سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(252) شوہر کے پاگل ہو جانے کی صورت میں بیوی کیا کرے؟

  • 23017
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1319

سوال

(252) شوہر کے پاگل ہو جانے کی صورت میں بیوی کیا کرے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب مولانا مولوی حافظ عبد اللہ صاحب ۔ السلام علیکم عرض خدمت یہ ہے کہ حال انتقال جناب منشی معین الدین صاحب مرحوم کا آپ کو خوب معلوم ہو گا اور یہ بھی سنا ہو گا کہ اپنی لڑکی کی شادی مقام صاحب گنج میں کیا تھا شادی کے ہفتہ عشرہ بعد خود قضا کیا اب ان کے دونوں لڑکے اوریہ لڑکی کی جس کی شادی کیا ہمارے ساتھ ہیں اور میں ان لڑکوں کا حقیقی ماموں ہوں۔ مرضی مالک ایسی ہوئی کہ شادی کے دو مہینہ بعد داماد معین الدین مرحوم کا یعنی شوہر اس لڑکی کا پاگل ہو گیا اور آج تک صحت نہیں ہے۔چنانچہ بانکی پور پاگل خانہ میں ایک برس سے زیادہ ہوتا ہے کہ واسطے علاج کے ڈاخل کیا گیا ہے مگر ہنوز کچھ صورت افاقہ نہیں ہے اور نہ امید معلوم ہوتی ہے اور لڑکی بالغ ہوگئی ہے اور سن پندرہ تخمیناً برس سے زیادہ کا ہے اور لڑکی کا سسر جو کچھ زیور بدن میں لڑکی کے تھا وہ سب علاوہ اس کے اسباب کے مقبوضہ اس کا وقت آنے کے روک رکھا اس شک پر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس لڑکی کی دوسری شادی کردیں اور یہاں میکہ کے لوگوں کی یہ رائے ہوئی کہ اس بارے میں جناب حافظ صاحب سے مسئلہ دریافت کرو کہ اس لڑکی کا دوسرا عقد ہو سکتا ہے یا نہیں اور ہم کو کب تک انتظار صحت کا اس کے کرنا چاہیے؟اس واسطے عرض خدمت یہ ہے کہ حجور اس بات کو خوب سمجھ کر اور تحقیق فرما کر تحریر فرمائیے کہ ایسی ھالت میں دوسرا عقد ہو سکتا ہے اور میں کیا کروں؟جیسا تحریر فرمائیں گے ویسا عمل کروں گا۔مقام آرہ محلہ ملکی کتھاری بولن میاں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں حاکم وقت کے حضور میں منجانب لڑکی درخواست کی جائے کہ اس کا شوہر اس قدرمدت سے پاگل ہوگیا ہے اور آج تک صحت نہیں ہے اور ایک برس سے زیادہ ہوتا ہے کہ واسطے علاج کے بانکی پورپاگل خانہ میں داخل کیا گیا ہے مگر ہنوز کچھ صورت افاقہ نہیں ہے اور نہ امید معلوم ہوتی ہے لہٰذا حضور میں عرضی ہذا گزران کر امید وار ہوں کہ حسب فتوی شرع شریف منسلکہ عرضی ہذا میرے اور میرے شوہر فلاں ولد فلاں کے درمیان تفریق کردی جائے کہ بعد تفریق دوسرا عقد کر لوں۔ جس سے میرا گزر ہو سکے۔ زاد المعاد (2/193مطبوعہ کانپور) میں ہے ۔

عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى بَعْضِ السِّعَايَةِ فَتَزَوَّجَ امْرَأَةً وَكَانَ عَقِيمًا فَقَالَ لَهُ عمر: أَعْلَمْتَهَا أَنَّكَ عَقِيمٌ؟ . قَالَ: لَا، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْلِمْهَا ثُمَّ خَيِّرْهَا» .وَأَجَّلَ مَجْنُونًا سَنَةً فَإِنْ أَفَاقَ وَإِلَّا فَرَّقَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ.اھ[1] واللہ تعالیٰ اعلم۔

(ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مجنون آدمی کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی۔ اگر اس کو اس دوران افاقہ ہو جائے تو درست ورنہ (مجنون شوہر اور اس کی بیوی ) دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے)کتبہ: محمد عبد اللہ (9/جمادی الاخر 1332ھ)


[1] ۔زاد المعاد (5/163)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:447

محدث فتویٰ

تبصرے