل اور پھیپھڑوں کی حفاظت کرتی ہے۔
وہی ذات تو ہے جو تمہاری ساری زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ اس نے خوراک، پانی ہوا، روشنی اور گرمی وغیرہ کے اسباب زندگی فراہم کیے ہیں۔ اس نے تمہاری یہ ذمہ داری نہیں لگائی کہ تم خود ہی سوتے جاگتے اپنے جسم میں ہوا داخل بھی کرو اور نکالوبھی ۔ اگر صرف یہی ایک ذمہ داری لگ جاتی تو تم ہوا کو اندر داخل کرنے اور باہر نکالنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کر سکتے ۔ جوں ہی نیند کا غلبہ ہوتا ہوا کی آمدورفت رک جاتی اور موت واقع ہو جاتی ۔
یہ اللہ تعالیٰ کی محافظ ذات ہی ہے جو بادلوں کو تمہارے سر تک لے آت ہے، لیکن انہیںسیلاب کی طرح یک بارگی انڈیل نہیں دیتی۔ اس طرح تو نباتات اور تمام جاندار ختم ہو جاتے۔
یہ اللہ کی محافظ و نگران ذات کا کمال ہے کہ اس نے زمین کو ہوا کے ایسے غلاف میں لپیٹ رکھا ہے جو سورج اور ستاروں سے آنے والی خطرناک شعائوں کو روکے رکھتی ہے، ورنہ تو ہر جاندار ہی کیا زندگی کے آثار تک ختم ہو جاتے۔ دن رات روزانہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شہاب اور تارے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر برستے رہتے ہیں۔ یہ اسی ذات محافظ کا کمال ہے کہ اس نے ہوا کا ایسا غلاف بنایا ہے جو زمین کی حفاظت میں لگا رہتا ہے۔ اور اسی ذات نے پہاڑوں کے ذریعے زمین کو ہمارے قدموں تلے جما دیا ہے، ورنہ تو یہ جھولتی رہتی ۔
کیا ہم سب کو ان احسانات پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر گزار نہیں رہنا چاہئے، جس نے اندر سے ،باہر سے ، اوپرسے، نیچے سے ہماری حفاظت فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی سچی بات کہی ہے:
﴿لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۗ﴾ [الرعد:۱۱]
’’ہر شخص کے آگے اورپیچھے اس (اللہ تعالیٰ ) کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔‘‘
جس آدمی کو یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ خود اس کی حفاظت کر رہا ہے، چنانچہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے اس سے زیادہ زمین و آسمان کی کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی، ایسا آدمی تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر دل کی گہرائی سے ایمان لے آئے گا :
﴿قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ ﴾ [ التوبہ:۵۱]
’’ ان سے کہو: ہمیں ہرگز ( کوئی برائی یا بھلائی)نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔‘‘
ایک کھانے کی مثال سامنے رکھ کر ذرا غور کرو، اسے پورا خاندان کھاتا ہے، وہ مرد کے جسم میں جا کر مرد کی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور عورت کے جسم میں جا کر عورت کا جسم بن جاتا ہے اور بچے کے جسم میں جا کر بچے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور یہی کھانا اگر بلی کھاتی ہے تو بلی کا جسم اختیار کرلیتا ہے، اسی طرح اگر چوہا یا کتا کھاتا ہے تو وہ کھانا چوہے اور کتے کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے، حالانکہ وہ ایک کھانا ہے…… اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، وہ ہر چیز کو جس شکل و صورت میں چاہے بنا دیتی ہے۔
ماں خواہ انسان کی ہو یا حیوان کی ، اولاد کے بارے میں اس کی شفقت اور مامتا پر ذرا غور کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ ماں اپنی اولاد کی خاطر کتنی قربانی دیتی ہے، حتی کہ ایک مرغی جو بچے کی آواز سے ڈر جاتی ہے، کوئی اس کے چوزے کو ہاتھ لگا کر تو دیکھے، یہی مرغی اس پر جھپٹ پڑتی ہے۔ یہ اس ماں کی شفقت و مامتا کا تقاضا ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ رحمن و رحیم ذات کی عنایت کا مظہر ہے۔
ستاروں جیسی عظیم و ضخیم مخلوق پر ذرا غور کرو، یہ ہماری زمین سے لاکھوں کروڑوں گنا بڑے ہیں۔ دوسری طرف اس لطیف و باریک مخلوق کو دیکھو جو پانی کے ایک قطرے میں لاکھوں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ اب سوچو یہ کیسی کیسی مخلوق ایک ہی نظام اور ایک ہی محکم اور مضبوط نظم کے تحت کس طرح چل رہی ہے…… جو اب خود بخود مل جائے گا کہ یہ ساری کائنات مضبوط و نگران اور سب پر غالب ذات کی صناعی و کاریگری کا شاہکار ہے۔
