سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) بیوی شوہر کا کب تک انتظار کرے؟

  • 23014
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1412

سوال

(249) بیوی شوہر کا کب تک انتظار کرے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص زید عرصہ چار سال سے افریقہ چلا گیا،پیچھے اس جگہ اپنی بیوی منکوحہ  کو چھوڑ گیا۔تین سال تک اس نے دو سو روپیہ بھیج دیا۔اب سنا جاتا ہے کہ سال  بھر سے وہ خمر خواری میں مشغول ہے اور کوئی عور ت بھی بغیر نکاح کے رکھے ہوئے ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں وطن کو کبھی جاتا ہی نہیں نہ اب وہ خرچ دیتا ہے اور نہ آباد کرتا ہے نہ چھوڑتا ہے۔ایسی صورت میں اس عورت کو کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت منکوحہ کے شوہر کے ذمہ دو حق ہیں۔ایک اس کی ذات اور جان میں کہ وہ اس کی حاجت نفسانی کو، جو درحقیقت ایمانی ہے پورا کرے۔دوسرے اس کے مال میں کہ وہ موافق دستور کے اور حسب حیثیت اس کو مہر ونان پارچہ وغیرہ ضرورتوں کے لیے خرچ دے۔

پہلے حق کی میعاد شارع نے نہایت چار ماہ تک رکھی ہے،اس کے بعد اس حق کو باوجود استطاعت شوہر کے روکنے پر عورت کو طلاق لینے کا حق عطا کیا ہے۔جو شخص قسم کھالے یا بغیر قسم کے اپنی عورت کو یہ کہہ دے کہ میں اس کے پاس نہ جاؤں گا اور سالہا سال اس پر عمل کرے،اس کی عورت چار ماہ تک اس کا انتظار کرے گی اور اس کے بعد وہ طلاق لینے کی مستحق ہوجائے گی۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿لِلَّذينَ يُؤلونَ مِن نِسائِهِم تَرَبُّصُ أَربَعَةِ أَشهُرٍ فَإِن فاءو فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٢٢٦ وَإِن عَزَمُوا الطَّلـٰقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٢٧﴾... سورة البقرة

"یعنی جولوگ اپنی ازواج کے پاس نہ جانے کی قسم کھالیں،ان کے رجوع کا انتظار چار ماہ تک ہوگا،پھر اگروہ رجوع کریں تو اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔اگر وہ طلاق کاارادہ کرلیں تو اللہ اس کو سننے جاننے والا ہے۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم   کے بارہ اصحاب کا فتویٰ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد ان لوگوں کو حاکموں کے سامنے حاضر کیا جائے  گا،تا کہ وہ عورتوں کی طرف رجوع کریں یا ان کو طلاق دیں۔یہ منتقی ونیل الاوطار(6/184) میں منقول ہے،بغیر قسم کھانے کے بھی جو لوگ گھر میں رہ کر یا سفر اور جنگوں میں شامل ہونے کے وجہ سے گھر سے غیر حاضر رہیں،ان کے حق میں بصورت حاضری وطن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بحکم آیت قرآنی شریف چوتھے مہینے عورت کی حاجت روائی کاحکم کرنے اور بصورت غیر حاضری یا سفر کے چوتھے مہینے اپنی عورتوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاہے۔

تاریخ الخلفاء کے صفحہ(96،97) میں روایت ہے:

"اخرج عبدالرزاق في مصنفه عن قتاده والشعبي قال:جاءت عمر  رضي الله تعاليٰ عنه امراة فقالت:زوجي يقوم الليل ‘وبصوم النهار فقال عمر رضي الله تعاليٰ عنه لقد احسنت الثناء علي زوجك فقال كعب:لقد شكت فقال عمر رضي الله تعاليٰ عنه ‘كيف؟ قال:تزعم انه ليس لها من زوجها نصيب قال:فاذا فهمت ذلك فاقض بينهما فقال يا امير المومنين رضي الله تعاليٰ عنه احل الله لي من النساء اربعا‘فلها من كل اربعة ايام يوم‘ومن كل اربع ليال ليلة[1] واخرج عن ابن جريج قال:اخبرني من اصدقه ان عمر رضي الله تعاليٰ عنه بينا هو يطوف سمع امراة تقول:"تطاول هذا الليل واسود جانبه ....... وارقني ان لا حبيب ألاعبه
فلولا حذار الله لاشي مثله ....... لزعزع من هذا السرير جوانبه
فقال عمر رضي الله عنه : مالك؟ قالت : أغربت زوجي منذ اشهر وقد اشتقت اليه قال: أردت سوءا قالت معاذ الله قال: فاملكي عليك نفسك فانما هو البريد اليه. فبعث اليه ثم دخل على حفصة ابنته رضي الله عنها فقال اني سائلك عن آمر قد أهمني فافرجيه عني. في كم تشتاق امرأة الى زوجها فخفضت رأسها واستحيت قال : فان الله لا يستحي من الحق فأشارت بيدها ثلاثة اشهر والا فأربعة اشهر فكتب عمر رضي الله عنه ان لا تحـبس الجيوش فوق أربعة اشهر"[2]

ایک عورت نے اپنے خاوند کی شکایت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس کی کہ وہ نماز  روزہ میں مشغول  رہتاہے (یعنی اپنی عورت کا حق ادا نہیں کرتا)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس کو چوتھے دن اپنی عورت کی طرف ر جوع کرنے کا حکم دیا۔پر آپ طواف کررہے تھے کہ ایک عورت نے اشعار میں اپنے خاوند کے فراق پر اشتیاق ظاہر کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پوچھا تمھیں کیا ہوا ہے؟اس نے کہا کہ آپ نے میرے خاوند کو کئی مہینوں سے باہر بھیجاہوا ہے،اس لیے میں فراق کیوجہ سے اس کی مشتاق ہوں۔آپ نے فرمایاتو صبرکر۔میں قاصد اس کی طرف بھیجتاہوں اورآپ حفصہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس،جوحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم   کی حرم تھیں،پہنچے اور ان سے مسئلہ دریافت کیا کہ کتنے عرصے کے بعد عورت اپنے خاوند کااشتیاق کرسکتی ہے؟انھوں نے فرمایا:تین ماہ یا نہایت چارماہ،اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سپہ سالاروں کے نام حکم جاری کیا کہ چار ماہ سے اوپر لشکر گھروں سے روکے نہ جائیں۔

ان احکام قرآنی کا جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے صادر فرمائے ہیں،صاف اور صریح مفاد ہے کہ جو شخص زوجہ کے پاس جانے سے انکارکرے اور اس پر مصر رہے تو اس کی زوجہ کو طلاق لینے کا استحقاق ہے کہ وہ حاکم وقت کی طرف رجوع کرے اور اس کے حکم سے طلاق لے،اگر خاوند اپنے ظلم  پر قائم رہے۔حق ادا کرنے کی شارع نے کوئی میعاد مقرر نہیں کی ہے اور عورت کو ہر وقت شوہر سے یہ کہنے کا اختیار دیا ہے کہ تو مجھ کو کھانے کو دے یا طلاق دے۔

"قال :يا رسول الله صلي الله عليه وسلم: امرأتك ممن تعول ، تقول : أطعمني وإلا فارقني"[3]

(رواہ احمد والدارقطنی  ورواہ الشیخان فی الصحیحین)

"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:تمھاری بیوی ان لوگوں میں شامل ہے،جس کی کفالت وپرورش کے تم ذمے دار ہو۔وہ کہتی ہے:مجھے کھلاؤ مجھے(اپنے نکاح سے) الگ کردو(یعنی طلاق دے دو)

"وظاهر الأدلة أنه يثبت الفسخ للمرأة بمجرد عدم وجدان الزوج لنفقتها بحيث يحصل عليها ضرر من ذلك فقيل :انه  يؤجل الزوج مدة ; فروي عن مالك أنه يؤجل شهرا ، وعن الشافعية ثلاثة أيام ولها الفسخ في أول اليوم الرابع وروي عن حماد ان الزوج يوجل سنة ثم يفسخ قياسا علي العنين فهل تحتاج المراة الي الترافع الي الحاكم؟روي عن المالكية في وجه لهم انها ترافعه الي الحاكم ليجبره علي الانفاق او يطلق عنه(نيل الاوطار:٦/٢٦٥)
واليه ذهب الجمهور العلماء كما حكاه صاحب البحر عن علي رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه وابي هريرة رضي الله عنه والحسن البصري وسعيد بن المسيب وحماد وربيعة ومالك واحمد بن حنبل والشافعي والامام يحييٰ وحكي صاحب الفتح عن الكوفين انه يلزم المراة الصبر وتتعلق النفقة بدمة الزوج وحكاه في البحر عن عطاء والزهري والثوري والقاسمية وابي حنيفه واحد قولي الشافعي(نيل الاوطار:٦/٢٦٤)