کائنات میں موجود ہر چیز زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ وہ ایک اور یکتا ذات کی کاریگری کا نمونہ ہے۔
ایک مثال کو سامنے رکھ کر غور کرلیں کہ غذا کے ہضم کا دارومدار معدے اور انتڑیوں پر ہے۔ طبیبوں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انتڑیوں کی کارکردگی دوران خون سے منسلک ہے، اور خون کی حرکت سانس اور ہوا پر موقوف ہے اور سانس کے لیے صاف ستھری ہوا کا تعلق نباتات ( سبزہ زاروں اور درختوں) سے ہے، اور نباتات کی نشوونما سورج کی وجہ سے ہے، اور سورج اپنے گردو پیش موجود ستاروں اور سیاروں کے بل بوتے پر کام کرتا ہے۔ تو اس مثال سے معلوم ہوا کہ ہر چیز اپنے وجود اور کارکردگی میں دوسروں کی محتاج ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معدہ کا تعلق آسمانی ستاروں سے بھی ہے۔ اس طرح ہر چیز گواہی دے رہی ہے کہ یہ ایک رب کی کاریگری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿مَا اتَّخَذَ اللَّـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ﴾ [المؤمنون:۹۱]
’’اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ 0 اللَّـهُ الصَّمَدُ 0 لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ﴾ [الاخلاص:۱،۳ ]
کہو وہ اللہ ہے،یکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔‘‘
اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کائنات میں دوسرے خدا بھی ہوتے تو نظام کائنات چلانے میں جھگڑا ہو جاتا۔ اس صورت میں زمین و آسمان فساد سے بھرجاتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّـهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ﴾ [ الانبیاء:۲۲]
’’اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ( زمین وآسمان ) دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش ، ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔‘‘
سابقہ گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ہم اپنے ارد گرد مخلوقات اور کائنات پر غور کریں تو ایک ایک چیز گواہی دے رہی ہے کہ ان مخلوقات کو پیدا کرنے والی صرف وہی ذات ہے جس کی صفات یوں ہیں:
الخَالِق،الحَیُّ، الدَّائِم ، العَلِیم ،الحَکِیم، الخَبِیر، الرَّزَّاق، الھَادِی، الحَافِظ، المُصَوِّر، الرَّحِیم، القوِیُّ، القادِر، المُھَیْمِنُ، الوَاحِد، الْاَحَد۔
جس طرح ساری کائنات ان حقائق اور صفات باری تعالیٰ کی شہادت دے رہی ہے تو ساری کائنات کے ساتھ ہمنوا ہوکر ایک مسلمان بھی یہی شہادت علم و یقین کے ساتھ دے رہا ہے اور صبح و شام اقرار کرتا ہے:
’’ اَشْھَدُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ‘‘
پہلے قاعدے سے ہمیں معلوم ہوا کہ جس چیز کا اپنا وجود نہ ہو وہ کسی دوسری چیز کو پیدا نہیں کر سکتی… دوسرے قاعدے سے ہمیں خالق کائنات کی صفات کا علم ہوا… تیسرے قاعدے سے ہمیں معلوم ہو گا کہ مذکورہ بالا ساری صفات صرف اللہ وحدہٗلاشریک کی ہو سکتی ہیں۔
تیسرا قاعدہ:خود محروم، دوسرے کو کچھ نہیں دے سکتا۔
جس آدمی کے پاس مال نہ ہو ، یعنی کنگال ہو، لوگ اس سے مال مانگنے نہیں جاتے اور جاہل سے علم حاصل نہیں ہوتا، اس لیے کہ جو آدمی خود ہی محروم ہے وہ دوسرے کو کیا دے گا۔
مخلوق میں موجود علامتوں اور نشانیوں پر غور کرنے سے ہمیں خالق سبحانہ و تعالیٰ کی صفات کا علم ہوا۔ جب ہمیں صفات کا علم ہو گیا تو صاحب صفات ہستی ( موصوف ) کی ذات معلوم ہو گئی۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ فطرت نے انہیں پیدا کیا، انہوں نے عقل سلیم کے خلاف بات کہی اور حقیقت سے جنگ کی۔ اس لیے کہ ساری کائنات بزبان حال گواہی دے رہی ہے کہ اس کو بنانے والی ذات حکیم ، علیم، خبیر،ہادی ،رازق، حافظ، رحیم ،واحد اور احد ہے۔ گونگی بہری بے جان فطرت ،نہ اس کے پاس علم ہے نہ حکمت ، نہ زندگی ، نہ رحمت اور نہ ہی اس کا اپنا کوئی منصوبہ یا پروگرام ہے۔ معلوم نہیں نادان لوگوں کو یہ وہم و گمان کہاں سے لاحق ہو گیا ؟ حالانکہ اصول یہ ہے کہ خود محروم دوسرے کو کچھ نہیں دے سکتا۔