اس حدیث کو امام احمد وبخاری ومسلم ودارقطنی نے روایت کیا ہے اور کتاب نیل الاوطار میں کہا ہے کہ ظاہر دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف خاوند کے نادار اور عورت کو خرچ دینے سے ناچار ہوجانے پر عورت کو حق فسخ نکاح حاصل ہوجاتاہے۔پرکہا گیا ہے کہ شوہر کو کچھ مہلت بھی دی جائے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ شوہر کو ایک ماہ کی مہلت دی جائے۔شافعیہ کہتے ہیں کہ تین دن کی مہلت دی جائے،چوتھے دن کے شروع میں عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔امام حماد شوہر نامرد کے حکم پر قیاس کرکے ایک سال کی مہلت دیتے ہیں۔پھر کہا کہ کیا عورت  کو فسخ نکاح کے لیے حاکم کی طرف مرافعہ کی حاجت ہے؟مالکیہ سے  روایت ہے کہ عورت حاکم کی طرف رجوع کرے کہ وہ اس کو خرچ دینے پر مجبور کرے یا اس سے  طلاق دلوائے۔یہ حکم استحقاق فسخ نکاح بوجہ ناداری وناچاری شوہر اصحاب نبویہ میں حضرت عمر  فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اور تابعین میں حسن بصری وسعید بن مسیب سے اور ائمہ میں  حماد وربیعہ ومالک امام شافعی وغیرہ سے منقول ہے اور ائمہ کوفہ وغیرہ کہتے ہیں کہ عورت کو صبر کرنا لازم ہے اسے قرض لے کر گزارا کرنا چاہیے جس کا ادا کرنا شوہر کے ذمہ ہوگا۔

یہ اختلاف بعض ائمہ کا اس صورت میں ہے کہ شوہر خرچ دینے سے عاجز وناچار ونادار ہوجائے اور اگرکوئی شوہر باوجود استطاعت کے عورت کو خرچ نہ دے اور دوسری عورت سے  جائز وناجائز تعلق پیداکرکے اپنی عورت کو محض ضرر رسانی کی نیت سے معلق کررکھے اور خرچ نہ دے تو ایسے شوہر سے عورت کو طلاق لینے کے استحقاق میں کسی امام مذہب کا اختلاف ثابت اور معلوم نہیں ہے اور قرآن شریف اس ضرر رساں کو ظالم ٹھہراتا ہے اور عورت کا استحقاق طلاق ثابت کرتاہے۔ایک آیت قرآن میں ارشاد ہے کہ مردوں کوعورتوں پر ایک تو قدرتی فضیلت کی رو سے حکومت کا حق حاصل ہے:

﴿الرِّجالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ ...﴿٣٤﴾... سورة النساء

"مرد عورتوں پر نگران ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو  بعض پر فضیلت عطا کی"

دوسرے اس وجہ سے کہ وہ مال(مہر ونفقہ) خرچ کرتے ہیں ،جس سے صاف ثابت ہے کہ اگرکوئی شوہر عورت کو باوجود وسعت مال مہر ونفقہ نہ دے تو اس کا حق حکومت باقی نہیں رہتاہے اور عورت طلاق لینے کی مستحق ہوجاتی ہے۔ایک آیت میں ارشاد ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت گزرنے لگے تو تم ان کو دستور کے موافق مہر وخرچ دے کر روک لو یادستور کے مطابق(اگر ان کو خرچ ومہر نہ دے سکو) اس کوچھوڑ دو اور ضرر رسانی کے لیے نہ توخرچ دو نہ خلاصی کرو،مت روکو،تاکہ ان پر تعدی کرو۔

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو سَرِّحوهُنَّ بِمَعروفٍ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة

"اور جب تم  عور توں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو،یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو ،تاکہ ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے،سو بلا شبہ اس نے اپنی جان پر ظلم کیا"

اس آیت کا صریح مفاد یہ ہے کہ خرچ نہ دینے کے ساتھ اس کو نکاح میں پھنسا رکھنا ظلم ہے،جس سے خلاصی پانے اور طلاق لینے کا عورتوں کو حق حاصل ہے۔ایک اور آیت میں ارشاد ہے کہ مطلقہ عورتوں کو اگر  پھر نکاح میں لانا چاہو تو خود رہتے ہو،وہاں ان کو بساؤ اور ان کو ضرر نہ پہنچاؤ تاکہ اس پر تمہاری طرف سے تنگی ہو(نہ کھانے کو دو،نہ دوسرے شخص سے نکاح کرنے دو۔

﴿أَسكِنوهُنَّ مِن حَيثُ سَكَنتُم مِن وُجدِكُم وَلا تُضارّوهُنَّ لِتُضَيِّقوا عَلَيهِنَّ...﴿٦﴾... سورة الطلاق

"انھیں وہاں سے رہائش دو ،جہاں تم رہتے ہو،اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لیے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔"

یہ آیت بھی صاف مشعر ومثبت ہے کہ نکاح میں لانا اس صورت میں جائز ہے کہ عورت کو اس کا حق سکنیٰ ونفقہ شوہر ادا کرے۔اگرایسا نہ کرے تو عورت کو طلاق لینے کا استحقاق حاصل ہے۔انھی قرآنی آیات سے استنباط کرکے فاروق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سپہ سالاروں کے نام فرمان جاری کیا تھا کہ جو لوگ اپنی عورتوں سے غائب ہیں،وہ یا تو ان کو خرچ بھیجیں یا ان کو طلاق دیں اور جس قدر عرصہ انھوں نے اپنی عورتوں کو نکاح میں رکھا ہے اس قدر کا خرچ بھی بھیج دیں۔

"عن عمر عند الشافعي عبدالرزاق وابن المنذر انه كتب الي امرا  الاجناد في رجال  غابوا عن نسائهم اما ان ينفقوا واما ان يطلقوا ويبعثوا نفقة ما حبسوا" (نیل الاوطار ص:263)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  عبدالرزاق اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ  عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے لشکروں کے امرا کو ان مردوں کے بارے میں خط لکھا،جواپنے پیچھے بیویاں چھوڑ کر گئے ہوئے ہیں کہ یا تو وہ ان کو نفقہ دیں یا پھر ان کو طلاق دےدیں اور ساتھ اس مدت کا بھی نفقہ دیں،جتنی مدت انھوں نے اپنی بیویوں کو روک کررکھا ہے"

اس حکم فاروقی کا(جو آیات ثلاثہ مذکورہ کے عین مطابق اور ان سے مستنبط ہے) خلاف کسی امام یامجتہد سے مروی نہیں کہ جولوگ باوجود وسعت واستطاعت کے اپنی عورتوں کو نفقہ دیں اور ا س سے انکار کریں اور اس پر مصر رہیں،ان کی عورتیں ان کے قید نکاح میں بیٹھی رہیں اور حاکم وقت سے طلاق کی درخواست نہ کریں،لہذا اس عور ت کا،جس کے بارے میں سوال ہے،یہ حق ہے کہ وہ فتویٰ کی دستاویز سے حکام وقت سے درخواست کرے کہ وہ اس کے شوہر کو اس کےحقوق جانی ومالی اداکرنے پر مجبور کریں یا اس کو طلاق دینے پر مجبور کریں۔وہ اگر طلاق نہ دیں تو حاکم وقت خود اس کی طرف سے عورت کو طلاق دےدے اور بعد عدت عورت کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کی اجازت دے۔

صورت مندرجہ سوال میں عورت مذکورہ حاکم وقت کے یہاں اس مضمون کااستغاثہ کرے کہ میرا شوہر نہ میرے حقوق ادا کرتا ہے اور نہ مجھے چھوڑتا ہے ،لہذا میرے شوہر کو حکم دیا جائے یا تووہ میرے حقوق ادا کرے یا مجھے طلاق دےدے۔

اگر وہ دوامروں میں سے کوئی امر بجانہ لائے تو حاکم وقت خود بقائم مقامی میرے شوہر کے مجھے طلاق دے دے۔اس کے دلائل مجیب کے مذکور بالا جواب  میں بمالا مزید علیہ مرقوم ہیں۔


[1] ۔مصنف عبدالرزاق (7/149)

[2] ۔مصنف عبدالرزاق (7/151)  تاریخ الخلفاء للسیوطی (ص:124)

[3] ۔مسند احمد(2/527) سنن الدارقطنی(3/695) اس حدیث میں " تقول : أطعمني وإلا فارقني "مرفوع نہیں بلکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بیان کردہ الفاظ ہیں۔دیکھیں:صحیح البخاری رقم الحدیث(5040)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:439

محدث فتویٰ

تبصرے