مخلوق میں جو صفات ( خوبیاں یا کوتاہیاں) پائی جاتی ہیں، وہ اس کی فطرت ہے۔ پرانے بت پرستوں نے اسی فطرت کے بعض اجزاء کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر پوجا ہے۔ کسی نے سورج کو ، کسی نے چاند کو، کسی نے ستاروں کو ، کسی نے آگ کو ، کسی نے پتھروں کو اور کسی نے انسان کو بت بنا ڈالا اور پوجا۔ اور آج کے فطرت پرست پڑھے لکھے جاہلوں کا خیال ہے کہ تاریک زمانے میں پوجے گئے بتوں کے مجموعے یعنی فطرت نے ہی انہیں پیدا کیاہے، حالانکہ صورت حال یوں ہے کہ فطرت کے پاس عقل نہیں ہے اور یہ لوگ عقل کے مالک ہیں فطرت کے پاس علم نہیں ہے اور ان لوگوں کے پاس علم بھی ہے، اور فطرت کا اپنا کوئی ارادہ اور پروگرام نہیں ہوتا اور یہ لوگ اپنے ارادے کے مالک ہیں۔ آخر ان لوگوں کو احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جو خود محروم ہو، وہ دوسرے کو کیا دے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ﴿٧٣﴾ مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ [الحج:۷۳ ، ۷۴]
’’لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے غور سے سنو، جن معبودوں کو تم خداکو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے، بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جا رہی ہے وہ بھی کمزور ۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی، جیسا کہ اسے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘
منکرین خدا کی ایک جماعت کا خیال ہے بلکہ ایمان ہے کہ فطرت نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ مشاہدہ ہے کہ انسان یا حیوان کی گندگی سے کیڑے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔
یقیناسائنس بہت ترقی کر چکی ہے اور لوگوں کو بہت سارے حقائق کا علم ہو چکا ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ گندگی یا کوڑے کرکٹ میں جو کیڑا پیدا ہوتا ہے وہ اس چھوٹے سے انڈے سے برآمد ہوتا ہے جسے آنکھ از خود نہیں دیکھ سکتی بلکہ اسے مائیکرو سکوپ یا کسی دوسرے آلہ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح ملحدین کا شبہ از خود ختم ہو جاتا ہے۔
ملحدین اپنا دوسرا شبہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: یہ صحیح ہے کہ ایک کیڑا دوسرے پچھلے کیڑے کی وجہ سے پیدا ہوا اور اس کا ذریعہ وہ باریک سا انڈہ ہے جسے ہم دیکھ بھی نہیں سکتے۔ چلیے یہ تو مانیے کہ جن جراثیم نے آ کر کھانے کو خراب کیا ہے وہ جراثیم فطرت کی پیداوار ہیں او رسابقہ جراثیم کے ذریعے پیدا نہیں ہوئے۔
اس شبہ کو بھی آج سے اسی ( ۸۰) سال سے زیادہ عرصہ پہلے علمی طور پر غلط ثابت کیا جاچکا ہے، جب عملی تجربہ کرنے والوں نے کھانے کو بغیر بدبو اور خرابی کے عرصہ دراز تک محفوظ کرنے کا تجربہ کیا ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کھانے کو مضبوط برتن میں اچھی طرح بند کر دیا جائے ، حرارت یا شعاعوں کے ذریعے سے اس میں موجود جراثیم کو ختم کر دیا جائے اور اسے اس طرح ہوا بند ( AIRTHIGHT)کر دیا جائے کہ ہوا کے ذریعے وہاں جراثیم نہ آ سکیں۔ اس تجربے سے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ مخلوقات سابقہ موجود مخلوقات کے ذریعے وجود میں آتی ہیں اور اس میں فطرت کا کو ئی کردار نہیں ہوتا ، جیسا کہ جاہل و نادان ملحدین کا خیال ہے۔
اے میرے مسلمان بھائی! اس میں تعجب یا حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ ملحدین کے متعدد راہنما و پیشوا صحیح اور حق بات کو اسی ( ۸۰) سال سے زیادہ عرصے سے جانتے ہیں، اس کے باوجود دور جدید کی جاہلیت اور الحاد کو پھیلانے اور عوام تک پہنچانے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ الحاد اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